روزی کا انتخاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث نمبر127
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال :قال رسوال اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :ایہا الناس لیس من شیئ یقربکم الی الجنۃ ویباعدکم من النار الاقدامرتکم بہ ولیس شیئ یقربکم من النار ویباعدکم من الجنۃ الا قد نہیتکم عنہ وان الروح الامین قد نفث فی روعی ان نفسا لن تموت حتی تستکمل رزقہا الا فاتقوا اللہ واجملوافی الطلب ولا یحملنکم استبطاء الرزق ان تطلبوہ بمعاصی اللہ فانہ لایدرک ماعند اللہ الابطاعتہ۔
{ مستدرک الحاکم 2ص4 ۔ شرح السنۃ14ص303 }
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا : اے لوگو: کوئی ایسی چیز نہیں ہےجوتم کوجنت سے قریب کرے اور جہنم سے دور کرے مگر اسکا حکم میں تم لوگوں کو دے چکا ہوں اور اسی طرح کوئی ایسی چیز نہیں ہے جوتمھیں جہنم سےقریب کرے اور جنت سے دور کرے الایہ کہ اس سے میں نے تم لوگوں کو روک دیا ہے ، اور روح الامین {حضرت جبرئیل}نے ابھی میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ کوئی متنفس اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ اپنا رزق پورانہ کرلے ، لہذا اے لوگو ؟ اللہ تعالی سے ڈرو اور روزی طلب کرنے کا اچھا طریقہ اختیار کرو ، روزی میں کچھ تاخیر ہوجانا تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ اسے اللہ کی نافرمانی اور غیر مشروع طریقے سے حاصل کرو ، کیونکہ جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے طاعت گزاری کے ذریعہ ہی اسے حاصل کیا جاسکتا ہے ،
{ مستدرک الحاکم و شرح السنہ} ۔
تشریح : اللہ تبارک وتعالی نے اس دنیا میں رسولوں کی بعثت کا سلسلہ اسی لئے رکھا ہے تا کہ رسول لوگوں کو انکے معاش ومعاد کے بارے میں صحیح راہ سے روسناش کرائیں ، جائز وناجائز ،حلال وحرام اور مفید وغیر مفید امور سے متعلق انکی رہنمائی کریں ، زیر بحث حدیث کے ابتدائی حصے میں اسی بات کی وضاحت ہے کہ کوئی نیکی اور ثواب کی بات ایسی باقی نہیں رہی ہے جسکی تعلیم میں نے تم کو نہ دے دی ہو اور کوئی بدی اور گناہ کی بات ایسی نہیں رہی جسکی میں نے تم کو ممانعت نہ کردی ہو، اس طرح اوامر ونواہی کی پوری تعلیم میں تم کو دے چکا ہوں اور اللہ تعالی کے تمام مثبت ومنفی احکام جو مجھے ملے تھے وہ تم کو پہنچا چکا ہوں ۔حدیث کا یہ ابتدائی حصہ صرفتمہید ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعہ پر در اصل وہی خاص بات اپنے مخاطبین کو بتلانا اور پہنچانا چاہتے تھے جو جبرئیل امین نے اس وقت آپکے دل میں ڈالی تھی لیکن مخاطبین کے ذہن کو پوری طرح متوجہ کرنے کیلئے آپنے پہلے ارشاد فرمایا کہ لوگو حلال وحرام اور گناہ وثواب کی پوری تعلیم میں تم کو دے چکا ہوں ، اب ایک اہم تکمیلی بات جو ابھی جبرائیل امین نے مجھے پہنچائی ہے میں تم کو بتانا چا ہتا ہوں ۔
اس تمہید کے ذریعہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مخاطبین کے ذہنوں کو بیدار اور متوجہ کیا اور اسکے بعد وہ خاص بات ارشاد فرمائی جس کا حاصل یہ ہی ہے کہ ہر شخص کا رزق مکتوب اور مقدر ہو چکا ہے ،وہ مرنے سے پہلے پہلے اس کو مل کر رہے گا ، اور جب معاملہ یہ ہے تو آدمی کو چاہئے کہ اگر روزی میں کچھ تنگی اور تاخیر بھی ہو جب بھی وہ اسکے حاصل کرنے کےلئے کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جو اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف ہو اور جس میں اس کی نافرمانی ہو تی ہو ، بلکہ اللہ تعالی کی رزاقیت پر یقین رکھتے ہوئے صرف حلال اور مشروع طریقوں ہی سے اسکے حاصل کرنے کی کوشش کرے ، کیونکہ اللہ تعالی کا فضل و انعام ، اس کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری ہی کے راستہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ اس کو ایک جزئ مثال کے انداز میں آسانی سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ فرض کیجئے اللہ کا کوئی بندہ تنگ دستی میں مبتلاہے اور اسکو اپنا پیٹ بھر نے کیلئے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے ، اس موقعہ پر وہ ایک شخص کو دیکھتا ہے کہ وہ سورہا ہے ، شیطان اسکے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس سونے والے شخص کی کوئی چیز اٹھالے اور ابھی ہاتھ کے ہاتھ بیچ کر روزی حاصل کرلے ، ایسے وقت کیلئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم ہے کہ یقین رکھو جو روزی تم کو پہنچنے والی ہے وہ پہنچ کر رہے گی ، پھر کیوں چوری کر کے اپنے اللہ کو ناراض ، اپنے ضمیر کو ناپاک ، اور اپنی عاقبت کو خراب کرتے ہو ، بجائے چوری کرنے کے کسی حلال اور جائز ذریعہ سے روزی حاصل کرنے کی کوشش کرو ، حلال کا میدان ہر گز تنگ نہیں ہے ۔ {معارف الحدیث}
فائدے :
اسلام ایک کامل دین ہے ۔
بندوں پر اللہ تعالی کا عظیم احسان کہ انہیں حلال وحرام کی تمییز کرائ ۔
ہر انسان کی روزی مقسوم اور اسکی اجل متعین ہے ۔
ختم شدہ