معروف اور منکر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث نمبر128
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسوال اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان ۔
{صحیح مسلم 49 ،الایمان ۔سنن ابوداود1140،الصلاۃ ۔ سنن ابن ماجہ 1275،اقامۃ الصلاۃ }
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرمارہے تھے: جو شخص تم میں سے کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر طاقت نہیں ہے تو اپنی زبان سے {برائی کو دور کرے }اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے {اسے برا جانے }اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔
{صحیح مسلم ۔سنن ابوداود ۔ سنن ابن ماجہ }
تشریح : ارشاد باری تعالی ہے :كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ }تم بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے پیداکی گئ ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو ۔{آل عمران 110}
اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کے خیر امت ہونے کی تین شرطیں بیان ہوئی ہیں
{1}وہ معروف {بھلائی}کاحکم دیتے ہیں،
{2}وہ منکر{برائی} سے روکتے ہیں ،
{3}اللہ و رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔”
شرعی اصطلاح میں نیکی{معروف}ہروہ کام ہے جسکا شریعت نے حکم دیا ہے اور برائی {منکر }ہروہ کام ہے جوشریعت کے خلاف ہے” ۔ اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو اس امت {خیر امت}میں شریک ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اس شرط کو پوری کرے ۔{تفسیر ابن کثیر ص396،ج1}
لہذا بحثیت ایک مومن ہونے کے ہر مسلمان پر مرد ہو یا عورت ،عالم ہو یا عامی، اس منصب پر کسی کی طرف سے متعین ہو یا نہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضۃ کی انجام دہی لازم ہے، خصوصا ایسے وقت میں جبکہ اپنی آنکھوں سے اللہ تعالی کی نافرمانی ہوتی دیکھ رہا ہو تو بقدر طاقت اس گناہ کو مٹادینے کیلئے قوت کا لگا دینا ہر مسلمان کی اہم ترین ذمہ داری ہے ،زیر بحث حدیث میں اسی چیز کی اہمیت واضح کی گئی ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :” تم میں سے جو شخص بھی کوئی براکام ہوتا دیکھے” یعنی اس کے مشاہدے میں کوئی برائی آئے یا اسے یقینی طور پرمعلوم ہو جائے کہ فلاں جگہ یا فلاں شخص سے کسی برے کام کا صدور ہو رہا ہے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے جیسے کسی کے ہاتھ میں شراب کی بوتل ہے تو اسے توڑ کر پھینک دے ، کوئی شخص کسی عورت کو پکڑ کر اس سے زناکرنا چاہتا ہے تو اس سے چھڑا لے ،یا کسی کے ہاتھ میں کوئی بری چیز دیکھ رہا ہو تو اس سے چھین کر پھینک دے ،لیکن اسکے لئے ضروری ہے کہ
{اولا}برائی کو دیکھنے والا شخص اس پر قدرت رکھتا ہو ،
{ثانیا}اس چیز کا برا ہونا شرعی دلائل سے ثابت اور متفق علیہ ہو ،
{ثالثا} اس منکر کےازالے سے کوئی بڑا فتنہ یا اس سے بڑی برائی پیدانہ ہو جائے ۔
جب یہ شرطیں پائی گئیں تو ہر شخص پر خواہ وہ مردہو یا عورت اس برائی کا ازالہ واجب ہوگا ،
لیکن اگر اپنے ہاتھ سے اس برائی کو ختم کرنے کی طاقت نہیں ہے یا طاقت تو ہے لیکن اسکے ازالے کی وجہ سےجان یاعزت کو خطرہ ہے یا فتنہ پیداہوجانے کا ڈر ہے تو اس برائی کا ازالہ ہاتھ سے نہ کیا جائے گا بلکہ اس صورت میں زبان وقلم سے انکار کیا جائے گا ،
ڈاٹ پھٹکار ، افہام وتفہیم ،ترغیب وتر ہیب کا جو اسلوب بھی بہتر ہوگا اسے استعمال کرکے اس برائی سے روکا جائے گا ، خطبوں اور تقریروں میں اسکی قباحت بیان کی جائے گی اور پرچوں ، اخباروں اور میگزینوں میں اسکے خلاف آواز اٹھائی جائے گی حتی کہ خصوصی خطوط وغیرہ کے ذریعہ سے بھی اس برائی سے متنبہ کیا جائے گا ، لیکن اسکے لئے بھی وہی شرطیں ہیں کہ
{اولا}روکنے والا روکنے پر قدرت رکھتا ہو ،
{ثانیا}اس منکر کا برائی ہونا واضح وظاہر اور اہل علم کے نزدیک متفق علیہ ہو ،
{ثالثا}اس برائی کے خلاف آواز اٹھانے اور لکھنے سے کسی بڑے فتنے یا جان وعزت اور اہل وعیال پر ضرر کا خطرہ نہ ہو ۔
برائی سے روکنے کے یہ دونوں طریقے بڑے اہم اور کسی معاشرے کو ہلاکت سے بچانے میں بڑے ہی کار آمد ہیں ، “مسلمان جب تک اس پر عمل کرتے رہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضۃ حسب استطاعت بلاخوف لومت لائم اداکرتے رہے مسلمان معاشرہ بہت سی قباحتوں اور گناہوں سے محفوظ رہا اور جب مسلمانوں نے اس فریضے کو فراموش کردیا ، مصلحت پسندی اور غیر اللہ کاخوف انکے دلوں میں آگیا تو انکا معاشرہ منکرات کے سیلاب بے پناہ کی زد میں آگیا “اور ہر طرف سے مختلف شکلوں میں عذاب الہی نے ان پر دھاوا بولدیا ، سچ فرمایا نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے : جس کسی قوم میں گناہ کے کام ہورہے ہوں اور وہ لوگ اسے مٹانے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ مٹائیں تو عنقریب اللہ تعالی ان تمام پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے
{سنن ابوداود،سنن الترمذی بروایت ابوبکر الصدیق }
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے :قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم لوگ ضرور نیکی کاحکم کرو اور ضرور برائی سے رو کو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالی تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب نازل کردے ، پھر تم لوگ دعائیں کروگے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیں گی
{سنن الترمذی بروایت حذیفہ }
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ترک پر اتنی عظیم وعید کے باوجود آج مسلمانوں کا عام طبقہ بلکہ خاص لوگوں کا طبقہ بھی اس فریضۃ کی ادائیگی میں کوتاہے ۔{الآمان والحفیظ} برائی کے مشاھدے کےبعد مسلمان کی ایک اور ذمہ داری کاذکر اسی حدیث میں مذکور ہے ، وہ یہ کہ اگر کسی کے پاس زبان سے بھی کسی منکر کو برائی کہنے اور اس سے منع کرنے کی طاقت وہمت نہ ہو تو آخری فریضۃ یہ رہ جاتا ہے کہ اسے دل سے برا سمجھے ، اس سے نفرت کرے اور یہ تمنا کرے کہ کاشکہ ایسانہ ہوتا اور کوشش یہ رہے کہ اس جگہ کو چھوڑ کر ہٹ جائے ، لیکن اگر کسی کے دل سے یہ احساس بھی ختم ہو جائے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ شخص مومن ہی نہیں ہے ، اسے سب سے پہلے خود اپنے ایمان اور اپنے دل سے اس بیماری کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، البتہ دل سےاسے برا نہ سمجھنا ، ایسے لوگوں سے قلبی بغض نہ رکھنا او رانکا ہم نوالہ وہم پیالہ بنارہنا اس بات کی دلیل ہے کہ دل سے ایمان کی روشنی رخصت اور اس میں کفر ونفاق کا اندھیر ا اپنااڈا جما چکا ہے ۔
فوائد:
1 ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مسلمانوں پر ایک اہم فریضۃ ہے ۔
2 ۔ کسی معاشرے سے برائی کو دور کرنے کی کوشش اس پر عذاب الہی کے دور ہونے کی ضمانت ہے ۔
3 ۔ کسی برائی کو دل سے برا نہ سمجھنا اس بات کی دلیل ہے کہ دلمیں ایمان نہیں ہے ۔
ختم شدہ