موت کی تمنا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث نمبر131
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : لاَ يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَهُ فَإِنْ كَانَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَلْيَقُلِ اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي.
{صحیح البخاری :5671المریض،صحیح مسلم :2680 الذکر}
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں کا کوئی شخص کسی تکلیف کے سبب جو اسے پہنچے موت کی تمنا نہ کرے ، اور اگر اسے موت کی تمنا کرنی پڑ جائے تو اسطرح دعا کرے ” اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي ” اے اللہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لئے بہتر ہو اور جب موت میرے لئے بہتر ہوجائے تو مجھے موت دے دے۔
{صحیح بخاری وصحیح مسلم }
تشریح : انسانی زندگی پر خوشی وغمی ، وسعت و تنگی ، آسانی ومشکل اور خوشحالی وبدحالی کے ادوار آتے رہتے ہیں لیکن چونکہ یہ زندگی اللہ تعالی کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے اسلئے اس پر جو حالات بھی آئیں ایک مسلمان کے لئے اسمیں خیر ہی خیر ہوتی ہے، ارشاد نبوی ہے “مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ،اسکے ہر کام میں اسکے لئے بھلائی ہی بھلائی ہے اور یہ چیز مومن کے علاوہ کسی اورکو حاصل نہیں ہے ، چنانچہ اگر اسے خوش حالی نصیب ہو تو اس پر اللہ کا شکر اداکرتا ہے تو یہ اسکے لئے بہتر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو اس پر وہ صبر کرتا ہے تو یہ بھی اسکے لئے بہتر ہے “{صحیح مسلم }اسلئے اس نعمت {زندگی} کے زوال کی تمنا کرنا اور کوشش کرنا کسی مومن کا کام نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان کو موت کی تمنا سے روکا گیا اور خود کشی کو اللہ تعالی کے نزدیک سخت ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ۔ زیر بحث حدیث میں اسی تو جیہ نبوی کا ذکر ہے کہ دنیا وی مصیبت اور تکلیف کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو اسکی وجہ سے موت کی تمنا نہیں کرنا چاہئے خواہ بیماری ہو ، فقرو فاقہ ہو ، خوف ہو یا کسی پریشان کن حالت میں پڑ نے کا ڈر ہو وغیرہ وغیرہ کسی بھی حالت میں موت کی تمنا کرنا یااس سے آگے بڑھ کر خود کشی کرلینا ایک مومن کے شایان شان نہیںہے، کیونکہ اسمیں بہت سی خرابیاں اور نقصانات ہیں جیسے :
{1} ایک مومن سے مطالبہ ہے کہ وہ مصیبت و پریشانی پر صبر و احتساب سے کام لے جبکہ موت کی تمنا کا معنی یہ ہے کہ وہ تقدیر الہی پر ناراضگی اور بے قراری و تنگ دلی کا اظہار کررہاہے ، فرمان نبوی ہے : صبر سے کام لو اور اجر کی امید رکھو
{صحیح بخاری ،12840 الجنائز}
{2} ایک مومن سے مطالبہ ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں کاہلی ، پست ہمتی اور ناامید ی کا شکار نہ ہو بلکہ مصائب و پریشانی کے وقت میں حتی الامکان انہیں دور کرنے کی کوشش کرے ، اللہ تعالی پر توکل اور اسکے ساتھ حسن ظن کو لازم پکڑے ،
ارشاد نبوی ہے : اس چیز کی حرص کرو جو تمھارے لئے مفید ہو، اللہ تعالی سے مدد طلب کرو اور ہمت نہ ہارو {صحیح مسلم ، 2664} جبکہ موت کی تمنا کر نے والا اور خود کشی کرنے والا شخص اپنے آپ کو پیش آمد ہ حالات کے حوالے کردے رہا ہے اور بزدل ہو کر بیٹھ جارہا ہے ۔
{3} ایک مومن کا عقیدہ ہوتا ہے کہ موت کی سختیاں ، قبر کے فتنے اور عذاب اور عالم برزخ کی ہولناکیاں دنیاوی مصیبت سے کہیں زیاہ سخت اور درد انگیز ہیں ۔ارشاد نبوی ہے : “ہم نے قبر سے خوف ناک کسی اور منظر کو نہیں دیکھا”
{سنن التر مذی }
پھر موت کی تمنا اور خود کشی جہالت وحماقت نہیں تو اور کیا ہے، اسکا تو معنی یہ ہے کہ بارش کے چھینٹوں سے بچنے کےلئے پرنالے کاسہارالیاجارہا ہے ۔
{4}ایک مومن کا عقیدہ ہے کہ موت کے بعد انسان کے نیک اعمال کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے اور کسی بھی شخص کو ایک بار موت کے آجانے کے بعد دوبارہ عمل کا موقعہ نہیں دیا جاتا ۔ ارشاد نبوی ہے :” انسان جبمرجا تا ہے تو اسکے عمل کا سلسلہ ختم ہوجا تا ہے” الحدیث {صحیح مسلم } حالانکہ ایک مصیبت زدہ اور پریشان حال انسان جس حالت سے گزر رہا ہے اسمیں کیا گیا معمولی سا نیک عمل بھی دنیا ومافیہا سے بہتر ہے ،تو اس حالت سے بھاگنا اور چھٹکارا حاصل کر نا اور ایسی حالت کی تمنا کرنا جسمیں نیک عمل اور توبہ کی مطلقا گنجائش نہ ہو ، نادانی نہیں تو اور کیا ہے ۔
{5} ایک مومن کا عقیدہ ہو تا ہے کہ اپنے رب کریم ، روف رحیم کے بارے میں بد ظنی کا شکار ہونا نہایت ہی عظیم جرم اور منافقوں کی نشانی ہے اور اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن ایمان کی علامت ہے۔ حدیث قدسی میں ہے “میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھے”
الحدیث {صحیح بخاری و مسلم }
اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن کا معنی یہ ہے کہ اسکی بابت یہ یقین رکھا جائے کہ وہ پریشان حال لوگوں کی چارہ سازی فرماتا ہے ، مصیبتوں سے نجات دیتا ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ بھر مصیبت کے وقت میں صبر واحتساب ، توبہ و دعا، توکل اور اللہ تعالی پر یقین کا سہارا نہ لینا بلکہ موت کی تمنا کرنا بے ایمانی و بدعقیدگی نہیں تو اسے کس چیز کا نام دیا جائے ۔
موت کی تمنا کرنے اور خود کشی کے ذریعہ زندگی جیسی نعمت سے ہاتھ دھولینے کے اور بھی بہت سے نقصانات ہیں، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے موت کی تمنا سے منع فرمایا ہے ، ہاں ؛کبھی کبھا ر ایسے حلات آجاتے ہیں کہ ایمانی کمزوری کی وجہ سے اس ضعیف اور ظلوم و جہول انسان کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگتا ہے لیکن چونکہ وہ یہ نہیں جانتا کہ موت اسکے لئے بہتر ہے یا زندگی،اس لئے اس پر واجب ہے کہ ایسے حالات میں وہ اپنے رب کا سہارا لے اور اس حدیث میں مذکور دعائیہ کلمات کے ذریعہ دعا کرے ۔
فائدے :
1 ۔ موت کی تمنا کرنا جائز نہیں ہے ،البتہ اگر معاملہ دین کے خطرے میں پڑ جانے کا ہو یا فتنہ و فساد کے ایسے حالات ہو ں کہ ایمان و عمل پر فساد کا ڈر ہے تو موت کی تمنا کی جاسکتی ہے ، جیسا کہ حضرت مریماور بعض صحابہ۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ سے ثابت ہے ۔
2 ۔ اللہ تعالی کے راستے میں شہادت اور اللہ تعالی سے ملا قات کے شوق میں موت کی تمنا کی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ حضرت یوسف رضی اللہ عنہ{سورۃ یوسف ،101} اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی د
{صحیح البخاری ، 5674}
3 ۔ مومن کی زندگی اسکے لئے خیر ہی خیر ہے کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو بہت ممکن ہے کہ مزید نیکیا ں کرے اور اگر بدکار ہے تو زندگی اسکے لئے تو بہ کا موقعہ فراہم کررہی ہے۔
ختم شدہ