ہفتہ واری دروس

موزوں پر مسح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :150

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

ترجمہ : حضرت شریح بن ھانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے موزوں پر مسح کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کیلئے موزوں پر مسح کی مدت تین دن رات رکھی ہے اور مقیم کے لئے ایک دن رات ۔

صحیح مسلم ، سنن النسائی ، سنن ابن ماجہ }

تشریح : دین اسلام ایک آسان اور لچکدار دین ہے ، جو ہر زمان ومکان کے مناسب اور ہر ماحول سے موافقت رکھتا ہے ، چنانچہ نماز وغیرہ جیسی عبادتوں کے لئے وضو کو شرط قرار دیا ہے اور وضو میں دونوں پیروں کا دھونا اشد ضروری اور وضو کا رکن بنایا گیا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ الآیۃ{المائدۃ :6}

اے ایمان والو ؛ جب تم نماز کیلئے اٹھو تو اپنےمنھ کو اور اپنے ہاتھوں کوکہنیوں سمیت دھولو ، اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنےپیروں کوٹخنوں سمیت دھولو ۔ لیکن چونکہ بسا اوقات حالات و موسم کے لحاظ سے ہر شخص کیلئے وضو کرنا ایک مشکل کام بن جاتا ہے لہذا ایسی مجبوری میں وضو کے بجائے تیمم کی رخصت دی گئی ہے ، اسی طرح انسان اپنے پیروں میں بطور زینت یا بطور ضرورت موزے بھی استعمال کرتا ہے اور ہر وقت موزوں کو اتار کر پیروں کو دھونا اگر محال نہیں تو ایک مشکل کامضرور ہے ، جسکی وجہ سے بعض لوگ نماز چھوڑ دیتے ہیں ، لہذا موزوں پر مسح کی رخصت رکھی گئ جس سے اسلام کی خوبی اور ہر زمان ومکان کیلئے اسکی مناسبت ظاہر ہوتی ہے ، البتہ موزوں پر مسح کب ، کیسے اور کب تک کیا جائے گا ؟ اسلام نے اس بارے میں کچھ حدود قیود متعین کی ہیں جنکا علم ہر شخص کیلئے ضروری ہے لہذا ذیل میں ان میں سے اہم کا ذکر کیا جاتا ہے ۔

{1} موزوں پر مسح اللہ تعالی کی طرف سے رخصت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریق تواتر ثابت ہے ، حتی کہ اہل سنت وجماعت کے عقیدے میں یہ داخل ہے کہ وہ موزوں پر مسح کو جائز سمجھتے ہیں ، بر خلاف شیعۃ وخوارج کے ،چنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ اپنے عقیدے میں لکھتے ہیں سنت کی تعلیمات کے مطابق سفر وحضر میں ہم موزوں پر مسح کو جائز سمجھتے ہیں ،

{2} موزوں پر مسح کے جواز کیلئے چار شرطیں ہیں ۔

ا ۔ موزہ کامل طہارت میں پہنا گیا ہو ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا آپ ﷺوضو فرمارہے تھے میں جھکا کہ آپ کے موزے اتار دوں تو آپ نے فرمایا : چھوڑ دو اسلئے کہ ہم نے موزے اس حال میں پہنا تھا کہ میرے دو پیر طاہر تھے {یعنی کامل وضو کے بعد پہنا تھا }پھر آپ نے دونوں موزوں پر مسح کیا {بخاری ومسلم }

ب- موزے بذات خود پاک ہوں ، کیونکہ اگر موزے ہی ناپاک ہوئے تو اس پر مسح کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

ج-مسح حدث اصغر یعنی وضو کے موقعہ پر کیاجائے نہ کہ حدث اکبر سے طہارت کے موقعہ پر ۔ حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سفر میں ہو تے تو اللہ کے رسول ﷺہمیں حکم دیتے کہ تم لوگ تین دن تک اپنے موزے نہ اتارو {بلکہ ان پر مسح کرلو }الا یہ کہ جنابت لاحق ہو تو{لازمی اتار نا ہے }ہاں ، پیشاب ، پائخانہ اور نید وغیرہ کی وجہ سے موزہ اتار نا ضروری نہیں ہے {سنن الترمذی ، سنن النسائی }

د-شریعت کی طرف سے متعین مدت کے اندر مسح کیا جائے ۔ یعنی اگر حالت سفر میں ہے تو تین دن رات مسح کر سکتا ہے ، اور اگر مقیم ہے تو صرف ایک دن رات ۔ جیسا کہ زیر بحث حدیث میں وارد ہے ، نیز حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کو یہ رخصت دی ہے کہ اگر وضو کرکے موزہ پہنا ہے پھر اسے وضو کرنا ہو ا تو تین دن رات تک اس پر مسح کرے اور مقیم ایک رات دن ۔{سنن ابن ماجہ }

{3}اگر موزوں کی مدت ختم ہو گئی تو اسکے بعد مسح جائز نہ ہو گا اور جو نماز اس مسح کے بعد پڑھی جائے گی وہ باطل ہو گی ، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنا موزہ نکال دے رہا ہے اور پھر ویسے ہی پہن لی رہا ہے تو اس پر مسح جائز نہ ہو گا ۔گویا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں چیزیں مسح کو باطل کردینے والی ہیں ، اسی طرح جنابت کا لاحق ہونا بھی مسح کو باطل کردیتا ہے ۔

{4}مسح صرف موزوں کے بالائی حصے کا کیا جائے گا ، نیچے حصے کا نہیں ،حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اگر دین کا معاملہ رائے پر ہوتا تو موزے کے تحتانی حصے کا مسح فوقانی حصے کے مسح سے زیادہ قابل قبول ہوتا ، حالانکہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ موزے کے صرف فوقانی حصے کا مسح کرتے تھے {سنن ابو داود، سنن الترمذی }

{5} اگر حالت اقامت میں موزے پر مسح کیا اور پھر سفر شروع کردیا تو سفر کے مسح کی مدت پو ری کریگا ، اور اگر سفر میں موزے پر مسح کیا اور پھر مقیم ہو گیا تو حالت اقامت کے مسح کی مدت پوری کریگا ۔

{6}مسح کی مدت پہلی بار مسح کے بعد سے شروع ہوتی ہے نہ کی موزہ پہننے کے بعد سے ، اسلئے کہ حدیثوں میں مسح کی مدت ایک دن رات یا مسافر کیلئے تین دن رات بتلائی گئی ہے ۔

{7} واضح رہے کہ عام طور پر حدیثوں میں چرمی موزوں پر مسح کا ذکر ہے ، اسلئے کپڑے کے موزوں یا باریک موزے پر مسح کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے لیکن حق یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے موزہ کہا جائے یا وہ موزے کا کام دے اس پر مسح جائز ہو گا اسلئے کہ بعض حدیثوں میں یہ ذکر ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جورب یعنی غیر چرمی موزے پربھی مسح کیا ہے {سنن ابو داود:159، سنن الترمذی:99 بروایت المغیرۃ } نیز متعدد صحابہ سے کپڑے کے موزے پر مسح کرنا ثابت ہے جیسا کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے ایسے نو صحابہ کا نام لکھا ہے جو کپڑے کے موزے پر مسح کرتے تھے {سن ابو داود :ج 1 ص113}

فوائد :

1 ۔ دین اسلام کی خوبی کہ وہ ایک آسان دین ہے ۔

2 ۔ موزے پر مسح نبی صلی اللہ علیہ وسلم قول وعمل سے بطریق تواتر ثابت ہے ، اسلئے اسکی مخالفت جائز نہیں ہے ۔

3 ۔ ہر وہ موزہ جسے عرف میں موزہ کہا جاتا ہے بشروط اس پر مسح جائز ہوگا ۔

4 ۔ بوٹ جو ٹخنے سے اوپر ہو اس پر مسح جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ نماز اسی میں پڑھی جائے۔

زر الذهاب إلى الأعلى