عدت کے احکام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :170
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ الْأَنْصَارِيَّةِ ، ” أَنَّهَا طُلِّقَتْ في عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَكُنْ لِلْمُطَلَّقَةِ عِدَّةٌ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حِينَ طُلِّقَتْ أَسْمَاءُ بِالْعِدَّةِ لِلطَّلَاقِ ، فَكَانَتْ أَوَّلَ مَنْ أُنْزِلَتْ فِيهَا الْعِدَّةُ لِلْمُطَلَّقَاتِ ” .
( سنن ابو داؤد :2281، الطلاق – سنن البيهقي :7/414 )
ترجمہ : حضرت اسماء بنت یزید بن السکن رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں انہیں طلاق ہوگئی تھی ، اس وقت تک مطلقہ عورت کے لئے کوئی عدت نہیں تھی ، جب انہیں طلاق دی گئی تو اللہ تعالی نے [قرآن مجید میں ] طلاق کے لئے عدت کا حکم نازل فرمایا ، اس طرح وہ پہلی خاتون ہیں جن کے بارے میں عدت کا حکم نازل ہوا ۔
{ سنن ابو داود ، سنن بیہقی }
تشریح : اسلام میں نکاح کو ایک مقدس رشتہ قرار دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ میاں بیوی اس رشتہ کا پاس و لحاظ رکھیں اور حتی الامکان اسے توڑنے کی کوشش نہ کریں ، لیکن کبھی کبھار ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ جدائی ناگزیر ہوجاتی ہے ، اس جدائی کے بعد اسلام نے بیوی کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ کسی اور کی زوجیت میں منسلک ہونے سے قبل یا کسی اور کی زوجیت کے لائق ہونے سے قبل چند دن گزارے اور انتظار میں بیٹھی رہے ، اسی مدت کو شریعت کی اصطلاح میں عدت کہا جاتا ہے ، عدت زمانہ جاہلیت میں تھی اور دیگر قوموں میں بھی پائی جاتی ہے ، لیکن اسلام نے اسے ایک ایسی منظم شکل دی جس میں نہ عورتوں پر ظلم ہو اور نہ ہی شوہر کا حق مارا جائے ۔ ۔۔
زیر بحث حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں عدت کو قانونی شکل اس وقت دی گئی جب ابتدائے اسلام میں مشہور صحابیہ جن کا لقب وافدۃ النساء الی رسول اللہ [ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عورتوں کی نمائندہ ] تھا کو طلاق ہوئی اسی وقت اللہ تعالی نے درج ذیل آیت نازل فرما کر عدت کو قانونی شکل دے دی : [وَالمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ(228) ]. {البقرة}. “اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ تین حیض کی مدت اپنے آپ کو روکے رکھیں ” ۔۔۔قرآن میں اس کے علاوہ متعدد جگہ طلاق شدہ عورتوں کی عدت کے مسائل مذکور ہیں جس کی تفصیل اختصار کے ساتھ یہ ہے : —
[۱] حیض والی عورت : جس عورت کو حیض آتا ہو اور وہ حاملہ نہیں ہے تو اس کی عدت تین حیض ہے جیسا کہ مذکورہ آیت سے واضح ہوتا ہے ، نیز حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ کو طلاق کے بعد عدت کے تین حیض گزارنے کا حکم دیا
{ سنن ابن ماجہ } ۔
یہ تین حیض خواہ تین مہینہ میں آئیں یا اس سے کم اور زیادہ مدت میں ، اعتبار حیض کا ہوگا ۔
[۲] ایسی عورت جسے حیض نہ آتا ہو : وہ عورتیں جو اپنی عمر کے اس مرحلے کو پہنچ چکی ہو ں جن کو حیض نہیں آتا ، یا کسی بیماری کی وجہ سے ان کا حیض رک گیا ہے اور اب حیض آنے کی امید کم سے کم تر ہے ، یا وہ عورتیں جن کی شادی اور رخصتی حیض آنے سے پہلے ہوگئی ہے ایسی تمام عورتوں کو اگر طلاق ہوجائے تو ان کی عدت تین ماہ ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : [وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ المَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ (4) ]. {الطَّلاق}.
” اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے نا امید ہو گئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو ” ۔
[۳] حاملہ عورت کی عدت : وہ عورت جسے حمل میں طلاق دی گئی ، یا طلاق دیتے وقت حمل معلوم نہ تھا اور ایام عدت میں اس کا حاملہ ہونا ظاہر ہوگیا تو اس عورت کی عدت وضع حمل ہے خواہ یہ مدت لمبی ہو یا مختصر ، یعنی جب زچگی ہوجائے گی تو وہ عورت اپنی عدت سے خارج ہوجائے گی خواہ طلاق کے ایک ہی دن بعد زچگی ہو ، ارشاد باری تعالی ہے : [وَأُولَاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (4) ]. {الطَّلاق}. ” اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل ہے ” ۔
[۴] جس عورت کی رخصتی نہ ہوئی : وہ عورت جس کا نکاح تو ہوگیا ہو البتہ میاں بیوی آپس میں ملے نہ ہوں اور طلاق ہوجائے تو ایسے عورت پر کوئی عدت نہیں ہے ،ارشاد باری تعالی ہے : [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ المُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا (49) ]. {الأحزاب}. ” اے مومنو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت نہیں جسے تم شمار کرو ” ۔
[۵] خلع لینے والی عورت کی عدت : جس عورت کو طلاق نہ ہوئی ہو بلکہ اس نے خلع لی ہو تو اس کی عدت ایک حیض ہے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نے خلع لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک حیض رکھی ۔ { ابو داود } ۔
[۶]وہ عورت جس کا شوہر انتقال کرجائے : تو ایسی تمام عورتوں کی عدت چار ماہ دس دن ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں { البقرہ :234 } ۔ البتہ حاملہ عورت کی عدت ہر حال میں وضع حمل ہی ہے ۔
ضروری نوٹ :
۱—جو عورت طلاق رجعی کی عدت گزار رہی ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر ہی میں رہے نہ تو اس کے لئے وہاں سے جانا جائز ہے اور نہ ہی شوہر کو اسے اپنے گھر سے نکالنا جائز ہے ، بلکہ جب اسے طلاق دی گئی وہ اپنے شوہر کے گھر میں نہیں تھی تو ضروری ہے کہ وہ شوہر کے گھر واپس آئے اور وہیں عدت کے دن گزارے ، اسی طرح شوہر پر ان کا نان و نفقہ بھی ضروری ہے ۔۔۔۔ { الطلاق : 1 }
۲—جو عورت حمل سے ہو اور اسے طلاق بائن یا تیسری اور آخری طلاق دی جائے تو شوہر پر اس کا نان و نفقہ تو ضروری ہے ، البتہ رہائش کے لئے وہ شوہر کے گھر کی پابند نہیں ہے ۔ ۔۔
۳—باری تعالی حکیم و علیم ہے اور اس کا ہر حکم و فیصلہ حکمتوں پر مبنی ہوتا ہے ، پھر چونکہ اس نے مطلقہ عورت پر عدت کو لازم قرار دیا ہے لہذا اس میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :——
[الف ] رشتہ نکاح کی عظمت و تقدس کا اظہار ہے کہ نکاح کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ عورت جب چاہے طلاق لے لے اور جب چاہے نکاح کرلے ۔
[ب] طلاق رجعی کی صورت میں عدت کی بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ عدت کی اس مدت میں مرد کے لئے امکان ہوگا کہ وہ معاملہ پر اچھی طرح غور کرلے ، اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچ کر اگر رجوع کرنا چاہے تو رجوع کرلے ، اسی لئے مطلقہ رجعیہ کےلئے ضروری ہے کہ اپنے شوہر کے یہاں عدت گزارے اور اس کے لئے زینت بھی اختیار کرے ۔
[ ج ] عدت کے اس قانون کی وجہ سے اس عورت سے آئندہ پیدا ہونے والے بچہ کے نسب میں کسی کو شبہ نہ ہوگا ، اور اسی طرح نسب کی حفاظت رہے گی ۔
ختم شدہ