ہفتہ واری دروس

نکاح نصف ایمان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :160

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تزوج فقد استكمل نصف الإيمان فليتق الله في النصف الباقي .

( الطبراني الأوسط : 7643، 8/315 – شعب الإيمان :5100 ، 7/241 – مستدرك الحاكم :2/161 )

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے شادی کرلی اس نے آدھا ایمان پورا کرلیا لہذا اسے چاہئے کہ باقی آدھے میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرے ۔

{ الطبرانی الاوسط ، شعب الایمان ، مستدرک الحاکم } ۔

تشریح : شادی اور نکاح انسان کی ضرورت ، نسل انسانی کے تسلسل کا ذریعہ اور جنسی ضرورت کو پورا کرنے کا وسیلہ ہے ، شادی اسلام کی نظر میں ایک مقدس رشتہ اور اللہ تعالی کے افضل ترین بندوں کی سنت ہے ” [وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً] {الرعد:38} ” ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا ” ۔ شادی انسان کو جسمانی راحت اور قلبی سکون فراہم کرتی ہے : [وَمِنْ آَيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً] {الرُّوم:211} ” اور اس کی نشانی میں سے ہے کہ تمہارے جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اور اس نے تمہارے [ میاں بیوی کے ] درمیان محبت و ہمدردی پیدا کردی” ۔ اسلام نے شادی کو یہ اہمیت دی کہ اس کے لئے کوشش کرنے والے انسان کے ساتھ اللہ تعالی کی خصوصی مدد رہتی ہے ، ارشاد نبوی ہے : تین قسم کے لوگوں کا حق ہے کہ اللہ تعالی ان کی مدد کرے :

۱- اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے والا ۔

۲- کاتب غلام جو حق مکاتبت ادا کرنا چاہتا ہے ۔

۳- شادی کرنے والا جو عفت پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے ۔

{ مسند احمد ، الترمذی ، نسائی } ۔

شادی کو اسلام میں وہ مقام حاصل ہے کہ اس رشتے کو جوڑنے اور توڑنے میں کھیل و تماشہ اور ہنسی و مذاق کی گنجائش نہیں ہے ، ارشاد نبوی ہے تین کام ایسے ہیں کہ اس سلسلے میں سنجیدگی حقیقت ہے اور ہنسی مزاح بھی حقیقت ہے ، نکاح ، طلاق اور رجعت ۔ { ابو داود ، الترمذی } ۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی عورت سے مذاق میں نکاح کرتا ہے ، جیسے آج کل فلموں اور ڈراموں میں عام ہے تو یہ حقیقت میں نکاح منعقد ہوجاتا ہے بشرط یہ کہ دیگر شرائط نکاح موجود ہوں ، اسی طرح اگر کوئی بیوی کو مذاق میں یہ کہتا ہے کہ تجھے طلاق تو اس طلاق واقع ہوجائے گی ، اسی پر رجعت کوقیاس کرلیں ۔ اور اگر کوئی شخص اس رشتے میں بندھے جوڑے کے درمیان فساد ڈالتا ہے تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے اعلان براءت ہے ” وہ ہم میں سے نہیں ہے جو کسی کی بیوی کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے اور غلام کو اس کے آقا کے خلاف بھڑکائے ” ۔

{سنن ابو داود ، مستدرک الحاکم } ۔

زیر بحث حدیث سے بھی شادی کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ شادی کو اسلام میں دین کا ایک حصہ بلکہ ایک بڑا حصہ ہونے کی حیثیت حاصل ہے لہذا ہر صاحب استطاعت کو چاہئے کہ وہ شادی کرے ، عالی تعلیم ، اونچی نوکری

اور کثیر مال کا حصول اس میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے ممکن ہے کہ نکاح کی برکت سے اللہ تعالی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت و فراخی میں بدل دے ، اس حدیث میں نکاح کو نصف ایمان یا نصف دین یا تو نکاح پر ترغیب اوراہمیت کے پیش نظر کہا گیا تاکہ لوگ اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس میں کوتاہی نہ کریں یا پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر دینی و دنیاوی طور پر انسان کی بربادی یا تو پیٹ کے لئے ہوتی ہے یا پھر شرمگاہ کے لئے بلکہ یہ عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے کہ انہیں دونوں کام کی فکر وسعی میں پڑ کر لوگ دین سے دوری اختیار کرتے ہیں لہذا فرمایا گیا کہ اگر کسی نے شادی کرلی اپنے نصف دین کو محفوظ کرلیا لہذا باقی نصف کے حفاظت کی بھی فکر کرنی چاہئے ، اس سے واضح ہوا کہ اسلام میں شادی صرف شہوت رازی کا ذریعہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ خانہ بربادی اور انسانی آزادی پر پابندی ہے جیسا کہ بعض جاہل لوگ تصور کرتے ہیں بلکہ یہ ایک مبارک عمل اور اللہ تعالی کے نیک بندوں کی سنت ہے ، البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شادی کرنے والا مذکورہ بالا فضیلت کو حاصل بھی کرلے ، مذکورہ فضیلت کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ شادی میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے ۔

[۱] شادی محض جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے ، اور اللہ کے افضل ترین بندے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ، ارشاد نبوی ہے : ” نکاح میری سنت ہے ور جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے ” ۔ { ابن ماجہ }۔ مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےفرمایا : تمہیں چاہئے کہ تم شادی کرو کیونکہ اس امت کے سب سے افضل شخص [ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ] سب سے زیادہ بیویوں والے تھے ۔

{ مصنف ابن ابی شیبہ } ۔

[۲] زنا و فواحش سے اپنی پاکدامنی مقصود ہو تاکہ دیگر دنیاوی ضروریات اور بعض بیماریوں سے نجات کے ساتھ اللہ تعالی کی مدد کا حق دار ٹھہرے ۔ ” جو شخص عفت و پاکدامنی کے لئے شادی کرتا ہے اللہ تعالی اس کی مدد ضرور کرتا ہے ” ۔

{ المشکاۃ } ۔

[۳] اولاد کی خواہش و نیت رکھے تاکہ اس کے لئے صدقہ جاریہ اور قیامت کے دن جہنم سے نجات کا ذریعہ ہو ۔ ” قیامت کے دن بچوں سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجا­ؤ ، وہ جواب دیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم جنت میں اس وقت تک داخل نہ ہوں گے جب تک کہ ہمارے ماں باپ جنت میں داخل نہ ہوجائیں ، اللہ تعالی فرمائے گا تم لوگ اور تمہارے ماں باپ سب کے سب جنت میں داخل ہوجا­ؤ ” ۔

{ احمد :4/105 } ۔

[۴] دیندار اور شکر گزار عورت سے شادی کرے : ایک بار صحابہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ہم کون سا مال حاصل کرنے کی کوشش کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہیں چاہئے کہ شکر کرنے والا دل اور ذکر کرنے والی زبان حاصل کرو اور ایسی نیک مومن بیوی جو آخرت کے معاملات میں تمہاری مدد کرے ۔

{ الترمذی ، ابن ماجہ }۔

فوائد:

۱- شادی انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے ۔

۲- نکاح و طلاق کو اسلام میں قدسیت حاصل ہے اور ان سے کھلواڑ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے ۔

۳- بعض محض دنیاوی کام اگر ان کے ساتھ نیت صالحہ ہو تو وہ عبادت بن جاتے ہیں ۔

۴- شیطان کو یہ محبوب ہے کہ میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دے ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى