خود کشی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :153
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : من تردي من جبل فقتل نفسه فهو في نار جهنم يتردى فيه خالدا مخلدا فيها أبدا ، ومن تحسا سما فقتل نفسه فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن قتل نفسه بحديدة فحديدته في يده يجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا .
( صحيح البخاري :5778 ، الطب – صحيح مسلم : 109 ، الإيمان )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :جس شخص نے کسی پہاڑ سے گرا کر اپنے آپ کو ہلاک کرلیا وہ جہنم کی آگ میں اپنے آپ کو ہمیشہ ہمیش گراتا رہے گا ، اور جس نے زہر پی کر خود کشی کرلی اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیش اسے پیتا رہے گا اور جو شخص کسی ہتھیار سے اپنے آپ کو قتل کرے تو اس کا ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا ۔
{صحیح بخاری و صحیح مسلم }
ورق الٹئے : 1/2 |
تشریح : خود کشی اور اپنے آپ کو ہلاک کرلینے کی خبر آج ہر طرف سے سنائی دے رہی ہے ، کوئی کسی بیماری سے تنگ آکر خود کشی کرلے رہا ہے ، کسی کےسامنے روزی کا مسئلہ اس قدر مشکل ہوگیا ہے کہ وہ جینے پر مرنے کو ترجیح دے رہا ہے ، کوئی امتحان میں فیل اور کوئی کاروبار میں ناکام ہوا ہے تو اپنے آپ کو ہلاک کرلے رہا ہے اور کچھ ایسے بھی بدبخت ہیں جو اپنے کسی ناجائز مقصد جیسے عشق وغیرہ میں ناکام ہوگئے تو خود کشی کرلے رہے ہیں ، غرض یہ کہ اسباب مختلف ہیں اور نتیجہ ایک ہے کہ جان جیسی عزیز و نادر چیز جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ “جان بچی لاکھوں پائے ” کو ضائع کردے رہے ہیں ، اگر یہ معاملہ صرف کافروں و ملحدوں تک رہتا تو کوئی تعجب کی بات نہیں تھی لیکن اب تو یہ وبا مسلم ملکوں اور مسلمانوں میں بھی پھیل رہی ہے، جب کہ از روئے شرع یہ ایک ناقابل معافی جرم اور ایمان کے منافی امر ہے ، زیر بحث حدیث میں خود کشی سے متعلق نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا فرمان کس قدر خوفناک ہے اسے ہر ذی شعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایسا کوئی بھی شخص جو کسی ذریعے اپنے آپ کو ہلاک کرلے ، پانی میں ڈوب کر مرے ، زہر پی کر مرے ، اونچی بلڈنگ یا پہاڑ وغیرہ سے گر کر مرے ، ٹرین کے نیچے کٹ کر ہو یا کسی ہتھیار سے اپنے کو قتل کرلے ہر صورت میں وہ جہنم میں ابدی طور پر دخول کا مستحق ہے ، بلکہ جہنم میں برابر انہیں ذرائع سے اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا رکھے گا ، یہ جرم اس قدر عظیم ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ جہاد اور آپ کی طرف ہجرت جیسے نیک اعمال بھی اس کا کفارہ نہ بن سکے چنانچہ حضرت طفیل بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ میرے ساتھ ایک اور صاحب بھی نبی صلى الله عليه وسلم کی طرف ہجرت کرکے آئے ، مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہ آئی جس سے وہ بیمار ہوئے اور اس بیماری سے اس قدر پریشان ہوئے کہ خود اپنے ہی تیر سے اپنے پوروں کو زخمی کرلیا جس سے کافی خون بہا اور اسی سبب سے ان کا انتقال ہوگیا ، کفن و دفن کے بعد میں نے انہیں خواب میں دیکھا کہ ان کے حالات تو اچھے ہیں لیکن ہاتھوں کو چھپا رکھا ہے ، پوچھا کہ موت بعد تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ جواب دیا کہ نبی کی طرف ہجرت کے سبب مجھے معاف تو کردیا ، البتہ ہاتھوں سے متعلق فرمایا کہ جس چیز کو تم نے اپنے ہاتھوں سے بگاڑا ہے اسے میں نہیں بناوں گا ، حضرت طفیل بن عمرو نے جب یہ خواب نبی صلى الله عليه وسلم سے بیان کیا تو نبی رحمت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : اے اللہ اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے ۔
{ صحیح مسلم :116 } ۔
اس سے معلوم ہوا کہ خود کشی اسلامی نقطہٴ نظر سے ناقابل معافی جرم ہے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ :
اولا : خود کشی کرنا امانت میں خیانت ہے ، خیانت منافق کی نشانی اور ایمان کے منافی امر میں داخل ہے ، نبی کریم صلى الله عليه وسلم تقریبا اپنے ہر خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے :جو امانت دار نہیں وہ مومن نہیں
{ مسند احمد ، عن انس }
کیونکہ نفس انسانی انسان کی ملکیت نہیں بلکہ وہ خالق انسان کی ملکیت ہے لہذا انسان کو اس میں اس قدر تصرف کا حق حاصل ہے جس قدر تصرف کا نفس انسا ن کے خالق نے دیا ہے ۔
ثانیا : خود کشی کرنے والا تقدیر پر عدم ایمان کا مظاہرہ کررہا ہے اور تقدیر پر ایمان بندے کے ایمان کا ایک رکن ہے کیونکہ اس دنیا میں جو کچھ ہورہاہے وہ اللہ علیم و حکیم کی مقرر کردہ تقدیر کے مطابق اور اس کے حکم سے ہورہا ہے :[إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ] {القمر:49} ” بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرر انداز ے پر پیدا کیا ہے ” ۔ [مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا] {الحديد:22} ” نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے [ جیسے قحط ،سیلاب اور دیگر آفات ارضی و سماوی ] نہ خاص تمہاری جانوں میں [ جیسے بیماری وتنگ دستی وغیرہ ] مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ جہاد کرنے والے ایک شخص جو بڑی بہادری سے لڑائی کررہا تھا لیکن جب اس نے خود کشی کرلی تو آپ نے ایک صحابی کو یہ اعلان کرنے کے لئے فرمایا : کہ جنت میں صرف مومن شخص ہی جائے گا اور اللہ تبارک وتعالی اپنے دین کی مدد فاسق و فاجر لوگوں سے بھی لے لیتا ہے ۔
{ بخاری و مسلم }
یعنی چونکہ اس شخص کا ایمان تقدیر پر پختہ نہیں تھا لہذا وہ جہنم میں گیا ۔
ثالثا : ایک مومن سے مطالبہ ہے کہ وہ صبر کا دامن نہ چھوڑے کیونکہانسان کو خسارے سے بچانے والے امور میں صبر بھی داخل ہے [سورہٴ عصر ] اور صبر کا دامن چھوڑنے والا کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے ، حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ صبر آدھا ایمان ہے [ الطبرانی ] لہذا خود کشی کرنے والا بے صبری کا مظاہرہ کررہا ہے :[مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللهِ يَهْدِ قَلْبَهُ] {التغابن:11} ” کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی لہذا جو اللہ پر ایمان لائے[ صبر اور رضا بالقضا کا مظاہرہ کرے ]تو اللہ تعالی اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے ” ۔
رابعا : خود کشی کرنے والا اپنے ر ب کریم و روٴوف و رحیم کے متعلق بدظنی میں مبتلا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ جس حال میں اللہ تعالی نے مجھے رکھا ہے وہ بہتر نہیں ہے بلکہ یہ میرے اوپر ظلم اور میری حق تلفی ہے حالانکہ یہ عقیدہ کافروں اور مشرکوں کا ہے ، اللہ رب العالمین تو اپنے بندوں پر ان کی ماؤں سے زیادہ رحیم ہے : [وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا] {النساء:29} ” اپنے آپ کو قتل نہ کرو بلاشبہ اللہ تعالی تمہارے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہے ” ۔
خامسا : خود کشی کرنے والا اس طرح بھی جہالت و نادانی اور بے ایمانی کا مظاہرہ کررہا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ خودکشی کرکے رسوائی سے بچ جائے گا حالانکہ اسے نہیں معلوم کہ ایک عظیم رسوائی اس کے استقبال میں ہے ، وہ یہ سمجھتا ہے کہ خود کشی کرکے مصیبت و تکلیف سے بچ جائے گا مشکل آسان ہوجائے گی ، تنگی کشادگی میں بدل جائے گی ، حالانکہ اسے نہیں معلوم کہ عالم برزخ کی مشکلات ، میدان حشر کی تکلیفیں اور قبر کی تنگی اس کے استقبال کے لئے تیار ہیں ، اس کی مثال تو یہی ہے کہ سورج کی دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی آگ میں کود پڑے اور بارش کے پانی سے بچنے کے لئے پرنالے کے نیچے آکر کھڑا ہوجائے ۔
سادسا : خود کشی کرنے والا اس بے ایمانی کا بھی ثبوت دے رہا ہے کہ ہر جاندار کی موت کا ایک وقت متعین ہے جس میں لمحہ بھر نہ تقدیم ہوسکتی ہے اور نہ تاخیر لہذا اگر وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی جان نہ گنواتا تو بھی اس کی موت اسی وقت آتی جس وقت خود کشی سے آئی ہے ، اسی لئے آپ لوگ دیکھیں کہ بہت سے لوگ اپنی خود کشی کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوتے اور بہت سے لوگ خود کشی کی کوشش کے بعد مزید تکلیف میں پڑجاتے ہیں ۔
فوائد :
۱- خود کشی گناہ کبیرہ ہے اور اس کا مرتکب جہنم میں ہمیشہ ہمیش کا حقدار ہے ۔ ۔ ۲- خود کشی کرنے والے کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔۔
۳- خو د کشی دنیاوی مصائب کا حل نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو ایک بڑی مصیبت میں ڈالنا ہے ۔
ختم شدہ