آزر ایمان لاتا ہے ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :154
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : يلقى إبراهيم أباه آزر يوم القيامة وعلى وجه آزر قترة وغبرة و فيقول له إبراهيم : ألم أقل لك لا تعصني ؟ فيقول أبوه : فاليوم لا أعصيك ، فيقول إبراهيم : يا رب إنك وعدتني أن لا تخزني يوم يبعثون ، فأي خزي أخزى من أبي الأبعد ؟ فيقول الله تعالى : إني حرمت الجنة على الكافرين ، ثم يقال : يا إبراهيم ما تحت رجليك ، فينظر فإذا هو بذيخ ملتطخ فيؤخذ بقوائم فيلقى في النار .
( صحيح البخاري :3350 ، الأنبياء – شرح السنة :15/119 – النسائي الكبرى :11375 ، التفسير )
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملاقات قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ہوگی ، آزر کا چہرہ پراگندہ اور سیاہ ہوگا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ان سے مخاطب ہوکر فرمائیں گے ، کیا ہم نے آپ سے یہ [بار بار]نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کریں ؟ ان کا باپ بولے گا آج میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا ، لہذا ابراہیم علیہ السلام بارگاہ الہی میں دعا گو ہوں گے ، اے میرے رب آپ نے مجھے وعدہ دیا تھا کہقیامت کے دن مجھے رسوا نہ کریں گے ، مگر اس سے زیادہ رسوائی اور کیا ہوگی کہ میرا بدنصیب باپ [تیری رحمت سے دور ہے ] جواب میں اللہ تعالی فرمائے گا کہ میں نے کافروں پر جنت کو حرام کردیا ہے ، پھر کہا جائے گا : اے ابراہیم اپنے قدموں کے نیچے دیکھو کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام دیکھیں گے کہ ایک بجو گندگی میں لتھڑا ہوا پڑا ہے ، تب فرشتے ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں اس کو پھینک دیں گے ۔
{صحیح بخاری و سنن نسائی ، شرح السنہ }
تشریح : حضرت ابراہیم خلیل الرحمان علیہ السلام کو جب اللہ تبارک وتعالی نے نبوت و رسالت کے لئے منتخب اور کلدانیوں کے رشد و ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ شرک کا سب سے بڑا مرکز خود ان کےگھر میں قائم ہے اور ان کے باپ آزر کی بت سازی و بت پرستی پوری قوم کے لئے مرجع ومحور بنی ہوئی ہے لہذا فطرت کا تقاضا اور خیر خواہی و نصیحت کا اتمام یہ تھا کہ دعوت حق اور پیغام صداقت کی ابتدا اپنے ہی گھر سے کی جائے ، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو مخاطب کیا اور فرمایا : اے میرے ابا جان آپ نے جو راستہ اختیار کر رکھا ہے یہ باطل پرستی ہے ، آپ تو ایسی چیز کی پوجا کرتے ہیں جونہ سنتی ہے ، نہ دیکھتی ہے اور نہ ہی آپ کے کسی کام آسکتی ہے ، اے ابا جان ! حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس ایک ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے ، پس میرے پیچھے چلئے میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا ، اے ابا جان ! شیطان کی بندگی چھوڑ دیں اس لئے کہ شیطان اللہ و رحمان کا باغی ہے ، اے ابا جان ! مجھے ڈر ہے کہ [ اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو ] رحمان کا عذاب آپ کو گھیرلے گا پھر تو آپ شیطان کے ساتھی ہوجائیں گے [ سورہٴ مریم ] لیکن چونکہ نبی کا کام صرف دعوت حق پہنچا دینا ہوتا ہے اسے دلوں پر قدرت حاصل نہیں ہوتی ، اس لئے اس درد بھری مخلصانہ نصیحت کا آزر پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ قبول حق کے بجائے اس نے بیٹے کو دھمکانا شروع کردیا اور کہا : ابراہیم ! کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے اگر تو اس کا م سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا ، اگر تو اپنی خیر چاہتا ہے تو مجھ سے دور چلا جا ۔ [ سورہٴ مریم ] باپ کے اس ہمت شکن اور دھمکی آمیز جواب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ سمجھ گئے کہ اب باپ پر میری نصیحت کا نہ اثر ہوگا اور نہ ہی ان کے پاس رہ کر میں صدائے حق بلند کرسکتا ہوں لہذا بہت ہی ملاطفت اور اخلاق کریمانہ سے یہ جواب دیتے ہیں : ابا جان ! آپ سلامت رہیں [ میں آپ سے الگ ہوجارہا ہوں البتہ اتنا ضرورہے کہ ] میں اپنے رب سے آپ کے لئے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا ، وہ مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے ۔ [ سورہٴ مریم ] ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسی وعدے کا ایک مظہر تھا جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ آزر کی شرک پر موت کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دنیا ہی میں ان سے براءت کا اظہار کردیا تھا : [فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ للهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ] {التوبة:114} ” پھر جب [ باپ کی شرک پر وفات کے بعد ] ان پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بے زاری کا اظہار کردیا ، بلاشبہ ابراہیم بڑے ہی نرم دل اور بردبار انسان تھے ، لیکن اس براءت کے باوجود جب میدان حشر میں اپنے باپ کوا س بری حالت میں دیکھیں گے کہ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں ، گرد وغبار میں لٹا ہوا ہے اور ان کا چہرہ ذلت و رسوائی اور شرم سے کالا ہے تو ان کی صفت رافت و رحمت جوش میں آجائے گی اور ایک بار پھر بے پایاں رحمت الہی کی امید میں باپ کے لئے شفاعت پر آمادہ ہوجائیں گے لیکن چونکہ یہ یقین رہے گا کہ اللہ تعالی مشرک کو کبھی معاف نہیں کرتا لہذا دنیا میں کی گئی اپنی اس دعا کا سہارا لیں گے جس کے بارے میں قبولیت کا یقین یا غالب گمان ہوگا ۔ اے اللہ مجھے آنے والے لوگوں میں ناموری عطا کر [ کہ لوگ میرا نام خیر سے لیں ] ، اے اللہ مجھے نعمتوں والی جنتوں میں شامل فرما ، اور میرے باپ کو معاف کردے بلاشبہ وہ گمراہوں میں سے ہے اور جس دن لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے مجھے رسوا نہ کرنا ۔۔۔ الخ [ الشعراء ] لیکن چونکہ اللہ تعالی بے نیاز ہے ، اس کا فیصلہ اٹل ہے ، شرک و کفر کی آلائشوں سے مکمل پاک دل والے ہی قیامت کے دن رحمت الہی کے حقدار ہوں گے ، لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جواب میں اللہ تعالی یہ ارشاد فرمائے گا : میں نے کافر پر جنت کو حرام کردیا ہے ۔ نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی توجہ اس جانب دلائے گا کہ یہ روز جزاء ہے دنیائے عمل نہیں ہے ، یہاں میزان عدل قائم ہے جس کے لئے ہمارا یہ غیر متبدل قانون ہے کہ کافر و مشرک کے لئے میری جنت میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ کہ مشرک اس لائق ہی نہیں ہے کہ ایک مومن اس پر رحم کھائے خواہ ان دونوں کے درمیان علاقہ ٴ دنیوی کے کتنے ہی مضبوط رشتے ہوں ، اگر کافر کی نجاست و قباحت اور بے وقوفی کا ایک ادنی سا مظہر دیکھنا چاہتے ہوتو اپنے پیر کے نیچے دیکھو ، چنانچہ جب ابراہیم علیہ السلام نیچے کی طرف نظر کریں گے تو ان کے والد کو ایک احمق ، گندے اور نجس جانور بجو کی شکل میں مسخ کرکے ان کے پیروں میں ڈال دیاگیا ہوگا ، جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پاک اور سلیم فطرت اس کو دیکھ کر نفرت و کراہت کرنے لگے گی اور فرشتے ٹانگوں سے پکڑ کر آزر کو جہنم میں پھینک دیں گے ۔
فوائد :
1- ہدایت و ضلالت سے ہمکنار کرنا صرف اور صرف اللہ تعالی کا کام ہے ۔
2- کسی نبی و ولی کا تصرف کسی کے دل میں نہیں ہوسکتا کہ جسے چاہے مومن بنا دے اور جسے چاہے کفر پر چھوڑ دے ۔
3- توحید وایمان کے بغیر کسی کی نجات ممکن نہیں ہے ۔
4- بڑے سے بڑا نبی اور ولی حکم الہی کا پابند ہے ۔
ختم شدہ