ہفتہ واری دروس

نبوی وصیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :146

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِمَنْكِبِي فَقَالَ ‏”‏ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ ‏”‏‏.‏ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ إِذَا أَمْسَيْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ‏.‏

( صحيح البخاري :6414 ،الرقاق – صحيح ابن حبان :2/132 )

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے کو پکڑ کر فرمایا : تم دنیا میں ایسے رہو گویا پر دیسی ہو راہ چلتے مسافر [ سنن الترمذی وغیرہ میں ہے کہ اپنا شمار مردوں میں کرو ] حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما [ جب اس حدیث کو بیان کرتے تو ] کہتے : جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرو اور جب صبح کرو تو شام کے انتظار میں مت رہو ، اور اپنی حالت صحت میں بیماری کے لئے سامان کرلو اور اپنی زندگی میں موت کے لئے سامان کرلو ۔ { صحیح البخاری ، صحیح ابن حبان وغیرہ } ۔

تشریح : ارشاد باری تعالی ہے : کہ مومن آل فرعون نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرمایا : [يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَذِهِ الحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الآَخِرَةَ هِيَ دَارُ القَرَارِ] {غافر :39 } ” اے میری قوم !یہ دنیوی زندگی متاع فانی ہے اور یقین مانو کہ قرار اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے ۔

فی الواقع یہ دنیا محل سفر ہے جائے قرار نہیں ہے بلکہ یہ ایک گزر گاہ ہے جس کا مسافر رات و دن محو سفر ہے وہ ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں ٹھہرپاتا دنیا کا مسافر بسا اوقات اپنےدوران سفر رکتا ہے تھوڑی دیر آرام بھی کرلیتا ہے پھر محو سفر ہوجانا ہے لیکن آخرت کا مسافر برابر محو سفر رہتا ہے ، ہر لمحہ اس کاقدم آخرت کی طرف بڑھتا رہتا ہے طوعا و کرھا ہر حال میں اسے سفر میں ہی رہنا پڑتا ہے ، اس کا سفر گھنٹوں سے مہینوں میں اور مہینوں سے سالوں میں بدلتا رہتا ہے اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ دنیا میں سفر کی مدت اور رکنے کی جگہ معلوم رہتی ہے جس کے نزول و وصول کے لئے مسافر اپنا حساب لگائے رکھتا ہے ،لیکن آخرت کا مسافر اپنے سفر کی مدت اور پہنچنے کے وقت کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا اسی لئے ہر وقت چوکنا اور ہشیار رہنا پڑتا ہے ۔

زیر بحث حدیث میں یہی نبوی وصیت ہے کہ اے آخرت کے مسافر ! اس دنیا میں تو پردیسی ہے مقیم نہیں ہے لہذا جس طرح ایک پردیسی پردیس میں زیادہ لوگوں سے تعلقات نہیں رکھتا بلکہ اس کا دل اپنے گھر اور اہل خانہ سے لگا رہتا ہے ، اس دنیا میں پردیسی پردیس میں خرچ بھی حساب سے کرتا ہے اور اپنے اہل وعیال کے لئے بچا کر رکھتا ہے اسی طرح اےآخرت کے مسافر تجھے بھی چاہئے کہ اس دنیا کو ایک مسافر خانہ سمجھ ، حقیقی گھر سے دل لگا ، اور وہاں کے لئے سامان تیار رکھ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تجھے تو یہ چاہئے کہ تو اپنے کو پردیسی نہیں بلکہ ایک راہ چلتا مسافر سمجھ جو سفر میں تو نکلا ہے لیکن اسے یہ پتا نہیں کہ اس کی منزل دور ہے کہ نزدیک اسے کس اسٹیشن پر اترنا پڑجائے اسے اس کاعلم نہیں ہے لہذا تجھے چاہئےکہ تو چوکنا رہ ۔

یہ کس قدر جامع وصیت ونصیحت ہے جس میں ساری امت کو یہ پیغام ہے ،راوی حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس وصیت کو اچھی طرح سے سمجھا اور اس سے تین اہم فائدے اخذ کئے :

[۱] جب اس دنیا میں انسان پردیسی بلکہ راہ چلتا مسافر ٹھہرا تو اسے چاہئے کہ اگر اسے کسی دن صبح مل جائے تو اسے غنیمت سمجھے اور یہ امید نہ رکھے کہ شام تک مہلت بھی ملے گی اور اگر شام تک مل بھی گئی تو اسے یہ خوف رہنا چاہئے کہ معلوم نہیں صبح ہوپائے کہ نہیں کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ اس دنیا میں کتنے لوگ بڑے اطمینان اور پرسکون طور پر صبح کرتے ہیں لیکن شام کرنا نصیب نہیں ہوتا اور کتنے لوگ بڑے اطمینان سے رات کو سوتے ہیں لیکن صبح ہونے سے قبل ہی ان کا شمار مردوں میں ہوجاتا ہے ،کتنے صبح کو اپنا لباس خود پہن کر نکلتے ہیں لیکن شام ہونے سے قبل ان کا لباس مردے کو غسل دینے والا شخص ہی اتارتا ہے ، لہذا جو وقت بھی مل جائے اسے غنیمت سمجھا جائے ۔

[۲] جب انسان صحت مند اور تندرست رہتا ہے تو وہ اپنے جسم میں چستی و نشاط محسوس کرتا ہے اور عمل میں بھی اس کا دل لگتا ہے لیکن وہی جسم اگر بیماری کا شکار ہوجائے تو سستی و بے اطمینانی اس پر چھا جاتی ہے نتیجۃ کسی بھی عمل میں اس کا دل نہیں لگتا اور یہ بھی معلوم ہے کہ ایک تندرست انسان کا جسم کسی بھی لمحہ بیماری کا شکار ہوسکتا ہے لہذا بندے کو چاہئے کہ وہ اپنی تندرستی میں اس قدر دل لگا کر عمل کرلے جو بیماری میں اس کے کام آئے یا اسے یہ افسوس نہ رہ جائے کہ کاشکہ ہم نے فلاں فلاں نیک عمل کرلیا ہوتا ۔

[۳] کسی بھی انسان کو اپنی موت کا وقت معلوم نہیں ہے لہذا جب تک زندگی ہے اسے غنیمت سمجھنا چاہئے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کا اہتمام ہونا چاہئے ، ایسا نہ ہوکہ نوجوان جوانی کے انتظار میں اور جوان بڑھاپے کے انتظار میں توبہ و عمل کو موخر کردے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ وہ بڑھاپے کو پہنچے گا یا اس سے پہلے ہی موت کا فرشتہ اس کے دروازے پر دستک دے دیگا ۔

فوائد :

۱- دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے ۔

۲- اس دنیا میں انہیں کاموں کا اہتمام کرنا چاہئے جو اسے آخرت میں کام دیں ۔

۳- صحت و زندگی بہت بڑی نعمت ہے اسے غنیمت سمجھنا چاہئے ۔

۴- ہر کام اس کے وقت پر کرنا چاہئے ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى