حديث:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا ، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا ، وَصَلُّوا عَلَيَّ ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ ” .
( سنن أبوداود: 2042 ، المناسك – مسند أحمد :2/367 – الطبراني الأوسط :8026 ، 9/16 )
ترجمہ :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان مت بناو اور میری قبر کو عیدگاہ [ میلہ گاہ ] مت بناو ، اور میرے اوپر درود پڑھو ، اس لئے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے ۔
{ سنن ابو داود ، مسند احمد ، الطبرانی الاوسط}۔
تشریح :
زمانہ جاہلیت میں لوگ بغرض تبرک ایسے مقامات کا قصد کرتے تھے جو ان کے گمان کے مطابق مبارک ہوتے ، وہ مقام کبھی کسی بزرگ کی قبر ہوتی کبھی کسی بندہٴ الہی کی عبادت گاہ ہوتی اور کبھی وہ صرف ایک موہوم سی چیز ہوتی تھی ، چونکہ اس سے غیر اللہ کی عبادت کا دروازہ کھلتا تھا اور لوگوں کے شرک میں مبتلا ہونے کا شدید امکان ہوتا تھا لہذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ، ارشاد نبوی ہے : لوگو ! کان کھول کر سن لو ، تم سے پہلی امتوں نے اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا تھا ، میں تم کو اس سے روکتا ہوں { صحیح مسلم }
نیز فرمایا : اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا تھا { صحیح بخاری ، صحیح مسلم } ۔
اس فرمان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد امت کے سامنے گور پرستی اور قبرپرستی کا دروازہ بند کرنا تھا ، تاکہ امت مسلمہ یہود و نصاری کی طرح اپنے نبی اور بزرگوں کی قبروں کو مسجد ، سجدہ گا ہ اور عبادت و تبرک کی جگہ نہ بنالے ، یہی وجہ ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس امت کے افضل ترین دو ولیوں کی قبر کو ایک بند کمرے میں بنایا گیا اور عام مسلمانوں کی قبروں کی طرح انہیں کھلے میدان میں دفن نہ کیا گیا ، چنانچہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ آپ کی قبر کو بھی عبادت گاہ بنالیا جائےگا تو آپ کی قبر بھی کسی کھلے میدان میں ہوتی ۔ { صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔
قبروں کی عبادت گاہ بنانے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ جمعہ حج یا عید کی طرح سال ، ہفتہ یا مہینہ میں اس کا قصد کیا جائے ، اس پر اجتماع کیا جائے ، ثواب و اجر اور مراد براری کی نیت سے اس کا سفر کیا جائے ، اس کے لئے نذر مانی جائے ، نام نہاد ولیوں اور بعض موہوم بزرگوں کی قبروں کے ساتھ جن کا نام مزار رکھ لیا گیا ہے کیا جاتا ہے ، یہ سب وہی جاہلانہ بدعتیں ہیں جو زمانہ جاہلیت میں پائی جاتی تھیں اور دیگر بت پرست و توہم پرست قوموں کا شعار رہا ہے ، حالانکہ اسلام میں قبر کا تصور مسجد کے تصور سے بالکل مختلف چیز ہے ، مسجد عبادت الہی کی جگہ ہے ، ذکر وتلاوت قرآن کا مقام ہے ، مسجدوں کو صاف ستھرا رکھنے اور اس میں خوشبو و روشنی کے اہتمام کا حکم دیا گیا ہے ، ان کی حفاظت و تعمیر کی تاکید کی گئی ہے جب کہ قبرستان میں نماز پڑھنے وہاں ذکر و تلاوت کرنے ، وہاں عمارت تعمیر کرنے ، اس پر کچھ لکھنے اور چراغاں کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں انبیاء کی عبادت گاہوں اور مسجدوں کا ذکر تو ملتا ہے اور ان میں سے بعض کی جگہیں محفوظ بھی ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی نبی اور آپ سے پہلے کسی ولی کی قبر سے متعلق کوئی صحیح معلومات نہیں ہے کیونکہ کسی بھی دین سماوی میں قبروں کی تعظیم کا حکم نہ تھا ۔
زیر بحث حدیث میں بھی یہی چیز مذکور ہے ،
چنانچہ اولا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اپنے گھروں کو قبرستان مت بناو کہ جس طرح قبرستان نہ نماز پڑھنے کی جگہ ہے نہ وہاں تلاوت قرآن کا اہتمام ہوتا ہے اور نہ ہی قبروں میں مدفون لوگ اللہ تعالی کی عبادت و ذکر کرتے ہیں تم لوگ اپنے گھروں کو ایسا نہ بناو اور نہ ہی تم مردوں کی طرح ہوجاو کہ گھر میں نماز کا اہتمام ہو اور نہ ہی ذکر و تلاوت کی جائے بلکہ اپنے گھروں کو نفلی نمازوں اور ذکر و تلاوت سے آباد رکھو ، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر اور قبرستان کے فرق کو واضح کیا کہ قبر یا قبرستان عبادت و سجدہ اور تلاوت قرآن کی جگہ نہیں ہے جب کہ گھر میں یہ چیزیں ضروری ہیں تاکہ اللہ تعالی کی برکت سے گھر آباد رہے اور شیطان کے شر سے محفوظ بھی رہے ایک حدیث میں ہے : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناو { بلکہ اس میں نماز پڑھا کرو ، قرآن مجید کی تلاوت کیا کرو } کیونکہ جس گھر میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔ { صحیح مسلم }۔
ثانیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری قبر کو میلہ گاہ یا عیدگاہ نہ بنالو ، یعنی جس طرح عید کے لئے لوگ اکٹھا ہوکر جاتے ہیں ، سال میں ایک دوبار عید مناتے ہیں ، وہاں جمع ہوکر کھیل تماشا اور شور شرابا کرتے ہیں ، دیر تک وہاں جمع رہتے ہیں ، میری قبر کو ان خرافات سے پاک رکھو ، اور یاد رکھو کہ میری قبر پر آنے کا سب سے اہم مقصد مجھ پر سلام پڑھنا یا میرے اوپر درود بھیجنا ہے ، لیکن اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ تم لوگ میری قبر ہی پر آکر میرے اوپر درود و سلام بھیجو بلکہ اس کے لئے اللہ تعالی نے یہ آسانی رکھی ہے کہ تم جہاں کہیں سے بھی میرے اوپر درود و سلام بھیجو گے اللہ تعالی کے فرشتے مجھ تک تمہارا درود پہنچادیں گے ۔ لہذا اس کے لئے سفر کی مشقت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ، حدیث کا یہی صحیح مفہوم ہے جو اہل بیت اور دیگر علماء نے سمجھا ہے چنانچہ حضرت علی بن حسین زین العابدین رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے قریب کھڑے ہوکر کے دیوار کے شگاف میں اپنا منہ ڈال کر دعا کررہا ہے تو اسے بلایا اور کہا : کیا میں تمہیں ایک ایسی حدیث نہ سناوں جسے میں نے اپنے والد { حسین بن علی رضی اللہ عنہما } سے سنا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے نانا { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم } کو فرماتے سنا کہ میری قبر کو میلہ گاہ نہ بناو اور جہاں کہیں بھی ہو وہیں سے میرے اوپر درود بھیجو ، تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے ۔
{ مصنف ابن شیبہ وغیرہ } ۔
اس حدیث کی روشنی میں علماء کہتے ہیں کہ بزرگوں کی قبروں پر جو یومیہ ، ہفتہ واری اور ماہانہ اجتماع ہوتے ہیں یا سال میں جمع ہوکر ان کی یوم پیدائش یا ان کا عرس مناتے ہیں ، وہاں قسم قسم کے کھانوں کا انتظام کیا جاتا ہے اور رقص و سرور کی مجلس منعقد کی جاتی ہے سب بدعت اور شرعا منع ہے { فتح القدیر للمناوی }
فوائد :
۱- قبرستان نماز اورتلاوت قرآن کی جگہ نہیں ہے ۔
۲- بزرگوں کا یوم عرس منانا بدعت اور غیر قوموں کی مشابہت ہے ۔
۳- نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے سفر کی مشقت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
۴- اللہ تعالی نے کچھ فرشتوں کو خاص کر رکھا ہے جو امتیوں کا سلام و درود نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ہیں ۔
ختم شدہ