نئے سال کی مبارکباد ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :149
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ ”. قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى قَالَ ” فَمَنْ ”؟.
( صحيح البخاري :3456 ،الأنبياء – صحيح مسلم :2669 ، العلم )
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں کی ضرور پیروی کروگے ، بالشت بالشت برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ، حتی کہ اگر وہ لوگ گوہ [گھوڑپوڑ] کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم لوگ بھی ان کی پیروی کروگے ، حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ یہ سننے کے بعد ہم لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول کیا [پہلی قوموں سے مراد ] یہود ونصاری ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : پھر اور کون ۔
{ صحیح بخاری و صحیح مسلم }
تشریح : باوجود اس کے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑی تاکید سے یہ حکم دیا ہے کہ وہ اللہ و رسول کے دشمنوں کی پیروی نہ کریں ، وہ اسی صراط مستقیم پر قائم رہیں جو اللہ تعالی کا پسندیدہ راستہ اور اس تک پہنچنے کا آسان ذریعہ ہے جو اللہ تعالی کے محبوب بندوں کا راستہ ہے : [وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ] {الأنعام:153} ” اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے ، سو اسی پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ تعالی کی راہ سے جدا کردیں گی ، نیز فرمایا : [ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ] {الجاثية:18} ” پھر ہم نے آپ کو دین کی راہ پر قائم کردیا سو آپ اسی پر جمے رہیں اور نادانوں کی خواہش کی پیروی نہ کریں ” ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی اس شمار انہیں لوگوں میں ہوگا { سنن ابو داود } ۔ اور فرمایا : جہاں تک ہوسکے شیطان کے چیلوں کی مخالفت کرو { الطبرانی الاوسط } ان تمام تاکیدات کے باوجود امت کا ایک طبقہ شیطان کی پیروی اور نفسانی خواہشات کی غلامی میں صراط مستقیم سے ہٹ کر اللہ ورسول کے دشمنوں کی راہوں پر چل چکا ہے جن سے دور رہنے کی اللہ اور اس کے رسول نے تاکید فرمائی تھی ، حتی کہ اللہ کے وہ دشمن صرف اپنی ہی نہیں بلکہ اخلاقی پستی کے اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جس کا تصور ایک صاحب عقل و خرد آدمی نہیں کرسکتا جیسا کہ زیر بحث حدیث میں پیشین گوئی کے طور پر اور ساتھ ہی ساتھ امت کو اس پستی میں گرنے سے روکنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ قیامت قائم ہونے سے قبل ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ تم لوگ اپنے سے پہلی قومیں جن پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوچکا ہے اور جو گمراہی و ضلالت میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کے لئے بیٹا ہونے کا عقیدہ رکھ لیا ہے ان کی پیروی میں ضرور پڑو گے اور حیرت تو یہ ہے اس وقت تم عقل سے اس قدر دور ہوچکے ہوگے اور تقلید کے نشے میں اس قدر مست ہوگے اور نفسانی خواہش تم کو اس قدر پاگل بنا چکی ہوگی کہ تم سوچ و فکر سے عاری ہوچکے ہوگے اسی کی وضاحت کے لئے حدیث میں گوہ[گھوڑپوڑ] کے سوراخ میں داخل ہونے کی مثال دی گئی ہے کیونکہ عادۃ و عقلا گوہ کے سوراخ میں کسی انسان کا داخل ہونا ایک ناممکن امر ہے ، پھر بھی اگر کوئی یہودی ونصرانی اس میں داخل ہونا چاہے گا تو میری امت کے بعض افراد بھی اس کی پیروی کریں گے اور اپنی عقل و فہم سے کام نہ لیں گے یعنی اگر یہود و نصاری کوئی کام کریں گے جو عقل و اخلاق کے معیار پر کسی بھی طرح پورا نہیں اترے گا پھر بھی میری قوم کے بعض افراد ان کی پیروی ضرور کریں گے ۔
اس اندھی تقلید کی ایک جیتی جاگتی مثال یہود ونصاری اور غیر قوموں کی تہذبوں کو اپنا نا ہےجیسا کہ آج امت کا وہ طبقہ جو خود کو تعلیم یافتہ ، مہذب اور دیندار تصور کرتا ہے لیکن اپنے بچوں کی “برتھ ڈے پارٹی ” ضرور منعقد کرتا جو کہ یہود ونصاری کی کھلی تقلید ہے ، اسی طرح ان کی انعیدیوں میں شرکت جن میں ایسے حیا سوز منظر پیش کئے جاتے ہیں جو انسانی فطرت اور ایمانی غیرت کے سراسر منافی ہیں ، مثال کے طور پر آج کل کافروں کے نئے سال کی آمد ہے ، دنیا کے ہر کونے میں اس کا چرچا ہے لوگ بڑی شدت سے نئے سال کا انتظار کررہے ہیں کافر قوموں کے ساتھ بہت سے مسلمان حتی کہ بعض حکومتیں بھی اس نئے سال کا جشن منانے کی تیاری کررہی ہیں حالانکہ مسلمانوں کا ایسا کرنا از روئے شرع کئی لحاظ سے جائز نہیں ہے :
[۱] مسلمانوں کے نزدیک عید کا معاملہ ایک شرعی امر ہے لہذا جس دن کو شریعت عید کا دن نہ قرار دے اس دن کو عید کا دن قرار دینا ضلالت و گمراہی اور بدعت ہوگا ۔
[۲] یہ نیا سال مسلمانوں کا سال نہیں ہے بلکہ کافروں اور اللہ کے دشمنوں کا سال ہے اس لئے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے لئے نئی تقویم کا ایجاد کیا ہے ، لہذا اس کی آمد پر خوشی ایک غیر شرعی کام اور اللہ کے دشمنوں سے مشابہت ہے جس سے سختی سے منع کیا گیا ہے ۔
[۳] اس عید میں بعض ایسے حیا سوز کام کا ارتکاب کیا جاتا ہے جو اسلام کی نظر میں حرام اور اسے جائز یا بہتر سمجھنا دین سے خروج اور بغاوت ہے ۔
[۴] اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ کافروں کے سال کا استعمال جائز ہے تو ایسے موقعہ پر ایک مسلمان سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے کہ جس سال کو رخصت کررہا ہے اس میں وہ کیا کھویا اور کیا پایا کتنے نیک عمل کئے اور کتنے برے عمل تاکہ نیک عمل کی قبولیت کی دعا کی جائے اور برے کام سے توبہ و استغفار ۔
[۵] علمائے امت کا متفقہ فتوی ہے کہ کافروں کی عیدوں میں شریک ہونا ، انہیں مبارک باد پیش کرنا ، کسی بھی طرح سے اس عید میں ان سے تعاون کرنا قطعی طور پر جائز نہیں ہے ۔
{ دیکھئے میری کتاب وفاداری وبیزاری ،ص:270 اور اس کے بعد جسے مندرجہ ذیل ویب سائٹ پر پڑھا جاسکتا ہے }
http://islamidawah.com/books/ur_Alliance_and_Amity.pdf
فوائد :
۱- غیر قوم خصوصا یہود و نصاری کے رسم و رواج میں شرکت ضلالت و گمراہی ہے ۔
۲- کسی کی تقلید میں جب انسان پڑتا ہے تو اس کی واضح غلطیاں بھی اچھی لگتی ہیں ۔
۳- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ کہ آپ نے جیسا فرمایا بعینہ وہ چیزیں سامنے آگئیں ۔
۴- مسلمانوں کا سال و مہینہ اور تاریخ کافروں سے جدا اور الگ ہے ۔
ختم شدہ