مقالات حج وعمرهہفتہ واری دروس

میقات کیا ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :141

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَقَّتَ لأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلأَهْلِ الشام الْجُحْفَةَ، وَلأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ، وَلأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ، فهُنَّ لَهُنَّ وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِهِنَّ، مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، وَمَنْ كَانَ دُونَ ذَلِكَ فَمِنْ حَيْثُ أَنْشَأَ، حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ مِنْ مَكَّةَ‏.‏

( صحيح البخاري :1524 ، الحج – صحيح مسلم : 1181 ، الحج )

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ا للہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ کو اہل مدینہ کا میقات [ احرام باندھنے کی جگہ ] مقرر فرمایا ، جحفہ کو اہل شام کا ، قرن منازل کو اہل نجد کا ، یلملم کو اہل ایمن کا ، [اور فرمایا ] پس یہ مقامات وہاں رہنے والوں کے لئے ہیں اور ان تمام لوگوں کے لئے ہیں جو حج و عمرہ کی نیت سے ان مقامات پرسے گزریں ، پھر جو لوگ ان مقامات سے ورےہوں تو وہ اس جگہ سے احرام باندھیں جہاں سے [اپنا سفر حج و عمرہ ] شروع کریں حتی کہ خاص مکہ مکرمہ کے رہنے والے مکہ مکرمہ ہی سے احرام باندھیں گے ۔

{ صحیح بخاری و صحیح مسلم }

تشریح : ہر بڑی شخصیت کے یہاں حاضری کے کچھ آداب اور حدود ہوتے ہیں ، جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ دنیا کے بادشاہوں کے دربار عام و دربار خاص کی حدود اور وہاں شرکت کرنے والوں کے لئے خاص خاص لباس اور وردیاں ہوتی ہیں اور بسا اوقات اس کے لئے کارڈ اور پاس وغیرہ بنائے جاتے ہیں جنہیں پہن کر اور ساتھ رکھے بغیر دربار کے حدود میں داخل نہیں ہوسکتے ،پھر چونکہ خانہ کعبہ اللہ تعالی کا گھر ہے ، وہاں جانے والااللہ تعالی کا مہمان اور اس کا زائر ہے ،ارشاد نبوی ہے : اللہ تعالی کے راہ میں جہاد کرنے والا ،حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا یہ سب اللہ تعالی کے مہمان ہیں، اللہ تعالی نے انہیں دعوت دی تو ان لوگوں نے اللہ کی دعوت قبول کرلی لہذا یہ لوگ اللہ تعالی سے مانگیں تو اللہ تعالی دے گا ۔

{ سنن ابن ماجہ ، صحیح ابن حبان } ۔

لہذا اللہ تعالی کی ضیافت میں جانے والوں کے لئے بھی کچھ آداب و حدود ہیں جن کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے ، چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے مبارک گھر کے ارد گرد کچھ مقامات مقرر فرمادئے ہیں اور یہ حکم دیا ہے کہ حج و عمرہ کے لئے آنے والے جب ان مقامات پر پہنچیں تو وہیں سے وہ خاص لباس پہن لیں جسے زیب تن کرکے اللہ تعالی کے دربار میں حاضر ہونا ہے ، شرعی اصطلاح میں ان مقامات کو میقات اور اس لباس پہننے کو احرام باندھنا کہا جاتا ہے ۔

زیر بحث حدیث میں انہیں میقاتوں کا ذکر ہے چنانچہ حجۃ الوداع کے لئے نکلنے سے قبل مسجد نبوی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عام خطبہ دیا تھا جس میں حج سے متعلق چند ہدایات دی تھیں ،ان میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ حج و عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ کا قصد کرنے والوں پر واجب ہے کہ احرام کی حالت میں جائیں اور فلاں فلاں مقام سے احرام باندھیں ، وہ مقام یہ ہیں :::

ذو الحلیفہ :

مدینہ منورہ سے جنوب غرب میں واقع نو کیلو میڑ کی مسافت پر ایک مقام ہے ، اس وقت مدینہ منورہ کی آبادی وہاں تک پہنچ چکی ہے بلکہ اس بھی آگے بڑھ گئی ہے آج اس کا نام ابیار علی ہے ، یہاں سے مکہ مکرمہ تقریبا چار سو کیلو میڑ ہے اور یہ سب سے دور کی میقات ہے ،

اہل مدینہ اور اس راستے سے مکہ مکرمہ کا قصد کرنے والے یہیں سے احرام باندھتے ہیں ۔

جحفہ :

ساحل سمندر پر مکہ مکرمہ سے تقریبا دو سوکیلو میڑ کی دوری پر ایک گاوں آباد تھا جو اب ویران ہوچکا ہے ، آج کل ینبع اور اس راستے سے آنے والے رابغ سے احرام باندھتے ہیں جو جحفہ سے غرب شمال کی جانب تقریبا بیس کیلو میڑ پہلے ہے ۔

قرن منازل :

مکہ مکرمہ سے 80 کیلو میڑ کی دوری پر طائف کے قریب مشرق کی جانب ایک لمبی وادی تھی آج یہاں السیل الکبیر کے نام سے ایک شہر آباد ہے ، اہل طائف و نجد اور اس طرف سے آنے والے لوگ یہیں سے احرام باندھتے ہیں ۔

یلملم :

مکہ مکرمہ سے جنوب میں سو کیلو میڑ کی دوری پر واقع ایک پہاڑ ہے اہل یمن اور اس راستے سے آنے والے لوگ یہاں سے احرام باندھتے تھے آج کل اس سے قریب السعدیہ سے احرام باندھتے ہیں ۔

فوائد :

۱- ہر وہ شخص جو حج وعمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ کا قصد کررہا ہے اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ بلا احرام باندھے مذکورہ مقامات سے آگے بڑھے اگر ایسا کرتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالی کی حد کو توڑ رہا ہے لہذا اسے چاہئے کہ میقات پر واپس آکر احرام باندھے اور اپنی کوتاہی و غلطی پر اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کرے ، اور اگر واپس نہیں آتا اور میقات گزرنے کے بعد احرام باندھ لے رہا ہے تو اس پر دو حکم لاگو ہو رہے ہیں [۱]توبہ و استغفار ۔ [۲] ایک دم ، یعنی بطور جرمانہ کے ایک بکری حدود حرم میں ذبح کرکے غریبوں میں تقسیم کرے ۔

۲- جو لوگ ان میقات پرسے نہ گزر رہے ہوں وہ ان جگہوں کی مقابل جگہ دیکھیں اور وہاں سے احرام باندھیں حتی کہ جہاز سے سفر کرنے والے لوگ بھی جب ان مقامات کے اوپر سے گزریں تو اس سے کچھ پہلے ہی احرام باندھ لیں {یعنی نیت کرلیں}تاکہ تیزی میں میقات سے آگے نہ بڑھ جائیں ۔

۳- اہل علم کا کہنا ہے کہ جدہ میقات کے اندر ہے لہذا اہل جدہ اپنے گھر سے احرام باندھیں گے اور اگر کوئی شخص جو جدہ سے باہر کا رہنے والا ہے وہ جدہ آنا چاہے تو ضروری ہے کہ جس میقات سے گزر رہا ہو وہاں سے احرام باندھ کر جدہ میں داخل ہو ۔

۴- جو شخص مکہ مکرمہ میں حج وعمرہ کی غرض سے نہیں بلکہ کام ، زیارت یا کسی اور غرض سے جارہا ہے تو اس پر احرام باندھناضروری نہیں ہے بلکہ وہ بغیر احرام باندھے مکہ مکرمہ میں داخل ہوسکتا ہے ، البتہ اگر کسی نے اس سے قبل عمرہ و حج نہیں کیا ہے تو بہتر ہے کہ احرام باندھ کر مکہ مکرمہ میں داخل ہو ۔

۵- جو لوگ میقات اور مکہ مکرمہ کے درمیان میں واقع مقامات پر رہتے ہیں وہ حج وعمرہ کا احرام اپنے گھر یا پھر جس جگہ سے حج و عمرہ کی نیت کریں وہاں سے باندھیں گے نہ ان کے لئے میقات پر آنا ضروری ہے اور نہ ہی بغیر احرام باندھے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہونا جائز ہے ۔ ۶- مکہ مکرمہ کے باشندے ، وہاں قیام پذیر لوگ اور وہ حاجی جو حج تمتع کی نیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہیں اور عمرہ کے بعد مکرمہ ہی میں قیام پذیر ہیں وہ حج کا احرام اپنے گھر اور جائے قیام سے باندھیں گے ان کے لئے مسجد حرام سے احرام باندھنا سنت نہیں ہے ، البتہ عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے ان پر واجب ہے کہ حدود حرم سے باہر کسی جگہ سے احرام باندھیں ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى