ہفتہ واری دروس

محمد رسول اللہ ﷺ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :157

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

عن أَبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْمَعُ بِي رَجُلٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَلَا يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ ، ثُمَّ لَمْ يُؤْمِنْ بِي إِلَّا كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ ” .

( صحيح مسلم :153 ، الإيمان – مسند أحمد :2/317 – التوحيد لابن منده :1/315 )

ترجمہ : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،اس امت کا کوئی بھی شخص یا یہود ی یا نصرانی میرے بارے میں سن لیتا ہے پھر میرے اوپر اور میری لائی ہوئی تعلیم پر ایمان نہیں لاتا تو وہ جہنمی ہے ۔

{ صحیح مسلم ، مسند احمد ، التوحید لابن مندہ ، الفاظ ابن مندہ کے ہیں }

تشریح : نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک وتعالی نے ساری دنیا کے جن وا نس کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے ، اور قیامت تک آنے والے تمام جن و انس کی ہدایت “اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ ” کی شہادت پر منحصر ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : [قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآَمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ] {الأعراف:158} ” آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجاہوا ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے ، لہذا اللہ پر ایمان لا­ؤ اور اس کے نبی [محمد] پر بھی جو [خود] اللہ تعالی پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی اتباع کرو تاکہ تم ہدایت سے ہمکنار ہو ، ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے : [وَمَنْ لَمْ يُؤْمِنْ بِاللهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًا] {الفتح:13} ” اور جو شخص اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو ہم نے بھی ایسے کافروں کے لئے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے ، بلکہ یہ امر اس قدر تاکیدی ہے کہ جو شخص خالق کائنات کے بھیجے ہوئے اس رسول کو رسول نہ مانے اس میں آڑے آئے اس سے قتال کا حکم ہے ” مجھے لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے حتی کہ لوگ ” لا الہ الا اللہ ” کی گواہی دے دیں اور مجھے رسول مان لیں اور میری لائی ہوئی تعلیم پر ایمان لے آئیں ، پھر جب وہ ایسا کرلیں تو انہوں نے اپنے مال اور خون کو مجھ سے محفوظ کرلیا الا یہ کہ کوئی اسلامی حق ہو اور ان کا حساب اللہ تعالی پر ہے ۔

{ صحیح مسلم } ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ماننے کا کیا معنی ہے اور اس میں کیا کیا امور داخل ہیں ؟ بہت سے لوگ زبان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول تو مانتے ہیں لیکن ، انہیں یہ نہیں معلوم کی آپ کے رسول ماننے کا تقاضا کیا ہے ؟ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے رسول ماننے کے لئے یہ کافی کہ سال میں ایک دو بار آپ کے نام محفل میلاد منعقدکرلی جائے ، کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آپ کو اللہ کا رسول ماننے کا یہ معنی ہے کہ آپ کا نام سننے پر انگوٹھا چوم لیا جائے ، کچھ لو گ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی رسالت پر ایمان لانے کا حق اس طرح ادا ہوسکتا ہے کہ آپ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو بے دھڑک قتل کردیا جائے ، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ کا رسول ماننے کا یہ معنی ہے کہ آپ کا نام لے کر جھوٹ یا سچ جو کچھ بیان کیا جائے اسے آنکھ بند کر بلا کسی تحقیق کے قبول کرلیا جائے ، وغیرہ وغیرہ ۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا رسول ماننے کا معنی کچھ اور ہے جس کا جاننا اور ماننا ہر شخص کے لئے ضروری ہے ، چنانچہ اہل علم کہتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا رسول ماننے میں چار چیزیں داخل ہیں :

[۱] جس چیز کا آپ حکم دیں اسے مان لیا جائے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول ماننے کا لازمی تقاضا ہے کہ آپ جس چیز کا حکم دیں اس میں آپ کی اطاعت کی جائے ، آپ کی جناب سے جو حکم بھی صادر ہو اسے کسی چوں و چرا اور لیت ولعل کے بغیر قبول کرلیا جائے ، جس چیز کو آپ نے حلال کیا ہے اسے حلال تسلیم کیا جائے اور یہ ایمان و یقین رکھا جائے کہ اب یہ چیز قیامت تک کے لئے حلال ہے کسی حاکم کا حکم ، کسی عالم کا فتوی ، کسی زاہد کا تقوی اورکسی قوم کے رسم و رواج اسے حرام و ناجائز نہیں کر سکتے لہذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ پر ایمان لانا تو واجب ہے البتہ ہر چھوٹے بڑے حکم میں آپ کی اطاعت واجب نہیں ہے ، یا آپ کا جو حکم قرآن سے ٹکراتا ہو اسے ہم قبول نہیں کرتے یا جو حکم قرآن سے مل رہا ہے اسے ہم فرضی مانتے ہیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل رہا ہے اسے واجب یا ثانوی درجہ دیتے ہیں یا عبادات میں تو آپ کی اطاعت واجب ہے البتہ سیاست و اقتصاد اور معاشرت و اجتماع میں واجب نہیں ہے ، یہ ساری باتیں آپ کو اللہ کا رسول ماننے کے خلاف اور اس کی ضدمیں، ارشاد باری تعالی ہے : [وَمَا آَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا] {الحشر:7} ” اور جو رسول جو کچھ تمہیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے روک دے رک جاؤ ” ۔

[۲] جس چیز سے آپ روک دیں اس سے رک جایا جائے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں یہ امر بھی داخل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز سے روک دیں اس سے رک جایا جائے ، جس چیز کو حرام قرار دیں اس سے فورا ہاتھ کھینچ لیا جائے چنانچہ بدعت ، شرک ، کفر ، چوری ، سود و رشوت ، وغیرہ تمام منہیات کوحرام تسلیم کیا جائے اور اس سے رک جایا جائے اور یہ یقین و ایمان رکھا جائے کہ اب یہ چیزیں قیامت تک کے لئے حرام ہیں ، اب اگر کوئی شخص اوامر میں آپ کی اطاعت کرتا ہے ارکان اسلام و ایمان کی پابندی کرتا ہے لیکن منہیات سے نہیں رکتا یا اسے غلط اور خلاف شرع تسلیم نہیں کرتا تو وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول نہیں مان رہا ہے جس طرح کہ آج بہت سے لوگ ، سود ، رشوت ، بے پردگی اور مرد وزن کے اختلاط وغیرہ جیسے مسائل کے بارے میں متردد ہیں ۔ [۳] نبی صلی اللہ علیہ وسلمکی لائی ہوئی شریعت کے مطابق عمل کیا جائے اور بدعات سے پرہیز کیا جائے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول ماننے میں یہ امر بھی داخل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی عبادت کا جو طریقہ بتلایا ہے اسی طریقہ پر عبادت کی جائے ، اپنی طرف سے نت نئے طریقے ایجاد نہ کئے جائیں ، ” جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ ناقابل قبول ہے ” ۔

{ صحیح مسلم ، مسند احمد } ۔

بلکہ چاہئے تو یہ کہ آپ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا جائے ، عبادت کی جائے تو آپ کے بتلائے طریقے پر ، لین دین کا معاملہ آپ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف کوئی بھی طریقہ ہو اسے ضلالت و گمراہی سمجھا جائے ، بدعات سے سختی سے پرہیز کیا جائے ۔

[4] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی ہر چیز کی تصدیق کی جائے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول ماننے میں یہ بھی داخل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کی تصدیق کی جائے ، اللہ تعالی کی طرف سے غیب کی جو بات بھی آپ بتلائیں انہیں حق و سچ مانا جائے ، ماضی و حال اور مستقبل کے حادثات و واقعات سے متعلق جو بات بھی آپ بیان فرمائیں انہیں حق تسلیم کیا جائے ، کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے : [وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الهَوَى- إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى] {النَّجم:4-3} ” آپ اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کرتے وہ تو وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لکھتے رہو ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق کے علاوہ کوئی اور بات نہیں نکلتی

{ سنن ابو داود}۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى