خلع کے احکام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :169
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ” أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اقْبَلِ الْحَدِيقَةَ ، وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً ” .
( صحيح البخاري :5273 ، الطلاق – سنن النسائي :3490 ، الطلاق – سنن ابن ماجه :2056 ، الطلاق)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہتی ہے : اے اللہ کے رسول !میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق پر عیب نہیں لگاتی البتہ میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں ، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا : کیا وہ باغ [ جو اس نے تمہیں بطور مہر کے دیا تھا ] اسے انہیں واپس کرتی ہے ؟ اس عورت نے جواب دیا : جی ہاں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [ حضرت ثابت بن قیس سے ] کہا کہ باغ واپس لے لواور اسے ایک طلاق دے دو ۔
{ صحیح بخاری ، سنن نسائی و سنن ابن ماجہ }
تشریح : عقد نکاح سے جو تعلق ایک مرد و عورت کے درمیان قائم ہوتا ہے عمومی طور پر اس کا نتیجہ ، باہمی محبت و اعتماد اور پر سکون زندگی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ، ارشاد نبوی ہے عقد نکاح میں جڑے ہوئے جوڑوں کے مثل محبت کرنے والوں کو تم نہ پاؤ گے
{ سنن ابن ماجہ } ۔
لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یہ محبت نفرت اور اعتماد بداعتمادی میں بدل جاتی ہے ، اور پر سکون زندگی قلق و اضطراب کی شکل اختیار کرلیتی ہے ، ایسے موقعوں پر اسلام نے اولا زن و شو کو یہی تعلیم دی ہے کہ دونوں صبر و احتمال سے کام لیتے ہوئے زندگی کے گاڑی کو آگے بڑھائیں اور اصل مرض کے علاج کی کوشش کریں کیونکہ مستقبل کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے اور دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس میں خیر کا پہلو کوئی نہ ہو ، [وَعَاشِرُوهُنَّ بِالمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا(19) ]. {النساء}. ” گو تم انہیں ناپسند کرو کیونکہ بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالی اس میں بہت ہی بھلائی کرے ” ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے بغض نہ رکھے ، اگر اس کی کسی عادت کو ناپسند کرتا ہے تو کسی عادت کو پسند بھی کرنا ہوگا ۔
{ صحیح مسلم }
لیکن کبھی کبھار ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ نباہ اس قدر مشکل ترین کام بن جاتا ہے کہ جدائی کے بغیر چارہ نہیں ہوتا ، اسی ضرورت کے پیش نظر اسلام نے طلاق و خلع وغیرہ کا نظام رکھا ہے ، یعنی اگر یہ ناپسندیدگی شوہر کی طرف سے ہو اور جدائی کا حاجت مند شوہر ہو تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے اور اگر یہ حاجت عورت کو پیش آئے جب کہ شوہر اسے رکھنا چاہتا ہے تو وہ اپنے شوہر سے خلع لے سکتی ہے ، یعنی اگر بیوی کسی وجہ سے اپنے شوہر کو نا پسند کرتی ہے تو وہ مال کے عوض اس سے اپنا پیچھا چھڑا سکتی ہے ،
جیسا کہ زیر بحث حدیث میں مذکور ہے کہ ایک صحابیہ جن کا نام شاید جمیلہ بنت ابی بن سلول تھا ، وہ ایک مشہور اور صاحب فضیلت صحابی حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہما کے عقد میں تھیں ، لیکن دونوں میں فطری توافق نہ تھا ، ایک تو دونوں کی عمر میں قدرے فرق تھا اور دوسرے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ شکل و صورت میں بھی اور مردوں کے مقابل میں کم تھے یہ اور اسی طرح کے بعض دیگر فطری اسباب کی وجہ سے حضرت جمیلہ جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ جوان بھی تھیں انہیں حضرت ثابت کی معاشرت پسند نہیں تھی ، لیکن چونکہ دل میں ایمان تھا ،نفاق نہ تھا ، اللہ تعالی کا خوف تھا کہ آزاد خیالی نہ تھی لہذا وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر حضرت ثابت سے چھٹکارے کی درخواست کرتی ہیں ، اور عرض کرتی ہیں کہ میں حضرت ثابت کے اخلاق اور دین میں کوئی کمی محسوس نہیں کرتی اور نہ ہی مجھے اس سلسلے میں شکایت ہے ، البتہ چونکہ میرا دل ان سے نہیں ملتا اور میں انہیں محبت کا تحفہ نہیں دے سکتی لہذا مجھے خوف ہے کہ میں ان کی کما حقہ اطاعت نہ کرسکوں گی اور نہ ہی ایک وفا شعار بیوی کا رول ادا کرسکوں گی ، نتیجۃ کفران نعمت کرکے اسلام کے مخالف فعل کی مرتکب ہوں گی ، اس لئے مجھے ان سے چھٹکارا دلوادیجئے ، پھر جب رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ محسوس کیا کہ حضرت جمیلہ صاف گو اور اپنے قول میں مخلص ہیں اور اپنے اسلام کی حفاظت چاہتی ہیں تو آپ نے ان کے شوہر حضرت ثابت سے فرمایا کہ بطور مہر کے جو باغ تم نے اپنی بیوی کو دیا تھا اسے واپس لے کر اس کا راستہ چھوڑ دو ، یہی چیز شریعت اسلام میں خلع کہلاتی ہے اور ایسی عورت کو جو اپنے شوہر سے چھٹکارا لینا چاہتی ہے اسلام اسے اس کی اجازت دیتا ہے، البتہ اس سلسلے میں چند امور کا لحاظ ضروری ہے ۔
[۱] خلع وقت حاجت اور معقول ضرورت کے تحت مشروع ہوگا ورنہ نفاق شمار کیا جائے گا ، ارشاد نبوی ہے {بلا ضرورت } اپنے شوہروں سے چھٹکارا لینے اور خلع کرانے والی عورتیں ہی منافق ہیں ۔
{ سنن النسائی ، مسند احمد } ۔
[۲] خلع کے لئے وقت و عدد کی وہ شرطیں نہیں ہیں جو طلاق کے لئے ہیں ، یعنی خلع حالت حیض میں ہوسکتا ہے اور ایک سے زائد بار بھی ہو سکتا ہے ۔
[۳] خلع کے بعد عورت پر عدت صرف ایک حیض ہوگی اور اس میں شوہر کو رجوع کا حق نہ ہوگا بلکہ بصورت اتفاق عقد جدید ضروری ہے ۔
[۴] خلع میں بہتر تو یہ ہے کہ شوہر مہر سے زیادہ واپس نہ لے البتہ جائز ہے اور سب سے بہتر یہ ہے کہ شوہر بلا کسی معاوضہ کے چھوڑ دے ۔
[۵] شوہر اگر طلاق دینا چاہتا ہے تو اس کے لئے یہ جائز نہ ہوگا کہ عورت کو تنگ کرے کہ وہ خلع لینے پر مجبور ہو ، تاکہ مہر وغیرہ معاف کرائے ۔
[6]خلع کے لئے ضروری ہے کہ یہ معاملہ میاں بیوی کی موافقت سے ہو ، کسی فریق کو مجبور نہ کیا جائے ۔
ختم شدہ