ہفتہ واری دروس

رشوت کی صورتیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :139

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ ‏.‏

( سنن أبو داود :3580 ، القضاء – سنن الترمذي :1337، الأحكام – سنن ابن ماجه :2313 ، الأحكام)

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔

{ سنن ابو داود ، ترمذی ، ابن ماجہ }

تشریح : انسان کی طبیعت بلحاظ آزمائش کچھ ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ مادیت کا دیوانہ ہوتا ہے دنیا کے زیادہ سے زیادہ حصول کا جذبہ اس کے دل میں ہر وقت کارفرما رہتا ہے ، اس انسانی کمزوری کا ذکر قرآن مجید میں متعدد جگہ وارد ہے چنانچہ وہ صورتیں جو نمازوں میں عام طور پڑھی اور سنی جاتی ہے کئی ایک سورت میں اس پر تنبیہ ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : [وَإِنَّهُ لِحُبِّ الخَيْرِ لَشَدِيدٌ] {العاديات:88} ” وہ مال کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے ” ۔[وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا][وَتُحِبُّونَ المَالَ حُبًّا جَمًّا]{الفجر:19-200} ” اور تم میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو : [أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ(1) حَتَّى زُرْتُمُ المَقَابِرَ(2) ]. {التَّكاثر}. ” تمہیں کثرت کی ہوس نے غافل کر رکھا ہے ، یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچو ” ۔

یہی وجہ ہے کہ انسان کو جو کچھ حلال و جائز طریقے سے ملتا ہے وہ اس پر صبر نہیں کرتا بلکہ مزید حصول کے لئے ہر ناجائز و حرام طریقے اختیار کرتا ہے حالانکہ اگر وہ سوچے تو اللہ تعالی نے بڑے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ حلال ذرائع سے جتنا مال حاصل ہوجائے اگر انسان اس پر صبر کرے تو اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ہے، [بَقِيَّةُ اللهِ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ] {هود:866} ” تمہارے لئے اللہ تعالی کی دی ہوئی بچت ہی بہتر ہے اگرتم مومن ہو ” ۔

حلال و پاک کمائی پر صبر نہ کرکے انسان جن حرام و ناجائز وسائل کا استعمال کرتا ہے ان میں سے ایک رشوت کا لین دین ہے جس کا ذکر زیر بحث حدیث میں وارد ہے ۔

رشوت کی تعریف : حق کو ناحق بنا دینے یا نا حق کو حق بنا دینے کے لئے جو مال یا کوئی چیز دی جائے وہ رشوت کہلاتی ہے ۔

رشوت کا حکم : چونکہ اسلام دین حق ، دین عدل اور دین قویم ہے اس لئے اس نے رشوت کی جملہ صورتوں کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے ، اس کے مرتکب اور اس پر معاون کو سخت عذاب کی دھمکی دی ہے اور ایسے شخص کو ملعون اور اپنے در در سے دھتکارا ہوا بتلایا ہے ۔ [وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ(188) ]. {البقرة}. ” اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھا یا کرو ، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا لیا کرو ، حالانکہ تم جانتے ہو ” ۔ حدیث میں ہے :رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں

{ الطبرانی الکبیر – مجمع الزوائد :4/199، بروایت ابن عمرو }

زیر بحث حدیث میں بھی رشوت کا لین دین کرنے والوں کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر میں ملعون قرار دیا گیا ہے کسی عمل پر اللہ تعالی یا اس کے رسول کی طرف سے لعنت کا معنی ہے کہ اسےانتہائی ناراضگی وبے زاری کا اعلان ہے ، اللہ تعالی کی طرف سےلعنت کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ رحمان ورحیم نے اس شخص کو اپنی وسیع رحمت سے محروم کردینے کا فیصلہ فرمادیا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لعنت کا مطلب یہ ہے کہ رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص سے بے زاری کا اظہار فرمانے کے ساتھ ساتھ ارحم الراحمین کی رحمت سے محروم کئے جانے کی بد دعا فرما رہے ہیں ۔

رشوت کی بعض صورتیں : بد قسمتی سے اس واضح شرعی حکم کے باوجود رشوت اور اس سے ملتی جلتی بہت سی شکلیں آج ہمارے درمیان عام ہیں جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ہلاکتوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے ، امانت داری اور خیر خواہی اہل کاروں سے رخصت ہوچکی ہے ، اور مصلحت پسندی و خود غرضی ہر ایک کا مذہب بنا ہوا ہے ۔

[۱] منصب کے حصول کے لئے : قاضی وجج بننے کے لئے ، کسی اعلی منصب کے حصول کے لئے یا نوکری کے حصول کے لئے رشوت دینا ، خواہ یہ رشوت رقم کی شکل میں ہو ، خدمت کی شکل میں یا استعمال کی جانے والی اشیاء کی شکل میں ہو ، کیونکہ اس سے صاحب حق کا حق مارا جاتا ہے اور نا اہل لوگ ایسے منصب پر پہنچ جاتے ہیں جس کے اہل نہیں ہوتے ۔

[۲] فیصلہ کے لئے : حاکم ، قاضی و جج یا پویس افسر وغیرہ کو کچھ دیا جائے تاکہ فیصلہ ہمارے حق میں ہو ، یہ اس صورت میں کہ خود انسان غلط موقف پر ہو یا اپنا موقف واضح نہ ہو ۔

[۳] کام نپٹانے کے لئے : ایک اہلکار اپنے کام پر گورنمنٹ یا کمپنی سے تنخواہ لیتا ہے ، لیکن لوگوں کا معاملہ نپٹانےکے لئے ٹال مٹول سے کام لیتا ہے اور اس کے لئے اپنی زبان حال و مقال سے کچھ معاوضہ طلب کرتا ہے اسی طرح اگر کوئی شخص کسی اہلکار کو مال یا کسی اور شکل میں کچھ دیتا ہے تاکہ اس کا کام اوروں سے پہلے نپٹا دے تو یہ بھی رشوت کی ایک شکل ہے ۔

[۴] پاس ہونے کے لئے ٹیوشن : آج کل اسکول و کالج میں ٹیوشن کی بیماری بہت عام ہے ، بلکہ جو طالب علم اس میں شریک نہیں ہوتا وہ اپنے پورے نمبر نہیں حاصل کرپاتا ، یہ بھی رشوت کی ایک شکل ہے کیونکہ استاذ اسکول و کالج کے ذمہ داروں اور گورنمنٹ سے پوری تنخواہ لیتا ہے ۔

[۵] استاذ ، مفتی کا ہدیہ و تحفہ : جو طالب علم یا اس کے والدین استاذ کو ہدیہ و تحفہ دیتے ہیں انکی خاطر و مدارات کرتے ہیں یا کوئی خدمت بجا لاتے ہیں تو استاذ اس طالب علم کی طرف خصوصی توجہ اور اس کے نمبرات پورے دیتا ہے اسی طرح مفتی اگر سائل سے ہدیے قبول کرتا ہے تو فتوی دینے میں اس کے بارے میں تساہل سے کام لیتا ہے اور حکم لگانے میں نرم رویہ اختیار کرتا ہے ، واعظ و خطیب کو ہدایا وتحائف اور نذرانے جہاں سے اچھے ملتے ہیں وہاں کے لئے وقت بڑی آسانی سے دیتا ہے اور جہاں سے کم کی امید ہوتی ہے وہاں جانے کے لئے ٹال مٹول سےکام لیتا ہے خواہ وہاں کے لوگ وعظ و تذکیر کے زیادہ محتاج ہوں ، یہساری چیزیں رشوت سے ملتی جلتی صورتیں ہیں ۔

ایک وضاحت : کسی کا حق مارنے کے لئے کسی حاکم ،قاضی یا اہلکار کو کچھ دینا رشوت وحرام ہے لیکن اگر کوئی قاضی و اہلکار ظالم ہو ، اور لوگوں کے حقوق بھی اس کے پاس محفوظ نہ رہتے ہیں اور وہ لوگوں سے طلب کرتا ہو یا اسے دینا پڑتا ہو جیسا کہ آج ہمارے یہاں عام دستور ہے تو اس سلسلے میں صرف اور صرف اپنے جائز حق کے لئے مجبوری کی صورت میں کچھ دینا پڑے تو دینے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے البتہ لینے والا ڈبل گناہ کا مرتکب ہورہا ہے ایک رشوت لینے کا اور دوسرے صاحب کو ایک حرام کام پر مجبور کرنے کا ، واللہ اعلم ۔۔۔

فائدے :

۱- حلال مال میں برکت ہوتی ہے اور حرام مال بے برکتی کا سبب ہے ۔

۲- رشوت گناہ کبیرہ اور رحمت الہی سے دوری کا سبب ہے ۔

۳- رشوت کا لین دین معاشرہ میں بد دیانتی اور ظلم کا سبب ہے ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى