تکبر کیا ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث نمبر126
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم : لایدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر ، قال رجل :ان الرجل یحب ان یکون ثوبہ حسنا ونعلہ حسنا ؟ قال :ان اللہ جمیل یحب الجمال ، الکبر بطرالحق وغمط الناس ۔
{ صحیح مسلم :91الایمان ۔ سنن الترمذی : 1999 البر والصلہ }
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے دل میں ایک ذرےکے برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا ، ایک شخص نے سوال کیا : آدمی کو یہ پسند ہے کہ میرا لباس اچھا ہو اور اسکے چوتے اچھے ہوں {کیا یہ کبر میں داخل ہے }؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا : یقینا اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے ، کبر کا مطلب حق کا ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ۔
{صحیح مسلم وسنن الترمذی }
تشریح : قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ “أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ “{الزمر:60}کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے ، نیز فرمایا :” تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا “{القصص:83}یہ آخرت کا گھر ہم انہی لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں بڑائ اور کبر چاہتے ہیں اور نہ فساد ؛
زیر بحث حدیث میں بھی ارشاد نبوی ہے : کہ جس کے دل میں ذرہ کے برابر بھی کبر وغرور ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا ” جس سے پتہ چلتا ہے کہ کبر وہ برائی ہے جو جہنم میں جانے کا ذریعہ اور جنت میں داخلہ سے مانع ہے ، بظاہر یہ بہت بڑی وعید ہے لیکن اگر کبر کی اس تفسیرنبوی کوسامنے رکھا جائے جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے تو حقیقت واضح ہوجاتی ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبر کی دوقسمیں قرار دیں ۔
اول – حق کے مقابلے میں کبر : یعنی حق کو رد کردینا اور اسے قبول نہ کرنا ، لہذ جوشخص بھی حق کو ٹھکرادیتا ہے تو گویا وہ حق کے مقابلے میں تکبر سے کام لے رہا ہے ، کیونکہ ہر بندے پر فرض ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسولوں اور اپنی کتابوں کے ذریعے جو حق نازل فرمایا ہے اسکے سامنے سرتسلیم خم کردے ، بلا چون وچرا اسے قبول کرلے ، پھر جو شخص کلیۃ رسولوں کی تعلیم کا انکارکر دے رہاہے وہ کافر اور دائمی جہنمی ہے اسلئے کہ رسولوں کے ذریعے اسکے پاس حق آیا ، دلائل و براھین واضح ہوگئے لیکن چونکہ اسکے دل میں کبر کا ناپاک مرض ہے اسلئے اس نے قبول حق سے انکار کردیا ارشاد باری تعالی ہے : إِن فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ “ان کے دلوں میں اور کچھ نہیں ٍصرف تکبر ہے اور وہ اس کو پہنچنے والے نہیں “{غافر:56} اور وہ شخص جو مکمل طور پر حق کا ا نکاری ہو بلکہ رسولوں کی اتباع پر مجملا ایمان رکھتا ہے ،البتہ بعض وہ باتیں جو اسکی رائے کے خلاف ہوں اسکی خواہش سے ٹکراتی ہوں ،
اسکے مسلک اور علاقے کی عادات وتقالید سے متصادم ہوں جنھیں وہ تعصب وخواہش کی بنیاد پر رد کردیتا ہے تو ایسا شخص کافر تو نہیں ہے البتہ جس قدر تکبر اور حق کی قبولیت سے دوری اسمیں پائی جائے گی اسی قدر جہنم میں جلنے کی وعید کا مستحق ٹھرے گا ،اسی لئے علماء کا اتفاق ہے کہ کوئی بھی ہو، اگر اسکے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت واضح ہو جائے تو اسکے لئے جائز نہیں ہے کہ اسکو چھوڑ کر کسی اور کی بات پر توجہ دے خواہ وہ شخص کتنا ہیبڑا کیوں نہ ہو، پس ہر مسلمان خواہ عالم ہو یا طالب علم اس پر واجب ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کے فرمان کو ہر ایک کے قول پر مقدم رکھے ، اس کو بنیاد اور اصل بنائے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے کی تلاش میں لگا رہے اور ظاہر و باطن ہر طور پر اسے اپنائے ۔
چنانچہ جس شخص کو یہ توفیق مل گئی اسے ہر خیر کی توفیق مل گئی ، وہ کبر سے بری ہوا اور جہنم سے کوسوں دور کردیا گیا ۔
دوم – مخلوق کے مقابلے میں تکبر ، کبر جو دخول جنت میں مانع ہے یہ اسکی دوسری قسم ہے یعنی لوگوں کو اپنے سے حقیر سمجھنا ، خود بینی میں مبتلا ہونا اور “ہم چنیں دیگر ے نیست ” کے مرض سے دوچار ہونا اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب آدمی اپنے کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے اور لوگوں پراپنی برتری ظاہر کرناچاہتاہے ، وہ یہ نہیں چاہتا کہ کوئی اسے ٹوکے یا کوئی اسکی غلطی کی نشاندہی کرے بلکہ جو کچھ وہ سمجھ رہا ہو تا ہے وہی حق ہے ، جو عقل اسے ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے ایسا شخص یقینا اس حدیث میں وارد وعید میں داخل ہے، سچ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ” کسی شخص کے برا ہونے کی لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے”
{صحیح مسلم بروایت ابو ھریرة }
البتہ جہاں تک اپنے لباس میں کسی سے بہتر بننے اور اپنے مظہرمیں لوگوں سے اچھے دکھنے کا تعلق ہے تو وہ کبر میں داخل نہیں ہے بلکہ چونکہ اللہ تعالی اپنے افعال واقوال اور اپنی ذات و صفات میں خوبصورت ہے اسلئے اپنے بندوں سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے ظاہرو باطن ، اخلاق وافعال اورملبس و مسکن کو صاف ستھرا اورخوبصورت بنانے کی عادت بنائیں ۔
فائدے :
1 : عظمت وکبریائی صرف باری تعالی کیلئے زیبا ہے ۔
2 : معمولی کبر وغرور بھی انسان کے لئےجنت میں داخلے سے رکاوٹہے ۔
3 : حق کو قبول نہ کرنا اور نصیحت کرنے والے کو اپنے سے حقیر سمجھنا ہی اصل ‘ کبر’ ہے ۔
4 : اپنے ظاہر وباطن کو عمدہ بنانا اگر بطور ریاء و غرور کے نہیں ہے تو یہ چیز شریعت میں مطلوب ہے ۔
ختم شدہ