ہمارے نبی ﷺ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :156
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ رضي الله عنه قُال : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : ” إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ ، وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ ، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ” .
( صحيح مسلم : 2276 ، الفضائل – سنن الترمذي :3601،المناقب – مسند أحمد :4/107)
ترجمہ :حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے : اللہ تبارک وتعالی نے اولاد اسماعیل بن ابراہیم سے کنانہ کو چن لیا ، کنانہ کی اولاد سے قریش کو چن لیا ، قریش میں سے بنو ہاشم کو چن لیا اور بنو ہاشم میں سے میرا انتخاب کیا ۔
{ صحیح مسلم ، سنن الترمذی ، مسند احمد }
تشریح : اللہ تبارک وتعالی نے اس دنیا میں جن و انس کو ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا فرمایا ہے اور وہ ہے اس کی عبادت واطاعت ، لیکن اللہ تعالی کیا چیز ہے ، اس کی اطاعت کس نہج و طریقے پر کی جائے اور اس کی صحیح رہنمائی کون کرسکتا ہے جب تک یہ تین باتیں معلوم نہ ہوں کوئی بھی شخص اپنا مقصد زندگی پورا نہیں کرسکتا لہذا ہر شخص پر ان تین مسائل کا سیکھنا ضروری ہے کہ ہمارا رب کون ہے جس کی عبادت و اطاعت ہمیں کرنا ہے ، ہمارا دین کیا ہے جسے اپنا کر ہم اللہ تعالی کی صحیح عبادت کرسکتے ہیں ، اور ہمارا نبی و رسول کون ہے جس کی بتائی ہوئی تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنے رب کی صحیح معرفت اور صحیح طریقے سے اس کی عبادت کرسکتے ہیں ۔ —- زیر بحث حدیث میں تیسرے مساٴلے کی طرف اشارہ ہے ، یعنی نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ، اہل علم کہتے ہیں کہ نبی کی معرفت میں درج ذیل باتوں کی معرفت داخل ہے ۔
[۱] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کی معرفت : زیر بحث حدیث میں اسی امر کا بیان ہے کہ اولا :آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاندانی طور پر دنیا کے سب سے اچھے اور اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ خاندان سے ہیں ، آپ کا خاندان اخلاقی اور باطنی خوبیوں کا پیکر تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس میں کوئی اخلاقی برائی پائی جاتی ہو ، چنانچہ آپ کا فرمان ہے : میری پیدائش نکاح و حلال طریقے سے ہوئی ، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر [ میرے والد عبد اللہ ] تک میرے آباء و اجداد میں سے کوئی بھی زنا کا مرتکب نہیں ہوا
{ ارواء الغلیل }
ثانیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی ذریت سے ہیں { سورہٴ صافات } اور بلاشبہ حضرت نوح حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور آدم علیہ السلام سب سے پہلے بشر اور ابو البشر ہیں جنہیں اللہ تعالی نے مٹی سے پیدا کیا اور اپنے دست مبارک سے ان کا پتلا بنایا ، اس طرح یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں اور سب سے افضل بشر ہیں جیسا کہ قرآن مجید اور حدیث نبوی میں یہ چیز بار بار بیان ہوئی ہے، ارشاد باری تعالی ہے :[قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ] {الكهف:110} ” آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک بشر ہوں ، ہاں میر طرف وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” انما انا بشر” اے لوگو ! بجز اس کے کچھ نہیں کہ میں بھی تمہارے جیسا بشر ہوں ، جس طرح تم بھولتے ہو ویسے میں بھی بھول جاتا ہوں ۔۔ الحدیث ۔
{ صحیح البخاری :401 ، صحیح مسلم :572 }
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا انکار قرآن وحدیث کا انکار اور کفر ہے ۔
[۲] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت میں یہ بھی داخل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ترسٹھ “63” سال تھی آپ کی جائے پیدائش مکہ مکرمہ ہے جہاں آپ ترپن “53” سال رہے ، پھر مدینہ منورہ ہجرت کرکے آئے اور وہاں دس سال رہ کر 12 ربیع الاول سن 11 ھ میں وفات پائے ۔
[۳] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ معرفت بھی ضروری ہے کہ آپ کی عمر چالیس سال کی تھی تو آپ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا ، اس طرح حالت نبوت میں آپ کی زندگی تیئیس سال رہی اور اسی عمر میں آپ پر قرآن مجید نازل ہوا ۔
[۴] جب آپ کی عمر چالیس سال پوری ہوگئی اور آپ غار حراء میں تھے تو آپ کے اوپر پہلی بار وحی نازل ہوئی ، جس میں سورہٴ اقراء کی ابتدائی پانچ آیتیں تھیں ، گویا آپ کو یہ آیتیں دیکر نبی بنایا گیا ، پھر بعد میں سورۃ المدثر کی ابتدائی آیتیں دیکر آپ کو دین کی تبلیغ کا حکم دیا گیا :[يَاأَيُّهَا المُدَّثِّرُ(1) قُمْ فَأَنْذِرْ(2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ(3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ(4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ(5) ].{المدَّثر}. ۔
[۵] ابتداء میں آپ کو توحید کی تعلیم ، ایک اللہ کی عبادت اور اخلاق حسنہ کی دعوت کا حکم دیا گیا ، اسی حالت میں آپ دس سال رہے اس درمیان بغیر کسی سستی و کاہلی کے اہل مکہ اور وہاں آنے والوں کو توحید و عقیدہ ٴ صحیحہ کی دعوت دیتے رہے پھر نبوت کے دسویں سال آپ کو معراج کرائی گئی اور ساتویں آسمان پر آپ کو پانچ نمازیں دی گئیں ، پھر جب اہل مکہ نے آپ کو تنگ کرنا شروع کردیا اور آپ کے قتل کے درپے ہوئے تو تیرہویں سال آپ نے بحکم الہی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ، مدینہ منورہ میں دین کے دوسرے احکام نازل ہوئے ، چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال زکاۃ کے نصاب اور رمضان کا روزہ فرض کیا گیا پھر دھیرے دھیرے دیگر امور دین مقرر کئے گئے ، اسی درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو کافروں سے بہت سی لڑائیاں کرنی پڑیں لیکن اللہ کے فضل سے تقریبا ہر لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم غالب رہے ، سن 8ہجری میں مکہ فتح ہوا اور سن 10ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا جس کا نام حجۃ الوداع رکھا گیا ، حج کے دوران میدان عرفات میں آپ پر یہ آیت نازل ہوئی :[ اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلَامَ دِينًا] {المائدة:3} ” آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے ، اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا ” پھر جب دین مکمل ہوگیا تو ہجرت کے گیارہویں سال مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ کو آپ ہی کے حجرہٴ مبارکہ میں دفن کیا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رخصت ہوگئے لیکن آپ کا دین قیامت تک باقی رہے گا جس کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ہر جن و انس پر فرض ہے ۔
فوائد :
۱- ہر انسان کے لئے دین کا علم حاصل کرنا ضروری ہے ۔
۲- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریش خاندان سے تھی ، قریش حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی نسل سے ہیں ۔
۳- آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تمام انسانوں کی طرح بشر اور ابو البشر حضرت آدم کی اولاد میں سے ہیں ، البتہ مقام و مرتبہ میں سے سے افضل اوراعلی مقام پر فائز ہیں ۔
ختم شدہ