کھیل کے شرائط
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :162
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” لَا سَبقَ إِلَّا فِي خُفٍّ أَوْ فِي حَافِرٍ أَوْ نَصْلٍ ” .
( سنن أبو داؤد :2574 ، الجهاد – سن الترمذي :1700 ، الجهاد – سنن النسائي :3612 – سنن ابن ماجه :2878 ، الجهاد ) .
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انعامی مقابلہ جائز نہیں ہے مگر اونٹ دوڑ میں ، گھڑ دوڑ میں اور تیر اندازی میں ۔
{ ابو داود ، الترمذی ، النسائی ، ابن ماجہ }
تشریح :خالق کائنات نے انسان کی طبیعت کچھ ایسی بنائی ہے کہ وہ ایک نمط پر کام کرتے کرتے اکتا جاتا ہے ، وہ سنجیدہ مزاجی اور جدیت سے نکل کر کچھ دل لگی اور ہزلیت کی بات کرنا چاہتا ہے یا یہ کہئے کہ وہ اپنے دینی و دنیوی فرائض سے الگ ہو کر کچھ ہنسی مزاح اور سیر وتفریح کے میدان میں آنا چاہتا ہے ، جس کے لئے اسلام اسے موقع و چھوٹ دیتا ہے اور اسے اپنے جسم وروح کو آرام دینے کے لئے مواقع فراہم کرتا ہے ، لیکن اس کےلئے انسان کو بالکل آزاد نہیں چھوڑتا بلکہ اس کے لئے کچھ حدود و قیود رکھتا ہے تاکہ انسان جاد صواب سے نہ بھٹکے اور حدود الہیہ کو پامال نہ کرے ۔
آج ہمارے ماحول میں قسم قسم کے کھیل رائج ہیں جسے لوگ سیر و تفریح اور دلچسپی کا ذریعہ تصور کرتے ہیں حالانکہ آج صرف کھیل نہیں رہ گئے ہیں بلکہ ایک فن اور کاروبار کی صورت اختیار کرگئے ہیں ، آج بہت سے لوگوں کا مشغلہ ہی کھیل اور کھلاڑی ہیں حتی کہ مسلمان جوانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنی ہر ذمہ داری بھول کر کھیل اور کھلاڑیوں میں دلچسپی لے رہا ہے اورصرف مردوں تک نہیں بلکہ یہ وبا حوا کی بیٹیوں اور عائشہ و فاطمہ {رضی اللہ عنہما } کی بہنوں تک پہنچ گئی ہے ، لہذا ضروری ہے کہ کھیلوں سے متعلق اسلامی ہدایات کو جانا اور انہیں سامنے رکھا جائے تاکہ :[ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَا مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ]{الأنفال:42} ” جو ہلاک و برباد ہو وہ دلیل و حق کو پہچان کر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ بھی دلیل و حق کو پہچان کر زندہ رہے ، کھیل سے متعلق اہل علم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں جو اصول رکھے ہیں ان میں سے اہم یہ ہیں :
[۱] ہر وہ کھیل جس سے جہاد پر مدد لی جاسکے ، اللہ تعالی کی عبادت اچھے طریقے سے کی جاسکے اور وہ کھیل اللہ کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی پر مددگار ثابت ہو شریعت کی نظر میں مرغوب و پسندیدہ ہے ، ارشاد نبوی ہے : ہر وہ چیز جو اللہ تعالی کے ذکر میں داخل نہیں ہے وہ کھیل کود اور غفلت میں شامل ہے سوائے چار کاموں کے :۱- آدمی کا اپنا گھوڑا سدھانا ۔ ۲- اپنے اہل خانہ سے دل لگی کرنا ۔ ۳- دونشانوں کے درمیان دوڑنا ۔ ۴- تیرا کی سیکھنا سکھانا ۔ {نسائی الکبری ، طبرانی کبیر بروایت جابر } ۔ نیز فرمایا : انسان کا ہر کھیل باطل ہے سوا اس کے کہ انسان تیر اندازی کرے ، اپنے گھوڑے کو سدھائے اور اہل کے ساتھ دل لگی کرے ۔
{ سنن اربعہ ، صحیح ابن خزیمہ بروایت عقبہ } ۔
[۲] اس کھیل کی وجہ سے کسی حرام کام میں واقع نہ ہو ، یعنی یہ کھیل کھیلنے اور دیکھنے کی وجہ انسان کو کوئی حرام کام نہ کرنا پڑے جیسے مرد وزن کا اختلاط ، شرم گاہ پر نظر پڑنا ، شرم گاہ کا ننگی رکھنا جیسا کہ بعض کھیلوں میں ران کو کھولے رکھنا پڑتا ہے ،ارشاد نبوی ہے : اپنی ران کو ڈھکو اس لئے کہ ران شرمگاہ میں داخل ہے ۔
{ ابو داود ، الترمذی بروایت جرہد } ۔
اگر کھیل کھیلنے یا دیکھنے میں اس طرح کے کسی حرام کام میں پڑجانے کا خوف ہے یا آپس میں حساسیت پیدا ہونے کا ڈر ہے تو وہ ناجائز ہوگا ۔
[۳] اس کھیل کے دیکھنے یا کھیلنے کی وجہ سےکوئی واجب نہ ترک ہو رہا ہو خواہ وہ واجب دینی ہو یا دنیوی ۔ دینی واجبات جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کیونکہ ان واجبات کی اہمیت شریعت میں یہ ہے کہ اگر کسی مستحب اور باعث اجر عمل کی وجہ سے یہ واجب چھوٹ رہے ہوں تو وہ مستحب عمل جائز نہیں ہے تو پھر کھیل کیسے جائز ہوسکتا ہے بلکہ یہ اس لہو الحدیث میں داخل ہوگا جس کا ذکر درج ذیل فرمان الہی میں ہے : [وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ] {لقمان:66} ” اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بتائیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کن عذاب ہے ، سچ فرمایا امام بخاری رحمہ اللہ نے :کل لھو باطل اذا شغلہ عن طاعۃ اللہ ”
{صحیح البخاری مع الفتح :11/91 }
” ہر کھیل باطل ہے جو اللہ کے ذکر سے غافل کردے ” ۔ دنیوی واجبات کی مثال وہ ڈیوٹیاں ہیں جن پر تنخواہ اور مقابل لیتے ہیں ان ڈیوٹیوں کو چھوڑ کر کھیل دیکھنا یا کھیلنا جائز نہ ہوگا ۔
[۴] وہ کھیل مقابلہ بازی کا نہ ہو ، اس معنی میں کہ جیتنے والی ٹیم کو جیتنے کے عوض یا اچھے کھیل کے عوض اسے ایک متعینہ رقم یا کپ دیا جائے ، اس لئے کہ انعامی مقابلہ صرف انہیں کھیلوں میں جائز ہے جس کی اجازت شریعت نے دی ہے جیسا کہ زیر بحث حدیث میں بیان ہوا ہے یعنی ، گھوڑ سواری ، تیر اندازی وغیرہ ، انہیں پر ہر اس کام کو قیاس کیا جاسکتا ہے جو جہاد فی سبیل اللہ یا دین کی دعوت وتبلیغ میں معاون ہوسکتے ہیں ، جیسے حفظ قرآن یا کسی بہترین مقالہ وغیرہ ۔
[۵] کھیل کا مقصدکھیل ہو ، اس کے ذریعہ روزی کمانا ، اسے دوستی کا معیار بنانا اس سلسلے میں فضول خرچی کرنا جیسے کھیل کے لئے ٹکٹ بیچنا یہ سارے کام اس کھیل کے حرام ہونے میں داخل ہونگے ، جیسا کہ آج عام طور پر کھیلوں میں پایا جارہا ہے کہ بہت سے لوگوں کی زندگی کا مقصد اولین ہی کھیلنا اور کھیل دیکھنا ہے ، بہت سے مسلمان بچے اور بچیوں کے لئے اسوہ اور آئیڈیل ، آج صرف کھلاڑی ہیں ، دو جماعتوں میں عصبیت و اختلاف کا ذریعہ کھیل اور کھلاڑی ہیں ، لہذا یہاں یہ کھیل نہ رہ گیا لہذا ازروئے شرع وہ ممنوع ہوگا ۔
فوائد :
۱- اسلام کوئی جامد اور خشک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک واقعی اور شامل مذہب ہے ۔ ۲- مسلمان کو تفریح کے طور پر ایسے کام کرنے چاہئے جو دین و دنیا میں مفید ہوں ۔ ۳- تیر اندازی ، گھوڑ سواری چونکہ ذاتی دفاع کا ذریعہ اور جہاد میں مفید ہے لہذا اس کا کھیل ایک کار ثواب ہے ۔
۴- جدید دورمیں جو اسلحہ کفار کے خلاف جنگ میں استعمال ہوسکتا ہے اس کی تربیت حاصل کرنا تیراندازی میں داخل ہے۔
۵- بیوی کے ساتھ دل لگی خود کو اور اس کو گناہ سے پاک رکھنے کا ذریعہ ہے لہذا اسے اہمیت حاصل ہے ۔
ختم شدہ