امامت و اجتماعیت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :148
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ ” أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي إِمَامُكُمْ فَلاَ تَسْبِقُونِيبِالرُّكُوعِ وَلاَ بِالسُّجُودِ وَلاَ بِالْقِيَامِ وَلاَ بِالاِنْصِرَافِ فَإِنِّي أَرَاكُمْ أَمَامِي وَمِنْ خَلْفِي .
( صحيح مسلم :426، الصلاة – سنن النسائي : 1365 ، الافتتاح )
ترجمہ :حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : لوگو ! میں تمہارا امام ہوں لہذا نہ رکوع کرنے میں ہم سے پہل کرو ، نہ سجدہ کرنے میں پہل کرو ، نہ کھڑے ہونے میں پہل کرو اور نہ ہی نماز سے فارغ ہونے میں ہم سے پہل کرو اور یاد رکھو کہ میں تمہیں اپنے سامنے سے بھی دیکھتا ہوں اور اپنے پیچھے سے بھی ۔
{ صحیح مسلم ، سنن النسائی }
تشریح : اجتماعیت ، ترتیب ، تنظیم اور سلیقہ پن اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہیں ، چنانچہ اسلام مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ اپنے ہر معاملہ میں منظم اور مرتب رہیں کیونکہ ظاہر کا اثر باطن اور دل پر گہرا پڑتا ہے ، اسی لئے اسلام نے مسلمانوں کو باجماعت نماز پڑھنے کا تاکیدی حکم دیا ہے اور امت کے ہر شخص کوا س کا پابند بنایا ہے کہ جب تک کوئی واقعی مجبوری نہ ہو وہ با جماعت ہی نماز ادا کرے چنانچہ آپ نے فرمایا : جس نے اذان سنی اور مسجد آنے سے اسے کوئی عذر مانع نہ رہا تو ایسے آدمی کی نماز جو وہ پڑھے گا مقبول نہ ہوگی {سنن ابو داود } پھر جماعت کی امامت کے لئے ایسے شخص کے انتخاب کا حکم دیا جو اس کام کے لئے مناسب ہو اور جماعت میں صف بندی اورصف کو اچھی طرح درست کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا ، پھر اگر لوگ ایک صف میں ہوں ، امام کے پیچھے ہوں لیکن امام کی اتباع و پیروی کو ملحوظ نہ رکھیں تو نہاس سے اجتماعیت پیدا ہوسکتی ہے اور نہ کوئی جماعت منظم ہوسکتی ہے لہذا امام کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو امام کی متابعت کا تاکیدی حکم دیا گیا ۔
زیر بحث حدیث میں اس مسئلے سے متعلق تین بڑی اہم باتیں بیان ہوئی ہیں :
[۱] رکوع و سجود میں جانا اور رکوع وسجود سے اٹھنا امام کے بعد اور فورا بعد ہونا چاہئے مقتدی کے لئے نہ ہی امام سے پہلے رکوع میں جانا جائز ہے اورنہ ہی امام سے قبل رکوع سے سر اٹھانا جائز ہے حتی کہ اس سے بھی پرہیز کرنا چاہئے کہ اس کا رکوع و سجدہ امام کے ساتھ ساتھ ہو ، ایک اور جگہ ارشاد نبوی ہے : امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ، لہذا جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب تک وہ اللہ اکبر نہ کہے ا س وقت تک تم لوگ بھی اللہ اکبر نہ کہو ، اور جب امام کھڑے ہوکر نماز پڑھائے تو تم لوگ بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو { اور تم لوگ اس وقت تک رکوع میں نہ جاؤ جب تک کہ وہ رکوع کے لئے جھک نہ جائے } اور جب تک وہ رکوع سے سر نہ اٹھائے اس وقت تک تم لوگ بھی سر نہ اٹھاؤ اور جب وہ سمیع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم لوگ ربنا ولک الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو
{ اور اس وقت تک سجدے کے لئے نہ جھکو جب تک کہ وہ سجدے میں نہ چلا جائے } اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم لوگ بھی بیٹھ کر نماز پڑھو
{صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، سنن ابوداود بروایت انس و ابو ہریرہ }
اس تاکیدی حکم کی بنیاد پر اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص امام سے پہلے تکبیر تحریمہ کہہ دیتا ہے ، یا رکوع میں چلا جاتا ہے یا رکوع سے سر اٹھا لیتا ہے تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر غلطی سے ایسا ہوجائے تو دوبارہ تکبیر تحریمہ کہے اور دوبارہ رکوع و سجدہ میں چلا جائے ۔
[۲] اس حدیث میں دوسری اہم بات یہ بیان ہوئی ہے کہ امام سے پہلے نماز سے فارغ نہیں ہونا چاہئے ، یعنی امام سے قبل سلام پھیردینا بھی جائز نہیں ہے بلکہ مقتدی کا سلام پھیرنا امام کے سلام پھیرنے کے بعد ہونا چاہئے ، اگر کوئی شخص امام سے قبل سلام پھیردیتا ہے تو اس کی نماز باطل ہے ، امام سے قبل نماز سے فارغ ہونے کا ایک معنی تو یہ ہے جو وجوبی حکم رکھتا ہے ، لیکن اہل علم کہتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد اپنی جگہ سے اٹھنے میں جلدبازی نہ کرے اور نہ ہی مسجد سے نکل جانے میں جلد بازی سے کام لے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ امام سے نماز میں کوئی غلطی ہوگئی ہو تو اس کا تدارک کیا جاسکے ، نماز کے بعد ذکر و اذکار کا موقعہ حاصل ہو اور اگر ایسی مسجد ہے جس میں مرد وعورت ساتھ نماز پڑھتے ہیں تو مسجد کے دروازے اور اس کے باہر مرد و عورت کا اختلاط نہ ہو ، یہی وجہ ہے کہ آپ نے لوگوں کو اپنے سے قبل جانے سے منع فرمادیا تھا { سنن ابو داود } ۔
[۳] اس حدیث میں ایک تیسری چیز یہ بیان ہوئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے یہ خصوصیت بخشی تھی کہ آپ حالت نماز میں اپنے پیچھے کی چیزوں کو دیکھ لیا کرتے تھے ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کی پشت مبارک یا گدی پر الگ سے کوئی آنکھ تھی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرام اسے ضرور بیان کئے ہوتے ، معاملہ صرف یہ تھا کہ لوگوں کی اصلاح کے لئے اللہ تعالی نے آپ کو یہ خصوصیت بخشی تھی کہ آپ کو پیچھے کی چیزیں بھی دکھائی دیتی تھیں ، تاکہ نماز میں واقع ہونے والی خلل کی اصلا ح ہوسکے ۔
فوائد :
۱- امام کی متابعت واجب ہے لہذا [أ] رکوع و سجدہ میں جانے اور اٹھنے میں امام سے پہل نہ کی جائے ، [ب] مقتدی کا رکوع و سجدہ اور ان سے اٹھنا امام کے ساتھ ساتھ نہیں بلکہ امام کو فورا بعد ہونا چاہئے ، [ج] امام کی متعابعت میں غیر معمولی تاخیر بھی نہیں ہونی چاہئے ۔
۲- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت ۔
۳- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ۔
۴- اگر کسی عذر کی بنیاد پر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدیوں کو بیٹھ کر نماز پڑھنا چاہئے ۔
ختم شدہ