ہفتہ واری دروس

بیوی کا حق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :161

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

عَنْ مُعَاوِيَةَ بن حيدة رضي الله عنه ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ ؟ قَالَ : ” أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ ، وَلَا تَضْرِبْ الْوَجْهَ ، وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ.

( سنن ابو داود :2142 ، النكاح – سنن ابن ماجه : 1850 ، النكاح )

ترجمہ : حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا : جب تو کھائے تو اسے کھلائے اور جب لباس پہنے تو اسے بھی پہنائے ، اور اس کے چہرے پر نہ مارے ، نہ اسے برا بھلا کہے اور بطور تنبیہ اس سے علیحدگی اختیار کرنی ہوتو گھر ہی میں کرلے ۔

{ سنن ابو داود ، سنن نسائی } ۔

تشریح : عقد نکاح کو قرآن اور صحیح احادیث میں میثاق غلیظ ، پختہ عہد اور اللہ تعالی کی امان قرار دیا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے مجمع میں مردوں کو عورتوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرنے اور ان کے ساتھ خیر اور حسن سلوک کی وصیت فرمائی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ مرد اگرچہ عورتوں کے با اختیار اور صاحب امر سربراہ ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنے اس اختیار کو جس طرح چاہیں استعمال کریں اور اپنی کمزور اور ناتواں بیوی کے ساتھ جیسا سلوک چاہیں کریں ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عورت جو ان کے زیر دست رکھی گئی ہے ، ان کی بیوی بن کر ان کے گھر میں ایک قیدی کی صورت میں وارد ہوئی ہے اسے اللہ تعالی کی امان و پناہ حاصل ہے اور اس کے بارے میں اللہ تعالی کا بہت ہی پختہ عہد ہے پھر اگر شوہر اسے توڑتا ہے اور اپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے تو اللہ تعالی کی دی گئی امان کو توڑنے کا مجرم ٹھہرتا ہے اور قیامت کے دن اس کا جواب دہ ہوگا لہذا اسے چاہئے کہ وہ اس عہد و امان کا پاس و لحاظ رکھے اور اپنی بیوی کے شرعی حقوق کو بحسن و خوبی ادا کرے ۔ زیر بحث حدیث میں بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے بعض اہم حقوق کی طرف امت کی رہنمائی فرمائی ہے اور خوشگوار خانگی زندگی کے لئے چند مفید ہدایات دی ہیں ۔

[۱] عورت کے طعام ولباس اور خان و خرچ کی ذمہ داری شوہر پر ہے اور حسب استطاعت و دستور وہ اس کا پورا ذمہ دار ہے ، اس حکم میں بعض مردوں کی اس اہم غلطی پر تنبیہ کی گئی ہے جو عورت کے طعام ولباس کے بارے میں بخالت سے کام لیتے ہیں ، ماحول و معاشرہ کے مطابق عورت کے کھانے و لباس کا انتظام نہیں کرتے ، جس ماحول میں طعام و لباس کا جو معیار ہو عورت کا شرعی حق ہے کہ اس مہیا کیا جائے لیکن ہوتا یہ ہے کہ بعض مردوں کو اپنے کھانے اور پہننے کی جو فکر ہوتی ہے وہ بیوی بچوں کے کھانے پہننے کی نہیں ہوتی ، بعض مردوں کی طبیعت اس قدر گھٹیا ہوتی ہے کہ وہ عورتوں کا مال بھی ہڑپ کرلیتے ہیں اور بعض تو دناءت کے اس دلدل میں گھرے ہوتے ہیں کہ عورت کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے والدین اور بھائی کے گھر سے ان کے لئے رقم لے کر آئے یہ اور اس طرح کے دیگر امور اللہ تعالی کے عہد و امان توڑنے میں داخل ہیں اور حدیث شریف کے پہلے جملے میں اس پر تنبیہ ہے ۔

[۲] اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت پر مرد کی سرپرستی اور اسے برتری حاصل ہے ” الرجال قوامون علی النساء ” { النساء } مرد عورتوں پر نگراں ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں اپنی بیوی پر قدرت کاملہ حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہیں عورت کو ماریں اور جس طرح چاہیں اس کی توہیں کریں ، حتی کہ بعض نادان مردوں کا معاملہ یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ بیوی کے خاندان اور اس کے ماں باپ اور بھائی بہن کو بھی برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں ، بعض مردوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ تھوڑی تھوڑی بات پر عورتوں کو بری طرح مارنا شروع کردیتے ہیں جب کہ اسلام انہیں مارنے کا جواز دیتا ہے ، لیکن مارنے سے قبل حکیمانہ طورپر وعظ و نصیحت کا حکم بھی دیتا ہے پھر اگر وعظ و نصیحت سے کام نہ چلے تو بطور تنبیہ مارنے کی اجازت ہے ، البتہ مارنے پر چند امور سامنے رکھنا ضروری ہیں : ۱- مار ہلکی ہونی چاہئے ، تکلیف دہ اور توڑ پھاڑ والی مار کی اجازت نہیں ہے ۔ ۲- چہرے پر یا کسی ایسی جگہ مار نہ پڑے جو دیکھنے والے پر ظاہر ہو ۔ ۳- مار کا مقصد عورت سے انتقام نہیں بلکہ تنبیہ ہو ۔

[۳] بعض شوہر کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ سیدھی زبان استعمال نہیں کرپاتے خاص کر بیوی کی معمولی غلطی پر نہ صرف اسے بلکہ اس کی شکل و صورت ، اس کے ہنر حتی کہ اس کے قبیلے و خاندان کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں جیسے پھو پڑ ، کم عقل ، بدبخت اور فلاں کی بیٹی جیسے الفاظ استعمال کرتے یا یہ کہ ہماری قسمت کہ تو ہمارے سر آ پڑی ہے ، اگر تو کسی لائق ہوتی تو کیا میرے گھر آتی ، یا کیا تو نے اپنے چہرے کو نہیں دیکھا کیسا ہے ، وغیرہ وغیرہ اس قسم کے تمام سوقیانہ الفاظ قطعا غیر مناسب ہیں بلکہ اس کی شکل و صورت اور عقل و سمجھ سب اللہ تعالی کی بتائی ہوئی ہیں ، وہ گھر کی ملکہ ہے اسے عزت وتکریم سے رکھنے کا حکم ہے ، باربار طعنے اور کچو کے دینا ، اور اولاد و رشتہ داروں کے سامنے ذلیل کرنا اور گھر میں اسے ایک عضو معطل کی طرح سمجھنا اللہ تعالی کے امان کے خلاف ہے ۔

[۴] بسا اوقات ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ بعض نافرمان عورتوں کو راہ راست پر لانے کے لئے ترک تعلق کی ضرورت پڑتی ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہے کہ وقتی طور پر ان سے بات چیت بند کردی جائے ، اپنا بستر الگ کرلیا جائے اور اگر بہت ناگزیر حالات ہوں تو گھر سے الگ کسی جگہ جیسے مسجد کا کمرہ یا باغیچہ وغیرہ میں بنے کمرے میں رہائش اختیار کرلی جائے ، البتہ نہ عورت کو گھر سے نکالا جائے اور نہ خود گھر سے اس طرح غائب ہوجایا جائے کہ بیوی کو اس کی خبر نہ ہو کیونکہ اس طرح حالات بننے کے بجائے مزید بگڑ جائیں گے ۔

خلاصہ یہ کہ مردوں کو چاہئے کہ اپنی بیویوں کے بارے میں اس وصیت نبوی کا پاس و لحاظ رکھیں ان کی معمولی غلطیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہتر سلوک اور دلداری کا برتاو کریں ، اسی طریقے میں شادی خانہ آبادی اور سکون و اطمینان کا ذریعہ بنے گی ۔

فوائد :

۱- عورت کی بنیادی ضروریات کا مہیا کرنا مرد کا فرض ہے ۔

۲- چہرے پر مارنا منع ہے ۔

۳- مرد کو حق حاصل ہے کہ عورت کی غلطی پر تنبیہ کرے ۔

۴- اگر زبانی تنبیہ سے کام نہ چلے تو شوہر اپنی بیوی کو معمولی مار مارسکتا ہے ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى