حلالہ کا حکم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :172
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالتَّيْسِ الْمُسْتَعَارِ ” ، قَالُوا : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : ” هُوَ الْمُحَلِّلُ ، لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ ” .
( سنن ابن ماجه : 1936، النكاح – سنن الدار قطني : 3618 ، النكاح – مستدرك الحاكم :2/199 )
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تمہیں میں منگنی کا سانڈ نہ بتلاؤں ؟ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ضرور بتلائیے : آپ نے فرمایا : حلالہ کرنے والا [ پھر آپ نے مزید فرمایا ] اللہ تعالی کی لعنت ہو حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے پر ۔
{ سنن ابن ماجہ ، سنن دار قطنی ، مستدرک الحاکم } ۔
تشریح : جس طلاق کے بعد بیوی اپنے شوہر سے جدا ہوجاتی ہے ، دونوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن جاتے ہیں اور ان کے درمیان میاں بیوی کے تعلقات ، خلوت اور وہ سارے کام حرام ہوجاتے ہیں جو نکاح سے مرد و عورت کے درمیان جائز و مشروع ہوتے ہیں ، اسی طلاق کو طلاق بائن کہا جاتا ہے ، بان کے معنی جدا ہونا اور کٹ جانے کے ہیں اور چونکہ اس طلاق سے عقد نکاح ٹوٹ جاتا ہے لہذا اسے طلاق بائن کہا جاتا ہے اب نئے سرے سے اس رشتہ کے جوڑنے کی ضرورت ہوتی ہے ، شریعت اسلامیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں اس کی بھی اجازت ہے، لیکن اس کے لئے کچھ اصول و ضوابط ہیں جن کا پاس و لحاظ ضروری ہے ۔
[الف ] مرد و عورت دوبارہ اس نکاح پر راضی ہوں ، نئی مہر متعین کی جائے اور نئے سرے سے عقد نکاح ہو ، پچھلے نکاح میں دی گئی مہر کافی نہ ہوگی ۔
[ ب ] اگر شوہر نے ایک طلاق دی تھی تو اب باقی ازدواجی زندگی میں اسے صرف دو طلاق دینے کا اختیار باقی رہے گا اور اگر دو طلاقیں دی تھیں تو صرف ایک طلاق کا حق باقی رہے گا ۔
[ج] اگر عورت اپنے پرانے شوہر کے پاس وا پس جانے میں رغبت رکھتی ہے یا شوہر اس کے بارے میں رغبت رکھتا ہے تو یہی بہتر ہے ، اہل خانہ کو روک لگانے کا قطعا کوئی حق نہیں ہے ، حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری بہن جمیلہ کو اس کے شوہر عاصم بن عدی رضی اللہ عنہما نے طلاق رجعی دی مگر وہ رجوع نہ کیا یہاں تک کہ عدت گزر گئی ، عدت گزر جانے کے بعد وہ دوبارہ نکاح کے لئے مجھے پیغام بھیجا ، میں نے غیرت و غصہ کی وجہ سے ان کے پیغام کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو چھوڑ کر اپنی بہن کو تمہارے عقد میں دیا تھا اور تمہارے حوالے کردیا تھا ، لیکن تم نے اسے طلاق دے دیا ، اب تم دوبارہ اس سے شادی کرنا چاہتے ہو ، اللہ کی قسم میں ایسا نہیں ہونے دوں گا ، حالانکہ وہ ایک مناسب آدمی تھے اور لڑکی بھی ان کے یہاں واپس جانا چاہتی تھی ، اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی : [وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالمَعْرُوفِ] {البقرة:232} ” اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ معروف طریقے سے نکاح کرنے پر راضی ہوں ” ۔ ۔۔۔۔
۲- اگر شوہر نے وہ طلاق دی تھی جسے بینونہ کبری کہتے ہیں یعنی آخری تیسری طلاق بھی دے دی تھی تو یہ عورت پہلے شوہر کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ یہ عورت کسی دوسرے مرد سے برغبت نکاح نہ کرلے پھر وہ مرد از خود اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ مرد فوت ہوجائے تو پھر عدت گزارنے کے بعد یہ عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : [فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ] {البقرة:230} ۔۔۔ اس دوسرے نکاح کے لئے علماء نے تین اہم شرطیں رکھی ہیں :
[۱] دوسرے شوہر سے جو نکاح ہو رہا ہے وہ از روئے شرع صحیح بھی ہو مثلا پہلے شوہر کی عدت پوری ہونے کے بعد دوسرا نکاح کرے ، ایسا نہ ہوکہ اس دوسری بیوی کی بہن و پھوپھی وغیرہ دوسرے شوہر کے عقد میں ہوں ، نکاح شغار وغیرہ نہ ہو ، وغیرہ وغیرہ ۔
[۲] دوسرا نکاح گھر بسانے اور ازدواجی زندگی بسر کرنے کی نیت سے کیا جائے حلالہ کی نیت نہ ہو ۔ ۔۔۔۔۔۔
ان دونوں شرطوں کی دلیل زیر بحث حدیث ہے جس میں حلالہ کی نیت سے نکاح کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دیا گیا ہے جس سے اس برے کام کی شناعت واضح ہوتی ہے ، نیز صحابہ کرام کا متفقہ فتوی ہے کہ حلالہ کی نیت سےکیا گیا نکاح صحیح نہ ہوگا اور نہ ہی اس نکاح سے عورت اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی ، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کرانے والے کو لایا گیا تو میں انہیں رجم کردوں گا [ یعنی زنا کی حد قائم کردوں گا ]
[ مصنف عبد الرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ ]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک شخص سوال کرتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے ڈالیں ، پھر اس کا ایک بھائی اس کی بیوی سے اس نیت سے نکاح کرتا ہے کہ پہلے شوہر کے لئے وہ حلال ہوجائے حالانکہ پہلے شوہر سے کوئی معاملہ طے نہیں ہوا تو کیا اس طرح عورت اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی ؟ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نےجواب دیا کہ : نہیں الا یہ کہ وہ شخص اسے بیوی رکھنے کی رغبت سے شادی کرے ، اس عمل کو تو ہم عہد نبوی میں زنا کہتے ہیں
{ الحاکم ، البیہقی ، الطبرانی الاوسط }
[۳] دوسرے شوہر سے صرف نکاح و خلوت کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ دوسرا شوہر اس عورت سے نکاح کے صحیح کے بعد میاں بیوی کا تعلق قائم کرے ، چنانچہ عہد نبوی میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو تینطلاقیں دے دی ، پھر اس عورت نے دوسرے ایک مرد سے شادی کرلی اور اس نے بھی اسے چھوڑ دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عورت اب اپنے شوہر کے لئے حلال ہوگئی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں ، جب تک کہ یہ دوسرا شوہر اس کا مزہ نہ چکھ لے جیسا کہ پہلے شوہر نے چکھا تھا ۔
{ صحیح البخاری : 5261 } ۔
فوائد :
۱- طلاق بائن کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو تجدید نکاح ضروری ہے ۔
۲- تین طلاق کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شوہر سے برضا و رغبت شادی نہ کرلے پہلے شوہر کے لئے حلال نہ ہوگی ۔
۳- حلالہ کی نیت سے کیا گیا نکاح نہ منعقد ہوگا اور نہ ہی اس سے عورت اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی ۔
۴- حلالہ کرنا کرانا گناہ کبیرہ اور ایک غیر اخلاقی بلکہ غیر انسانی فعل ہے جسے کوئی باغیرت انسان قبول نہیں کرتا ۔
ختم شدہ