کیسا آئے پیسہ ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :159
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ” لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِي الْمَرْءُ بِمَا أَخَذَ الْمَالَ ، أَمِنْ الحَلَالٍ أَمْ مِنْ حَرَامٍ ” .
( صحيح البخاري :2083 ، البيوع – سنن النسائي :4456 ، البيوع – مسند أحمد :2/435 )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ آدمی کو اس کی پرواہ نہیں رہے گی کہ وہ مال کہاں سے لے رہا ہے ، ایا حلال ذریعہ سے یا حرام ذریعہ سے ۔
{ صحیح بخاری ، سنن نسائی و مسند احمد }
تشریح : مال انسانی زندگی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے انسان کی معاشیات و معاشرت کے سارے امور وجود مال کے مرہون منت ہیں، مال ہی سے اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہے ، جس کے پاس مال نہیں اس کی زندگی مشکل بلکہ مشکل ترین ہوجاتی ہے ، اسی لئے اسلام نے مال کمانے پر ابھارا ہے ، ارشاد نبوی ہے : ” نیک مال مرد صالح کے لئے کیا ہی خوب ہے ”
{ مسند احمد }
” کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کبھی کوئی چیز نہیں کھایا ” ۔
{ صحیح بخاری }
” تم میں سے ایک شخص لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لاتا اور اسے بیچ کر گزارا کرتا ہے یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے وہ دے یا انکار کردے ” ۔
{ صحیح بخاری و مسلم } ۔
لیکن اس کے لئے اسلام نے شرط یہ لگائی ہے کہ وہ مال حلال ہو اور حلال ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہو کیونکہ اللہ تعالی پاک ہے ، پاک چیز کا حکم دیتا ہے اور پاک ہی چیز کو قبول فرماتا ہے ، ارشاد نبوی ہے : ” لوگو ! اللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک ہی چیز قبول فرماتا ہے ، یاد رکھو ! اللہ تعالی نے مومنوں کو بھی اسی کام کا حکم دیا ہے جس کا حکم اپنے رسولوں کو دیا ہے ، چنانچہ فرمایا : [يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا] {المؤمنون:51} ” اے رسولو ! حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو ، نیز [ مومنوں کو حکم دیتے ہوئے ] فرمایا : [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ] {البقرة:172} ” اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہی کو کھاؤ پیو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کا ذکر فرمایا جو ایک لمبا سفر طے کرتا ہے اس کے بال پراگندہ اور اس کا جسم گرد میں اٹا ہے ، وہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرتا ہے : اے میرے رب ، اے میرے رب ، حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے ، اس کا پینا حرام کا ہے اس کا کپڑا حرام کا ہے اس کی روزی حرام کی ہے تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی ۔ [ صحیح مسلم ] ۔
لیکن بدقسمتی سے شیطان کے ورغلانے کی وجہ سے طیب اور حلال ذرائع کسب کو چھوڑ کر انسان نے متعدد حرام اور ناجائز ذرائع اختیار کر رکھے ہیں ، حتی کہ مسلمانوں نے بھی اس بارے میں کافروں کی ہم نوائی کرلی ہے ، آج ان کے درمیان حرام کمائی کے نت نئے ذرائع ظاہر ہورہے ہیں ، اور وہ ذرائع اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ اپنے دین و ایمان پر حریص مسلمان کے لئے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہوچکا ہے ، جیسے سود ، رشوت ، جوا ، جھوٹ بول کر سودا بیچنا ، سامان کے عیب کو چھپانا ، امانت داری سے ڈیوٹی نہ دینا ، مزدور کا حق مارنا ، مال عام سے چوری کرنا اور اس میں خیانت کرنا بلکہ ایک عام طریقہ یہ رائج ہے کہ کسی دکان یا کمپنی سےسامان سو ریال کا لینا اور بل سو سے زیادہ کا بنوانا، اسی طرح خریدار کو کمیشن دینا تاکہ سود اسی کے یہاں سے خرید ے خواہ وہ دوسروں کے مقابلے میں مہنگا ہی بیچ رہا ہو ، وغیرہ وغیرہ ۔۔ اسی طرح کہ سینکڑوں غیر شرعی اور حرام ذرائع معاشرے میں عام ہیں اور صورت حال یہاں تک پہنچی ہے کہ عام لوگوں کے نزدیک حرام و حلال کی تمیز ختم ہوچکی ہے لوگوں کا مذہب یہ ہوگیا ہے کہ ہمارے جیب میں مال آنا چاہئے ، ہماری تجارت چلنی چاہئے ، ہمیں مزدوری پوری ملنی چاہئے خواہ اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے ، ایسے ہی حالات کا ذکر زیر بحث حدیث میں وارد ہے کہ ایک وقت ایسا ضرور آنے والا ہےکہ انسان کی روح ایمانی ختم ہوجائے گی وہ یہ نہ دیکھے گا اور نہ تلاش کرے گا کہ یہ مال جو ہمیں مل رہا ہے کیا یہ حلال ہے یا حرام ہے بلکہ اس کی کوشش یہ ہوگی کہ اسے مال ملے اور اس کے اکاونٹ و رصید میں اضافہ ہو خواہ اس کا ذریعہ کوئی بھی ہو ۔
واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بطور خبر کے نہیں ہے بلکہ بطور تنبیہ و تحذیر کے ہے کہ قیامت سے پہلے ایسا ضرور ہوگا البتہ ایک مسلمان کو چاہئے کہ اس سے پرہیز کرے اور اس سے بچتا رہے ، اور اپنے پاس آنے والے روپیہ پیسہ اور کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں سوچے اور تحقیق کرے ، کیونکہ اللہ تعالی نے حلال کمائی کے اتنے ذریعے رکھے ہیں جو انسان کو حرام ذرائع سے بےنیاز کرتے ہیں ۔
فوائد :
۱- حرام ذریعہ سے کمایا ہوا مال حرام اور عذاب الہی کا سبب ہے ۔
۲- کسی بھی زمانے میں حلال ذرائع کسب مفقود نہ ہوں گے لہذا مسلمان پر واجب ہے انہیں ڈھونڈے اور تلاش کرے ۔
۳- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ کہ آپ نے جیسا فرمایا آج وہی صورت حال درپیش ہے ۔
۴- حرام ذرائع کمائی کا عام ہونا قیامت کی ایک نشانی ہے ۔
ختم شدہ