جنتی عورت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث نمبر133
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن عبد الرحمن بن عوف قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا صلت المرأة خمسها وصامت شهرها وحفظت فرجها وأطاعت زوجها قيل لها أدخلي الجنة من أي أبواب الجنة شئت ۔
{مسند احمد: 1ص191، الطبرانی الأوسط :8800 ،9/372}
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ، اپنے ماہ {رمضان } کا روزہ رکھ لے ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرلے ، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں اسکے جس دروازے سے داخل ہونا چاہے داخل ہوجا ۔
{مسند احمد، الطبرانی الاوسط}
تشریح : اس حدیث میں ایک مسلمان عورت کیلئے عظیم خوشخبری ہے ، جسمیں چند ایسے کام کا ذکر ہے جنکا کرنا مشکل اور زیادہ مشقت آمیز تو نہیں ہے پھر بھی اسکے اہتمام پر ایک مومن عورت کےلئے یہ عظیم بشارت دی گئ ہے کہ وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے اور وہ بھی بغیر کسی پیشگی عذاب کے، خواہ اس دروازے سے داخل ہونے والے لوگوں جیسے اسکے عمل ہو ں یا نہ ہوں ۔سبحان اللہ ۔ یہ ایسی فضیلت ہے کہ میری ناقص معلومات کی حد تک مردوں کو حاصل نہیں ہے۔
{1}پانچ وقت کی نماز کا اہتمام : اسلام میں نماز کی جو اہمیت ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے قرآن وحدیث میں نماز کی اہمیت ، اسکی فضیلت اور اسکے ترک پر وعید کے دلائل بے شمارلیکن ، یہاں خصوصی طور پر عورتوں کو پنچ وقتہ نماز کے اہتمام کا حکم شاید اسلئے دیا گیا ہے کہ فطری کمزوریوں اور بعض حالات کے پیش نظر عورتوں سے نماز میں قابل ملاحظہ حد تک کوتاہی ہوتی ہے ،مثلا
ا ۔ کوئی بھی عورت جو اپنی عمر وصحت کے لحاظ سے درست حالت پر ہے وہ متواتر نماز نہیں پڑھ سکتی کیونکہ حیض و نفاس سے اسے دوچار ہونا پڑتا ہے ، جسکی وجہ سے کئی دن اسے نماز سے رکے رہنا پڑتا ہے پھر چونکہ نماز کا سلسلہ کئی دن تک ٹوٹ گیا ہے لہذا دوبارہ نماز پڑھنا بھاری پڑتا ہے ، اور یہ چیز انسان کی فطرت میں ہے کہ جو عمل برابر لگا تار ہوتا رہے اسکی ادائیگی نفس پر آسان ہوتی ہے اور اگر اسکا سلسلہ ٹوٹ جائے تو وہی عمل نفس پر بھاری پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ نماز کی پابندی میں عورتوں سے کوتاہی واقع ہوتی ہے ۔
ب ۔ مردوں پر چونکہ جماعت واجب ہے یا سنت موکدہ ہے اور اذان کے بعد ایک محدود وقت میں ان سے نماز کی ادائیگی کا مطالبہ ہے ، اور یہ بات مشاھدے میں ہے کہ جوکام باجماعت اور لوگوں کی موجودگی میں ہو اسکی طرف طبیعت مائل رہتی ہے اور جوکام اکیلے اور تنہا ئی میں کرنا پڑے اس سے بہت جلد دل اکتاجاتا ہے ، اب چونکہ عورتوں کو تنہا نماز پڑھنا رہتا ہے اور نماز کے پورے وقت میں کسی بھی وقت وہ نماز بڑھ سکتی ہے اسلئے ان سے نماز میں سستی و کوتاہی کاواقع ہوجانا ایک طبعی امر ہے ۔
ج ۔ جسم ،کپڑا اور جگہ کی طہارت نماز کے لئے شرط ہے اور چونکہ بچوں والی اور دودھ پلانے والی عورتوں کیلئے ہر وقت پاک صاف رہنے کیلئے بڑےاحتیاط کی ضرورت پڑتی ہے خاصکر ان غریب علاقوں میں جہاں بچوں کے پیشاب و پیخانہ سے بچنے کیلئے بعض خاص لباس کا اہتمام نہیں ہوتا جسکی وجہ سے عام طور عور توں کے جسم وکپڑے نجس ہوجاتے ہیں ، پھر سردی کے موسم میں طہارت انکے لئے ایک مشکل کام ہوتا ہے ، نتیجہ نماز میں کوتاہی کی صدرت میں نکلتا ہے ۔ اسی طرح کی دیگر اور بھی وجوہات ہیں جنکے سبب عورتوں سے پنج وقتہ نماز کی پابندی میں کوتاہی ہوتی ہے اسلئے انہیں اس امر پر خصوصی طور پر متنبہ کیا گیا ہے ۔
{2}رمضان کے روزے : رمضان کے روزے اسلام کا اہم رکن اور رضائے الہی کے حصول کا بڑا اہم ذریعہ ہیں ، چونکہ بعض اہم فطری تقاضوں جیسے حیض ونفاس کی وجہ سے عورتوں کے فرض روزے چھوٹ جاتے ہیں ، اور کبھی کبھار تو بعض عورتوں کو رمضان میں ایک سے زائد بار حیض کا خون آجاتا ہے جسکی وجہ سے انکے کئی دن کے روزے چھوٹ جاتے ہیں ، پھر رمضان گزر جانے کے بعد اپنے شوہر کی خدمت اور بچوں میں مشغول ہوکرنیز تنہا رہ جانے کی وجہ سے ان روزوں کی قضا بہت مشکل ہوجاتی ہے جیسا کہ یہ امر مشاھدے میں ہے ، اور اگر رمضان میں عورت حاملہ یا اسکا بچہ دودھ پی رہا ہے تو چھوٹے ہوئے روزوں کی تعداد اور بڑھ جاتی ہے جنکی قضا میں مشکل پیش آتی ہے ، اسلئے اس حدیث میں خصوصی طور پر ماہ رمضان کے روزوں کے اہتمام اور انکی رعایت کا حکم دیا گیا ۔
{3} شرمگاہ کی حفاطت : شرمگاہ کی حفاطت سے مراد زنا، لواطت اور سحاق وغیرہ سے پرہیز ہے جو کبیرہ گناہ اور بے حیائی کے کام ہیں ،اور چونکہ زنا عمومی طور پر عورت کی شیریں کلامی ، نرم گفتگو اور جسمانی حرکتوں کا نتیجہ ہوتا ہے نیز یہ چیز ہر شخص کے ملاحظے میں ہے کہ عورتوں کے جسم کے وہ حصے جو شرعی اور عقلی طور پر ستر کا حکم رکھتے ہیں اور انکے دیکھنے سے مرد کی رغبت عورت کی طرفشدید ہوتی ہے عورتیں ان حصوں کے چھپانے کا اہتمام نہیں کرتیں بلکہ بسا اوقات چست وفٹ لباس پہنکر اسے اور نمایاں کردیتی ہیں ، یہ بات بھی امر واقعہ ہے کہ عورت جذباتی زیادہ اور باریک بیں اور دور بیں کم ہوتی ہے اسی لئے بہت جلد انسانی درندوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہے لہذا خصوصی طور پر مسلمان عورت کو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا ، اسی طرح یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جہاں تک زنا کی قباحت کا تعلق ہے تو شرعی طور پریہ حکم مرد عورت ہر ایک کیلئے برابر ہے، البتہ ماحول ومعاشرہ میں انجام کے لحاظ سے عورت کیلئے زنازیادہ برا سمجھا جاتا ہے اور اسکے آثار بھی عورت کیلئے زیادہ رسوا کن ہوتے ہیں ، جیسے زنا کے اثر سے بسا اوقات عورت حاملہ ہو جاتی ہے اور مرد کا کچھ بھی نہیں بگڑتا ، عورت پر زنا کا الزام لگ جانے کے بعد اسکی شادی کا بہت بڑ ا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے جبکہ مرد کے بارے میں ایسا کم سوچتے ہیں ، کسی عورت کے زنا میں پڑجانے کی وجہ سے پورا خاندان رسوا ہوتا ہے ، اسی طرح یہ بات شاید ہی کہیں سننے میں آئے کہ عورت نے اس لئے طلاق کا مطالبہ کیا ہے کہ شادی سے پہلے اسکا شوہر زنا کامرتکب ہواتھا ، جبکہ یہ خبریں عام طور پر سننے میں آتی ہیں کہ فلاں عورت کو اسکے شوہر نے صرف اسلئے طلاق دے دی کہ شادی سے پہلے ایک بار اسکے قدم بھٹک گئے تھے ، اس طرح کی دیگر وجوہات کی بنیاد پر اس حدیث میں خصوصی طور پر عورتوں کو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کا حکم ہے ،
{4} شوہر کی اطاعت : گھریلو نظام کو بحسن وخوبی چلانے کیلئے اللہ تعالی نے مرد کو گھر کا سربراہ وسرپرست قراردیا ہے اور عورت کو اسکی اطاعت کا حکم دیا ہے او ر یہ حکم اسقدر لازم قرار دیا ہے کہ بغیر عذر شرعی کے کسی بھی طرح عورت کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی نافرمانی کرے ، خاصکر وہ امور جو رشتئہ ازدواجیت سے تعلق رکھتے ہیں ۔قابل غور امر یہ ہے کہ اس حدیث میں شوہر کی اطاعت کو نماز وروزہ کی پابندی اور زنا جیسے گندے کام سے پرہیز کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے جہاں ایک طرف عورت کیلئے یہ خوشخبری ہے کہ وہ اگر احکام و فرائض اسلام کی پابندی کے ساتھ اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اللہ تعالی اسکی دیگر کوتاہیوں کو معاف کرکے بغیر کسی سابقہ عذاب کے جنت میں داخل کردیگا وہیں ان عورتوں کیلئے سخت تنبیہ ہے جو اپنی بد مزاجی اور ضدی پن کی وجہ سے شوہر کی ناراضی کی پرواہ نہیں کرتیں اور اپنی راج ہٹ اور تریاہٹ پر مصر رہتی ہیں جسکی وجہ سے خانگی نظام درھم برھم رہتا ہے ۔
فوائد :
1 ۔ اسلام نے عورت کو بڑ ا اونچا مقام دیا ہے ۔
2 ۔ جس طرح عورت پر نماز وروزہ اللہ تعالی کے فریضے ہیں اسی طرح شوہر کی اطاعت بھی اللہ تعالی کا نازل کردہ فریضہ ہے ۔
3 ۔ اس حدیث میں زکاۃ و حج جیسے فرائض کا ذکر نہیں ہے جسکی وجہ شاید یہ ہے کہ اولا عورتیں مال خرچ کرنے میں مردوں کے مقابلے میں کشادہ دل ہوتی ہیں ، ثانیا عمومی طور پر عورت کے پاس اپنا مال کم ہوتا ہے اور زکاۃ و حج صاحب مال پر فرض ہیں ، ثالثا اس حدیث میں صرف وہ چار اہم کام بیان ہوئے ہیں جن میں عورتیں کوتا رہتی ہیں ۔
ختم شدہ