خیر و شر کی تجارت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :158
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ” مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا ، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا ” .
( صحيح مسلم : 2674 ، العلم – سنن أبو داؤد :4609 ، السنة – سنن الترمذي :2676 ، العلم )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی کو ہدایت کی طرف بلایا تو اس کو ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس ہدایت کے کام میں اس کی پیروی کریں گے البتہ پیروی کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی ، اور جو کسی گمراہی کی طرف بلائے گاتو اس پر ان تمام لوگوں کے برابر وبال ہوگا جو اس گناہ کے کام میں اس کی پیروی کریں گے ، البتہپیروی کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہوگی ۔
{صحیح مسلم ، سنن ابو داود ، سنن الترمذی } ۔
تشریح : اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی کامیابی کے لئے جہاں ایمان و عمل صالح کو شرط قرار دیا ہے وہیں یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ وہدوسروں کو بھی ایمان و عمل خیر کی دعوت دے : [ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالحِكْمَةِ وَالمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ] {النحل:125} ” اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ بلاو” — چونکہ عمل خیر ہی سے زمین کی اصلاح ہے اور اس کے برعکس برائی زمین میں فساد کا سبب ہے لہذا اسلام نے خیر کی طرف دعوت پر ابھارا اور اس کے فضائل بیان کئے ہیں اور برائی سے روکا اور اس کی طرف دعوت دینے کی مذمت کی ہے ۔
زیر بحث حدیث اسی امر سے متعلق ہے ، اس حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ جو شخص کسی بھی ایسے کام کی طرف بلائے اور دعوت دے جو شرع کے موافق اور اسلام میں اسے شرعی حیثیت حاصل ہو خواہ وہ کام بڑا ہو یا چھوٹا تو اس کا اتنا عظیم اجر ہے کہ اس دعوت دینے والے کو اس موافق شرع کام پر عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عمل کرنے والوں کے اجر سے کاٹ کر یہ حصہ دیاجائے گا، ایسا نہیں بلکہ عمل کرنے والوں کو ان کا پورا پورا بدلہ ملنے کے ساتھ ساتھ اس عمل کا سبب بننے والے اور اس کی طرف دعوت دینے والے کو بھی ان تمام عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا ۔
اس حدیث میں ہدایت سے مراد علم نافع اور عمل صالح ہے ، ہر وہ کام جو عمدہ اور شریعت کے موافق ہو وہ ہدایت ہے ، چنانچہ جو شخص بھی کوئی نفع بخش علم سکھائے یا طالبان حق کو کوئی ایسا راستہ بتلائے جس پر چل کر وہ صحیح علم حاصل کریں وہ ہدایت کی طرف داعی ہے ۔
Ûہر وہ شخص جو کسی ایسے نیک عمل کی طرف دعوت دے خواہ اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے جس پر لوگ عمل کریں وہ ہدایت کی طرف داعی ہے ۔
Ûہر وہ شخص جو کوئی ایسی نصیحت کرے جو دین سے متعلق ہو تو وہ ہدایت کی طرف داعی ہے ۔
Ûہر وہ شخص جسے کسی ایسے علم و عمل کی توفیق مل گئی جس پر لوگوں نے اس کی اقتدا کی تو وہ ہدایت کی طرف داعی ہے ۔
Ûہر وہ شخص جس نے کسی مسجد میں کوئی مجلس ذکر منعقد کردی جس میں لوگ دین کی تعلیم حاصل کریں اس نے ہدایت کی طرف دعوت دی ۔
Ûجس نے کسی ایسے عمل خیر میں پہل کی او ر لوگ اس کے پیچھے چل پڑے وہ ہدایت کی طرف داعی ہے ، گویا کہ ہر ایسا شخص جو کسی بھی طرح کسی موافق شرع نیک کام کا سبب بنا وہ ہدایت کی طرف دعوت دینے والا ہے اور اس ہدایت پر جتنے لوگ قیامت تک عمل کریں گے ان سب کے عمل کے برابر اس داعی کو بھی اجر و ثواب ملتا رہے گا اور اس پر فضل الہی یہ کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی ۔
بعینہ اسی طرح ہر وہ کام جو شرع کے خلاف ہو اور اس کے مشروع ہونے پر کوئی شرعی دلیل نہ ہو وہ ضلالت و گمراہی ہے لہذا جو شخص اس کام کا سبب بنتا ہے خواہ تعلیم کے طور پر ہو ، دعوت کے طور پر ہو یا ابتدا کے طور پر وہ ضلالت کا داعی ہے ، چنانچہ
Û جس نے جادو کی ، بدعت کی ، شرک کی اور کسی خلاف شرع کام کی تعلیم دی وہ ضلالت کی طرف داعی ہے ،
Ûجس نے خلاف شرع کتابیں لکھیں ، فحش ناول لکھے ، جھوٹے اور گندے افسانے ترتیب دئے وہ ضلالت کی طرف دعوت دی ،
Ûجس نے برائی کا اڈا قائم کیا ، سینما ہال بنائے اس نے ضلالت کی طرف دعوت دی ،
Ûجس نے اپنے گھر اور رہائش گاہ پر ڈش یا وی سی آر کے ذریعہ گندے ڈرامے یا فلموں کے لئے لوگوں کو جمع کیا وہ ضلالت کی طرف داعی ہے ،
Ûجس نے گندے رسالے فروخت کئے ، آیڈیو ، ویڈیو کیسیٹیں اور سیڈیاں فروخت کیں اس نے ضلالت کی طرف دعوت دی ، اسی طرح
Ûجس نے کسی شہر ، گاؤں یا ملک میں کسی ایسی برائی کو ایجاد کیا جسے وہاں لوگ جانتے نہ تھے اور وہ برائی چل پڑی تو وہ شخص ضلالت کی طرف دعوت دینے والا ہے ، ایسے تمام لوگ ضلالت و گمراہی کے داعی اور جہنم کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور انہیں ان برائیوں پر عمل کرنے والوں کے برابر گناہ ملے گا ۔
فوائد :
۱- عمل کرنے والا اور عمل کا سبب بننے والا نتیجہ کے لحاظ سے دونوں ثواب وعقاب میں برابر ہیں ۔
۲- مسلمان کو چاہئے کہ کسی بھی عمل کے انجام پر غور کرے ۔
۳- مسلمان کو چاہئے کہ جاہلی نعروں اور بری مجلسوں سے دور رہے ۔
۴- خیر کاسبب بننے والے اور برائی کا سبب بننے والوں کا اجر بڑھتا رہتا ہے ۔
ختم شدہ