دوستی ودشمنی میں اعتدال
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر : 152
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أحبب حبيبك هونا ما عسى أن يكون بغيضك يوما ما وأبغض بغيضك هونا ما عسى أن يكون حبيبك يوما ما .
{سنن الترمذی :1997البر وصلۃ ، الطبرانی الاوسط : 3419، 4، 234 }
ترجمہ : حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے دوست سے ایک حد تک ہی محبت کرو ، ممکن ہے کبھی وہ تمھارا سخت دشمن بن جائے اور اپنے دشمن سے نفرت بھی ایک حد تک کرو ، ممکن ہے کسی دن وہ تمھارا دوست بن جائے ۔{سنن الترمذی ، الطبرانی الاوسط }
تشریح : مذہب اسلام ایک آسان ، معتدل اور افراط و تفریط سے پاک دین ہے ، اسکی تمام تعلیمات خواہ وہ عقائد سے متعلق ہوں یا عبادات سے ، معاملات سے تعلق رکھتی ہوں یا معاشرت سے عدل وانصاف اور میانہ رویپر مبنی ہیں ، نہ ان میں افراط کہ عمل کرنے والا ملل و تنگ دلی کا شکار ہو جائے اور نہ تفریط وجفا ہے کہ صاحب حق کا حق ادانہ ہو سکے بلکہ ہر میدان میں ایک درمیانی اور معتدل راہ ہے ، قرآن مجید اور احادیث رسول میں اس پر کثیر دلائل موجود ہیں ،چنانچہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : یقینا دین آسان ہے اور جو دین میں بے جا سختی کرتا ہے تو دین اس پر غالب آجاتا ہے {نتیجۃ دین میں بلا وجہ زیادہ سختی کرنے والا دین میں زیادہ شاخیں اور راستےہونے کی وجہ سے دین کے تقاضوں پر عمل کرنے سےعاجز رہ جاتا ہے اور کچھ ہی دنوں میں تنگ دل ہو کر پسپائی اختیار کر لیتا ہے }لہذا تم سیدھے راستے پر رہو ، میانہ روی اختیار کرو اور صبح وشام اور کچھ حصہ رات کو عبادت کرو میانہ روی اختیار کرو منزل مقصود کو پہنچ جائو گے ۔{صحیح البخاری :39 و6463}
زیر بحث حدیث میں بھی ایک اجتماعی ومعاشرتی مسئلے کے بارےاعتدال ومیانہ روی کی تعلیم دی گئی ہے ، اور وہ ہے محبت ونفرت کا مسئلہ چنانچہ عمومی طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ھم کسی سے محبت و دوستی کرتے ہیں تو اس بارے میں اخلاقی وشرعی حد کو ملحوظ نہیں رکھتے بلکہ اس سے تجاوز کرجاتے ہیں چنانچہ :
{1} ایک شخص کسی سے دوستی کرتا ہے تو اسکے سامنے اپنی بہت سی ایسی خفیہ باتیں جو محض راز کی حیثیت رکھتی ہیں یا انکا ظاہر کرنا اسکے لیئے با عث ضرر ہو تا ہے لیکن دوستی کی حد کو پار کر کے اسے اپنے دوست کے سامنے ظاہر کردیتا ہے جسکا انجام بعد میں برانکلتا ہے حتی کہ یہی چیز بسا اوقات قتل کا سبب بن جاتی ہے ۔
{2} یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی سے دوستی میں گھر کے محارم سے پردہ بھی اٹھ جاتا ہے جسکا نتیجہ بعد میں غیر شرعی تعلقات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور یہی چیز دو دوستوں کی باہمی لڑائی ، سخت دشمنی کا سبب بنی ہے اور معاملہ قتل وقتال تک پہنچ جاتا ہے ،
{3} یہ بھی مشاہدے میں ہے کہ ایک شخص کسی سے دوستی کرتا ہےتو آمد ورفت اور ملنے جلنے کا سلسلہ غیر معمولی شکل اختیار کرجاتا ہے بلکہ اگر گھر قریب ہے تو روزانہ آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، ایک دوسرے کے بغیر کھانا نہیں کھاتے اور اگر گھر دور ہے تو بلاناغہ فون پر باتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جسکا نتیجہ بعد میں خیر سگال نہیں ہوتا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشاد فرمایا : زر غبا تزدد حبا{طبرانی بروایت ابن عمر } زیارت ناغہ دیکر کرو تا کہ محبت باقی رہے ۔
{4} ایسا بھی ہوتا ہے کسی سے دوستی ہوئی تو لین دین میں شرعی حد کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا نہ ہی احتیاط کا پہلو سامنے رکھا جاتا ہے، نتیجۃ یہی چیز اختلاف کا سبب بن جاتی ہے ، بلکہ ایسے بھی واقعات پیش آتے ہیں کہ پرانے دوستوں نے اپنے پرانے حساب کا مطالبہ بھی کیا اور معاملہ کو ٹ تک پہنچا ۔
{5} کچھ لوگ محبت و دوستی میں یہ چاہتے ہیں کہ انکا دوست ہر ہر بات میں انکا ہم خیال رہے لہذا اپنے مزاج کے خلاف کسی بھی بات پر فورا ٹوک دیتے اور اعتراض کر دیتے ہیں پھر ہو تا یہ ہے کہ سامنے والا کچھ دن تو ان اعتراضات کو برداشت کرتا ہے لیکن بعد میں یہی چیز اختلاف کا سبب بن جاتی ہے ۔
{6} اسی طرح اختلاف کی صورت میں بہت سے لوگ ایسا کام کر جاتے ہیں جو بعد میں حسرت و افسوس کا سبب بنتا ہے ۔
انھیں تمام خرابیوں سے بچنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی سے محبت کرو تو اس میں ایک حد تک باقی رہو اور اعتدال کو مد نظر رکھو ، اسقدر افراط و غلو سے کام نہ لو کہ انتہا کو چھو لو کیونکہ کسی چیز کے انتہا وکمال کے بعد اسکا تنزل و زوال شروع ہوتا ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تقلبات زمانہ کی وجہ سے ،یا شیطان کے آپس میں فساد ڈالنے کی وجہ سے اگر محبت نفرت میں اور اتفاق اختلاف میں بدل جائے تو کف آفسوس ملنا پڑے ، اور یہ معاملہ صرف دوستی ومحبت کی حدتک نہیں ہے بلکہ دشمنی ونفرت میں بھی عقلی وشرعی حدود کو پار نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ اختلاف کو بھی ایک حد تک رہنے دینا چاہئے ، برائی کا جواب برائی یا اس سے بڑی برائی سے دینا قطعا مناسب نہیں کیونکہ بہت ممکن ہے کہ وہی شخص جو آج تمھارا دشمن ہے کل تمھارا دوست بن جائے تو تمھیں اپنے کئے پر پشیماں ہونا پڑے ، اللہ مقلب القلوب کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ دشمن کے دلوں کو دوست کا دل بنا دے ، ” عَسَى اللَّهُ أَن يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُم مِّنْهُم مَّوَدَّةً وَاللَّهُ قَدِيرٌ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ” {الممتحنۃ : 7 } کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالی تم میں اور تمھارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے ، اللہ کو سب قدرتیں ہیں اور اللہ بڑا غفوررحیم ہے ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے :” وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ” {فصلت : 34} نیکی وبدی برابر نہیںہو سکتیں ، لہذا تم بدی کو نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو پھر تم دیکھو گے کہ وہ شخص جسکے اور تمھارے درمیان عداوت تھی وہ تمھارے جگری دوست بن گیا ۔
اسی حدیث کی روشنی میں سلف امت بھی اپنے شاگردوں اور ماتحتوں کو دوستی ودشمنی میں میانہ رو رہنے کی تاکید کرتے تھے چنانچہ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام اسلم سے فرمایا : تمھاری محبت عشق زار نہ بن جائے اور تمھاری دشمنی تباہی کا سبب نہ بن جائے ۔ اسلم کہتے ہیں کہ میں نے سوال کیا کہ وہ کیسے ؟ تو حضرت عمر نے جواب فرمایا : جب محبت کرو تو اس بچے جیسی محبت نہ کرو کہ جب وہ کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو اس سے چپک جاتا ہےاور اگر کسی سے دشمنی ہو جائے تو ایسی نفرت نہیں ہونی چا ہئے کہ اسکی ہلاکت وبربادی کی تمنا کرو ۔ {الادب المفرد : 1322 للبخاری }
حضرت حسن بصری نے فرمایا : محبت بھی ایک حد ہی تک ہونی چا ہئے اور دشمنی بھی ایک حد تک کرنی چا ہئے ، اسلئے کہ کچھ لو گوں نے محبت کی تو ایسی کی کہ اسمیں ہلاک ہو گئے اور کچھ لوگوں نے کچھ لوگوں کی نفرت میں افرات سے کام لیا تو اسمیں ہلاک ہو گئے ۔ {شرح السنہ 12/65}
فوائد :
۱- اعتدال اور میانہ روی ہر کام میں پسندیدہ ہے ۔
۲- کسی سے محبت میں غلو کا نتیجہ ضلالت وگمراہی اور حسرت و افسوس ہے ۔
۳- کسی سے نفرت و دشمنی میں حد سے تجاوز ہلاکت کا سبب ہے ۔