رمضان کیلئے شعبان کی گنتی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث نمبر134
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى قَيْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رضى الله عنها تَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: يَتَحَفَّظُ مِنْ شَعْبَانَ مَا لاَ يَتَحَفَّظُ مِنْ غَيْرِهِ ثُمَّ يَصُومُ لِرُؤْيَةِ رَمَضَانَ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْهِ عَدَّ ثَلاَثِينَ يَوْمًا ثُمَّ صَامَ.
{سنن ابوداوود:2325 الصوم ، مسند احمد 6 ص149،صحیح ابن خزیمہ :1910}
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن ابی قیس رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرماتی تھیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے چاند اور دنوں کو یاد رکھنے میں جسقدر اہتمامسے کام لیتے تھے اس قدر کسی دوسرے ماہ کے دنوں کو یاد رکھنے کا اہتمام نہیں فرماتے تھے ، پھر رمضان کا چاند دیکھکر روزہ رکھتے ، لیکن اگر انتیس شعبان کی شام کو بدلی چھاجاتی تو تیس کی گنتی پوری کرکے پھر روزہ رکھتے ۔
{سنن ابو داود ، مسند احمد ،صحیح ابن خزیمہ}
تشریح: روزہ دین کا اہم فریضہ اور اسلام کاایک رکن ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس فریضہ کی بڑی اہمیت دیتے تھے ، اسکی اہمیت کو بیان فرماتے ، روزہ داروں کے فضائل کو لوگوں کے سامنے رکھتے ، اسکے ترک پر وعید سناتے اور کھلے لفظوں میں اسے اللہ تبارک و تعالی کا نازل کردہ فریضہ قرار دیتے ۔ اس رکن اور فریضے کی ادائیگی کیلئے اللہ تعالی نے رمضان المبارک کےمہینہ کو خاص کیا ہے ” شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ” الآ یۃ {البقرۃ:185}
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتاراگیا جو لوگوں کی ہدایت کرنے والا ہے اور جسمیں ہدایت کی حق و باطل کے تمیز کی نشانیاں ہیں ،تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے تو اسے چاہئے کہ اسکا روزہ رکھے ، ہاں جو بیمار ہو ،یامسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چا ہئے ۔
رمضان المبارک شرعی سال کا نوواں مہینہ ہے جو شعبان المعظم کے بعد آتا ہے ، چونکہ پورے رمضان کا روزہ فرض ہے ، اسمیں نہ تو ایک دن کی کمی کی گنجائش ہے اور نہ ہی ایک دن اضافہ کی، کیونکہ اگر اسمیں کمی واقع ہوئی تو یہ رکن کامل طور پر ادانہ ہوا اور اگر ایک دن کا اسمیں اضافہ ہوا تو یہی کام دین میں بدعت شمار ہوگا ، لہذا ہر مسلمان سےمطالبہ ہے کہ شعبان کے مہینہ سے ہی دنوں اور تاریخوں کا صحیح حساب رکھے، چنانچہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شعبان کے چاند کو رمضان کے لئے اچھی طرح شمار کرو اور یاد رکھو
{سنن الترمذی : 687 الصوم ،مستدرک حاکم ص 425 بروایت ابوھریرہ }
یعنی شعبان کا چاند دیکھنے کا بھی اہتمام کرو ، دنوں کا شمار رکھو ،چاند کی منازل و مطالع کو دھیان میں رکھو تاکہ رمضان کا چاند دیکھنے میں آسانی ہو اور رمضان المبارک کا کوئی حصہ چھوٹنے نہ پائے {المرعاۃ 6 ص 442 }
زیر بحث حدیث میں بھی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول بیان ہوا ہےکہ جسقدر اہتمام شعبان کا چاند دیکھنے اور اسکے دنوں کے شمار کا کرتےتھے کسی اور مہینہ کی تاریخ وایام کا وہ اہتمام نہ کر تے اور اسکی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ حتی الامکان رمضان المبارک میں نہ کوئی دوسرا مہینہ داخل ہونے پائے اور نہ رمضان المبارک کا کوئی دن بغیر روزہ کے رہ جائے ۔
مزید اس حدیث میں ایک بات یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ رمضان المبارک کا دخول اور اسکا روزہ چاند کے دیکھے جانے پر منحصر ہے اور یہی شرعی طریقہ ہے کہ اپنے روزے اور عید کی بنیاد چاند د یکھنے پر رکھی جائے،اس کیلئے علم فلک پر اعتماد کرنا جائز نہ ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد حدیثوں میں ابتدائے ماہ اور انتہائے ماہ کیلئے رویتہلال کو شرط قرار دیا ہے اور اسے امت مسلمہ کیلئے اللہ تعالی کا ایک فضل شمار کیا ہے ۔ ارشاد ہے :” چاند دیکھکر روزہ رکھو اور چاند دیکھکر افطار کرو اور اگر چاند دکھائی نہ دے تو شعبان کی تیس کی گنتی پوری کرو”
{صحیح بخاری و مسلم }
” ہم لوگ امی امت ہیں نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب رکھتے ہیں مہینہ اتنا ہوتا اور اتنا ہوتا ہے اور اتنا ہوتا ہے ، یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کھول کر ارشارہ فرمایا اور تیسری بار اپنے ایک ہاتھ کے انگو ٹھے کو موڑ لیا{گویا کہ 29 دن بتائے }پھر فرمایامہینہ اتنا ہوتا ہے ، اتنا ہوتا ہے اور اتنا ہوتا ہے یعنی پورے تیس دن “{ صحیح بخاری و مسلم } یعنی چاند کے معاملے میں ہم لکھنے پڑھنے اور کسی کتاب وحساب کے محتاج نہیں ہیں ، ہمیں اپنے روزے اور عبادت کے معاملےمیں ستاروں اور سیاروں کی حرکات جاننے کا مکلف نہیں بنایا گیا بلکہ ایک ایسی واضح چیز کا حکم دیا گیا جسکو عالم وجاہل سب برابر جان سکتے ہیں ، اوروہ ہے رویت ہلال کا معاملہ نیز اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رمضان کا چاند دکھائی دینے سے قبل محض احتیاط اور شک کی بنیاد پر رمضان سے دو ایک دن پہلے کا روزہ بھی نہیں رکھا جائے گا کیونکہ اعتبار چاند کے دکھائی دینے اور دکھائی نہ دینے کا ہے ،بدلی و غبار کی وجہ سے اگر چاند نہ دکھائی دے تو یہ سمجھاجائے گا کہ ابھی رمضان شروع نہیں ہوا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو دین میں بدعات کے داخل ہونے کا خطرہ ہے ، اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے اسکی ممانعت فرمائ ہےچنانچہ ارشاد ہے :” تم میں سے کوئی آدمی رمضان کے ایک دو دن پہلے سے روزہ نہ رکھے الا یہ کہ اتفاق سے وہ دن پڑ جائے جسمیں روزہ رکھنے کا کسی کا معمول ہو تو وہ اپنے معمول کے مطابق روزہ رکھ سکتا ہے” {صحیح بخاری ومسلم } حضرت عمار بن یاسر نے فرمایا :” جس آدمی نے شک والے دن کا روزہ رکھا اس نے ابو القاسم یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی”
{سنن ابو داود ،سنن الترمذی }
فوائد :
1 ۔ رمضا ن المبارک کامہینہ بڑا اہم ہے اور اسکا روزہ اسلام کا رکن ہے ۔
2 ۔ رمضان کے اہتمام میں شعبان کے چاند ،اسکے ایام کا شمار رکھنا ضروری ہے ۔
3 ۔ شرعی مہینہ انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے ۔
4 ۔ جوامر یقینی ہو وہ شک سے زائل نہیں ہوتا ، یعنی اگر بدلی و غبار کی وجہ سے 29 شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو اگلا دن شعبان ہی کا شمار ہوگا ، محض شک کی بنایاد پر اسے رمضان کا پہلا دن شمار نہیں کیا جائے گا ۔
ختم شدہ