فرضیت حج کے شرائط
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قال خطبنا رَسُول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ” يا أيها الناس كَتَبَ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ ” .قال فقام الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ أفي كُلُّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ ” لَوْ قُلْتُها نَعَمْ ولَو وَجَبَتْ لم تعلموا بها أو لم تستطيعوا إن تعملوا بها الحج مرة فمن زاد فهو تطوع . ( مسند أحمد:255 – سنن النسائي :2621 – سنن ابن ماجه :2886 ، المناسك)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے { حجۃ الوداع کے موقع پر } ہمیں خطبہ دیا جس میں فرمایا : اے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے ” یہ سن کر حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور سوال کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا حج ہر سال فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : اگر میں [ہاں ] کہہ دیتا تو [حج ہر سال ] فرض ہوجاتا ، اور اگر واجب ہوجاتا تو تم لوگ اس پر عمل نہ کرپاتے ، حج ایک بار ہے ، پھر جو اس سے زیادہ کرے وہ نفل ہے ۔ { مسند احمد ، سنن النسائی ، سنن ابن ماجہ }
تشریح: حج بیت اللہ ایک اہم فریضہ اور دین اسلام کا پانچواں رکن ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : [وَللهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ العَالَمِينَ] {آل عمران:97}” اور اللہ نے لوگوں پر جو اس کی طرف جاسکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کردیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالی اس سے بلکہ تمام دنیا سے بے پرواہ ہے ” ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دین کی بنیاد پانچ امور پر رکھی گئی ہے:
۱- لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا ۔
۲-نماز قائم کرنا ۔
۳- زکاۃ ادا کرنا ۔
۴- رمضان المبارک کے روزے رکھنا ۔
۵- حج کرنا ۔ { صحیح بخاری و صحیح مسلم }
زیر بحث حدیث سے بھی حج کی فرضیت ثابت ہوتی ہے ، انہیں دلائل کی بنیاد پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حج اسلام کا بنیادی رکن ہے اس کی ادائیگی ہر اس شخص پر واجب ہے جس کے اندر وجوب حج کے شرائط پائے جائیں ، نماز روزہ ، زکاۃ کی فرضیت اور حج کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ہے ، لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل بعض متجددین اورمنکرین حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ ٴ نظر ہے تو ایسا شخص کافر اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہے ، البتہ اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی و کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہیں کرتا ، جیسے ابھی تو بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے ، ابھی تو میں نے کسی بچے کی شادی نہ کی ، ابھی تو ہم نے بچوں کے مستقبل کے لئے کچھ بنایا ہی نہیں وغیرہ وغیرہ تو اس شخص کوکافر اور دائرہٴ اسلام سے خارج تو نہیں کہا جاسکتا البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے بلکہ خطرہ ہے کہ یہ سستی و لاپرواہی اس کے اندر سے حج کی اہمیت وفرضیت کو ختم نہ کردے جو یقینا دین سے خروج ہے ۔ شاید ایسے ہی لوگوں سے متعلق حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا : میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اہل کار بھیجوں وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا جزیہ مقرر کریں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔ { سنن سعید بن منصور ، تلخیص الحیر }
ایک بار اور حضرت فاروق اکبر نے فرمایا : جو شخص وسعت اور پر امن راستے کے باوجود حج نہیں کرتا اور مرجاتا تو اس کے لئے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر ۔ { سنن کبری }
لہذا ہمیں حج کی فرضیت و اہمیت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ہیں ، زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کے اس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلا وجہ شرعی تاخیر سے کام لیتے ہیں انہیں چاہئے کہ عبرت کے ناخن لیں ، اللہ تعالی کے حضور فورا توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فریضہ کو ادا کریں ۔
فرضیت حج کے شرائط : قرآن و حدیث پرنظر رکھ کر علماء نے فرضیت حج کی درج ذیل شرطیں رکھی ہیں :
[۱] اسلام: لہذا کافر و مشرک اگر حج کرتا ہے تو اس کا حج قبول نہ ہوگا بلکہ صحیح بھی نہ ہوگا ۔
[۲] آزادی: غلام پر حج فرض نہیں ہے البتہ اگر حج کرتا ہے تو اس کا حج صحیح اور وہ اجر کا مستحق ہے لیکن یہ حج اس کے لئے فرض حج کا بدل نہ بنے گا بلکہ آزاد ہونے کے بعد اس پر حج فرض ہوگا ۔
[۳] بلوغت: نابالغ بچے پر حج فرض نہیں ہے البتہ اگر وہ حج کرتا ہے تو اس کا حج صحیح ہے لیکن یہ حج اس کے لئے فرض حج کا بدل نہ ہوگا بلکہ بالغ ہونے کے بعد اسے دوبارہ حج کرنا ہوگا ۔
[۴] عقل: پاگل اور مجنون پر حج فرض نہیں ہے اور اگر وہ حج کرتے بھی ہیں تو ان کا حج صحیح نہ ہوگا ۔
[۵] قدرت: قدرت کا معنی یہ ہے کہ اس کے اندر مالی و بدنی اتنی استطاعت ہے کہ وہ مکہ مکرمہ پہنچ سکتا ہے ، اس کے پاس آنے کا جانے کا خرچ بھی ہے اور حج کے لئے جتنی مدت تک گھر سے غائب رہے گا اتنی مدت کے لئے اہل و عیال کا خرچ بھی ہے ، اوراگر مالی قدرت تو ہے لیکن کسی وجہ سے جسمانی قدرت نہیں ہے تو اس پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے حج کرنے کے لئے کسی اورکو بھیجے ۔
[۶] عورت کے لئے محرم: عورت کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا محرم بھی ہو ، لہذا جس عورت کے لئے محرم کی سہولت نہ ہو اس پر حج فرض نہیں ہے ۔
فوائد :
۱- حج سن ۹ ہجری میں فرض ہوا کیونکہ یہ خطبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی سے حجۃ الوداع کے لئے نکلنے سے پہلے دیا تھا ۔
۲- حج عمر میں صرف ایک بار فرض ہے باقی سنت ہے البتہ وہ شخص جسے اللہ تعالی نے وسعت دی ہے اسے چاہئے کہ ہر پانچ سال پر حج کرلیا کرے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں نے جس بندے کو صحت سے نوازا ہے ، اس کی روزی میں بھی کشادگی رکھی ہے اگر پانچ سال گزر جائے اور وہ میرے پاس { بیت اللہ کی زیارت کے لئے } نہیں آتا تو وہ محروم ہے ۔ { صحیح ابن حبان }
۳- دینی معاملات میں غیر ضروری سوالات کرنا ناپسندیدہ ہے بلکہ ایک مومن کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا جائے انہیں بجا لائے اور جن سے روکا گیا ہے ان سے دور رہے ۔
ختم شدہ
(حديث نمبر :140) خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط