چھوٹی سی مملکت
سم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :163
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ” لَا تُؤْذِي امْرَأَةٌ زَوْجَهَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا قَالَتْ زَوْجَتُهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ : لَا تُؤْذِيهِ قَاتَلَكِ اللَّهُ ، فَإِنَّمَا هُوَ عِنْدَكَ دَخِيلٌ يُوشِكُ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا ” .
( سنن الترمذي :1174 ، كتاب الرضاع – سنن ابن ماجة :2014 ، النكاح )
ترجمہ : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا پہنچاتی ہے تو اس کی حور عین میں سے ہونے والی بیوی کہتی ہے : اللہ تجھے ہلاک کرے ، اسے ایذا مت پہنچا ، کیونکہ یہ تیرے پاس چند روزہ مہمان ہے ، عنقریب یہ تجھ سے جدا ہوکر ہمارے پاس آنے والا ہے ۔
{ سنن الترمذی ، سنن ابن ماجہ } ۔
تشریح: میاں بیوی اور چند بچوں پر مشتمل ایک بادشاہت ہے جس کا سربراہ اعلی شوہر اور نائب و داخلی امور کی ذمہ دار بیوی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : [الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء] {النساء:34} ” مرد عورتوں کے حاکم ہیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اولاد کی ذمہ دار ہے ۔
{بخاری و مسلم }
باقی افراد خانہ کو رعایا ہونے کی حیثیت حاصل ہے ، اب اگر اس چھوٹی سے مملکت کے دونوں ذمہ دار اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے اور حتی المقدور ادا کرتے رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانتے رہیں تو یہ چھوٹی سے مملکت کو پائیداری بھی حاصل ہوتی ہے ، امن و امان بھی قائم رہتا ہے اور سکون قلب و راحت بال بھی میسر آتی ہے لیکن میاں بیوی اپنے اپنے حقوق و فرائض کو نہ پہچانیں ، میاں صاحب اپنی سربراہی کا حق ادا نہ کریں یا اسے غلط استعمال کریں اور محترمہ صاحبہ سربراہ اعلی کی اطاعت نہ کریں اور داخلی امور کو بخیر و خوبی انجام نہ دیں اور مزید اس پر یہ کہ بعض خارجی طاقتوں کو اس چھوٹی سے مملکت میں دخل اندازی کا موقعہ فراہم کریں تو یہ حکومت و بادشاہت جلد ہی زوال پذیر ہوجاتی ہے ، اس کے ٹکٹرے ٹکڑے ہوجاتے ہیں اور اس پر دشمن { شیطان } کا قبضہ ہوجاتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابلیس لعین [ہر صبح کو ] اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے اور لوگوں کو ورغلانے کے لئے اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے ، پھر ابلیس کے سب سے قریب وہ شیطان ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ پھیلاتا ہے ، چنانچہ ان میں کا ایک شیطان آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے ایسا کیا ، ویسا کیا ؟ ابلیس کہتا ہے کہ ٹھیک ہے لیکن تم نے کوئی بڑا کام نہیں کیا ، پھر ایک اور شیطان آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں میاں اور اس کی بیوی کے پیچھے پڑا رہا بالآخر دونوں میں تفرقہ ڈال کر چھوڑ ا ، یہ سن کر ابلیس اسے اپنے قریب کرتا ہے اور اس سے کہتا کہ ہاں ! تم نے بڑا کام کیا ہے پھر اسے اپنے سے چمٹا لیتا ہے ۔
{ صحیح مسلم بروایت :2017 } ۔
اسی لئے اسلام نے میاں اور بیوی کے الگ الگ حقوق و واجبات متعین کئے ہیں اور ہر ایک کو ان کی پابندی کا سختی سے حکم دیا ہے ، زیر بحث حدیث میں گھر کی مالکہ اور امور خانہ داری کی ذمہ داربیوی کی ایک اہم ذمہ داری کی طرف اشارہ ہے کہ اس پر شوہر کا حق ہے کہ وہ شوہر کے جذبات و احساسات کا خیال رکھے ،
اپنے قول و فعل سے اسے اذیت نہ پہنچائے بلکہ کوئی بھی ایسا رویہ اختیار نہ کرے جس سے شوہر کو تکلیف پہنچے ، نہ ہی اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے ، نہ ہی کسی ایسے شخص کو اپنے گھر میں آنے کی اجازت دے جس کی آمد شوہر کو ناگوار گزرتی ہو خواہ یہ اس کا قریبی سے قریبی رشتہ دار ہو ، نہ ہی شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھے اور یہ دھیان رکھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے بعد بیوی پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے ، اور جس عورت کا انتقال اس حال میں ہوتا ہے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہے تو وہ جنت کی حقدار ہے
{ سنن الترمذی براویت ام سلمہ } ۔
نیز عورت کو چاہئے کہ شوہر کی آمدنی سے بڑھ کر ناجائز مطالبات کرکے اسے ایذا نہ پہنچائے اور نہ ہی اس کے مال میں ناجائز تصرف کرے ، جب کہ حالات شاہد ہیں کہ بہت سی عورتیں اپنی خواہشات کے پیچھے اس قدر بھاگتی ہیں کہ ایک اوسط کمائی والے شوہر کے لئے ان کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے ، اس طرح وہ شوہر کو ایذا دہی کے جرم میں مبتلا ہوجاتی ہیں ، انہیں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ روزی کی تنگی وفراخی سب اللہ تعالی کی طرف سے ہے ، اسی طرح عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے گھریلو معاملات میں شوہر کے مقابلہ میں اپنے اہل خاندان کی اطاعت کرکے شوہر کو ایذا نہ پہنچائے خواہ اس کی والدہ اور بھائی بہت ہی کیوں نہ ہوں ، حالات شاہد ہیں کہ عمومی طور پر بیوی کے اہل خانہ جذبات ، نادانی اور غیر ضروری محبت کی وجہ سے اپنی بیٹی کے لئے خیر خواہ ثابت نہیں ہوتے بلکہ اسے برابر ورغلاتے اور شوہر کے اہل خانہ خصوصا اس کی ماں اور بہنوں کے خلاف ابھارتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے شوہر کے لئے سکون و اطمینان کی زندگی گزارنا مشکل ترین کام بن جاتا ہے ، ایک سروے کے مطابق دنیا میں پچیس فیصد سے زائد طلاق کا سبب بیوی کے اہل خانہ خصوصا اس کی ماں اور بہن بھائیوں کی غیر ضروری دخل اندازی ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے اجتماع میں تمام لوگوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ جس طرح تمہارا حق تمہاری بیویوں پر ہے اسی طرح تمہاری بیویوں کا حق تم پر ہے ، پس تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ایسے لوگوں کو نہ بیٹھنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو اور ایسے لوگوں کو گھر کے اندر آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے [ خواہ وہ شخص ان کے محارم اور عزیزوں ہی میں سے کیوں نہ ہو ]
{ سنن الترمذی و ابن ماجہ } ۔
شوہر کو ایذا پہنچانے کی یہ اور اس طرح کی تمام صورتیں حدیث میں وارد وعید میں داخل ہیں کہ اللہ تعالی کی پاک بندیاں جنہیں حورعین کہا جاتا ہے وہ ایسی عورت پر اللہ تعالی کی لعنت و پھٹکار بھیجتی ہیں اور اس کے ہلاکت کی دعا کرتی ہیں اور اسے آخرت یاد دلاتے ہوئے کہتی ہیں کہ تو اپنی اس بدخلقی ، بد زبانی اور بد چلنی سے باز آجا ورنہ یاد رکھ کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے ، تیرا شوہر جلد ہی تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آنے والا ہے پھر شاید اس کے بعد تجھے اس سے ملنا نصیب نہ ہو ۔ ۔۔۔۔۔۔اس حدیث میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ شوہر کو نیک سیرت بننا چاہئے ورنہ جو شوہر جنت کا حقدار ہوگا ہی نہیں یا اپنی بیوی پر ظلم کرنے والا ہوگا کوئی بعید نہیں کہ اللہ کی دوسری مخلوقات اس پر اللہ تعالی کی پھٹکار بھیجتی ہوں ۔
فوائد :
۱- شوہر کے حقوق و واجبات کی اہمیت ۔
۲- نیک اور صالح شوہر کے لئے خوشخبری کہ اللہ تعالی نے اس کے لئے حوریں تیار رکھی ہیں ۔
۳- بدخلق و بدچلن بیوی کے لئے وعید کہ حور عین اس کے لئے بد دعا دیتی ہیں ۔
ختم شدہ