واقعہٴ معراج اور امت کیلئے نذارت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :175
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَمَّا عُرِجَ بِي مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ يَخْمُشُونَ وُجُوهَهُمْ وَصُدُورَهُمْ فَقُلْتُ : مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ وَيَقَعُونَ فِي أَعْرَاضِهِمْ ” .
( سنن ابوداؤد : 4878 ، الأدب – مسند أحمد :3/224 )
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھےوہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ، تو میں نے سوال کیا : اے جبریل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے جواب دیا : یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں [غیبت کرتے ہیں ] اور ان کی عزت پامال کرتے ہیں ۔
{ سنن ابو داود ، مسند احمد }
تشریح : سفر معراج میں اللہ تبارک وتعالی نے اپنے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سی عجائب قدرت کا مشاہدہ کرایا ، کچھ تحفوں اور ہدیوں سے نوازا اور آپ کی امت کو شرف بخشا ، اس عجیب سفر میں امت مسلمہ کو بہت سی بشارتوں سے نوازا اور اسی کے مقابل بہت سے نذارتوں سے خبردار کیا ، انہیں نذارتوں میں ایک کا ذکر اس حدیث میں ہے کہ
[۱] دنیا میں غیبت کرنے والوں اور لوگوں کے سامنے کسی مسلمان کی برائی کرکے اس کے وقار کو مجروح کرنے والوں کو ایک ایسی شکل میں دکھایا جس سے ہر ذی شعور انسان نفرت کرتا ہے ، یعنی خود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے کو زخمی کررہا ہے ، جس کا واضح مفہوم ہے کہ کسی مسلمان کی غیبت کرنا اور اس کے وقار و ساکھ کو پامال کرنا گویا خود اپنا وقار کھونا ہے ، کیونکہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور کسیبھائی کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لئے ضرر رساں بنے ، یہی وجہ ہے کہ غیبت کو قرآن مجید میں اپنے فوت شدہ مسلمان بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے اس عمل کی قباحت اور اللہ تعالی کے نزدیک ایک مسلمان کے اکرام کا پتا چلتا ہے ۔
اس کے علاوہ دیگر بہت سی حدیثوں میں معراج میں پیش کی جانے والی دیگر نذارتوں کا ذکر ہے ، مثلا :
[۲] حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا : شب معراج میں جب میرا گزر ملاٴ اعلی میں ہوا تو وہاں میں نے دیکھا کہ اللہ تعالی کے خوف سےحضرت جبریل کی کیفیت ایسی تھی گویا کوئی بوسیدہ ٹاٹ ہو ۔ { الطبرانی الاوسط ، السنۃ لابن ابی عاصم } ۔
پھر جب حضرت جبریل کی کیفیت یہ ہے تو عام مسلمانوں کی کیفیت کیا ہونی چاہئے ۔
[۳] جہنم کا ڈر : اس عجیب سفر میں اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت و جہنم کا بھی مشاہدہ کرایا ، جہنم سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ اس قدر دہک رہی تھی کہ اگر اس میں لوہا و پتھر بھی ڈالا جاتا تو اسے چٹ کرجاتی
{ فتح الباری بروایت ابو سعید } ۔
نیز آپ نے فرمایا کہ : اے جبریل ! میرا گزر جس آسمان پر بھی ہوا وہاں کے فرشتوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور مجھے دیکھ کر ہنسنے لگے سوائے ایک فرشتے کے کہ جب میں نے اسے سلام کیا تو اس نے میرے سلام کا جواب تو دیا اور مجھے خوش آمدید بھی کہا لیکن مجھے دیکھ کر مسکرایا نہیں ، حضرت جبریل نے جواب دیا : یہ مالک ، جہنم کا داروغہ ہے ، جب سے اللہ تعالی نے جہنم کو پیدا کیا ہے تب سے یہ ہنسے نہیں ہیں ، اگر کسی کو دیکھ کر ہنستے تو وہ آپ تھے ۔
{ فتح الباری :7/217 ، بروایت ابن مسعود } ۔
قابل غور ہے کہ ہم گنہگار اور اپنے اوپر ظلم کرنے والے لوگ تو جہنم سے ڈرنے کے زیادہ محتاج ہیں ۔
[۴] نماز کا تارک : ارشاد نبوی ہے : پھر حضرت جبریل مجھے لے کر کچھ ایسے لوگوں پر سے گزرے جن کے سروں کو بڑی چٹانوں سے پھوڑا جارہا تھا ، جب اسے ایک بار کچل دیا جاتا تو دوسرے لمحہ کھوپڑیاں اپنی اصلی حالت پر آجاتیں ، حضرت جبریل نے کہا : یہ وہ لوگ ہیں جو نماز سے غافل رہتے اور ان کے سر نماز کے لئے بوجھ محسوس کرتے ۔
{ فتح الباری :7/200 ، بروایت ابو ہریرہ } ۔
[۵] قول و عمل میں تضاد : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : شب معراج میں میرا گزر ایسے لوگوں پر سے ہوا جن کے جبڑوں کو آگ کی قینچیوں سے پھاڑا جارہا تھا ، میں نے سوال کیا : جبریل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت جبریل نے جواب دیا : یہ آپ کی امت کے واعظین حضرات ہیں جو لوگوں کو تو بھلائی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے ۔
{مسند ابو یعلی ، صحیح ابن حبان بروایت انس }۔
[۶] لا یعنی باتیں کرنے والا : اسی شب کو حضرت جبریل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ایسے سوراخ کے پاس سے گزرے جس سے ایک موٹا بیل باہر آیا ، پھر وہ اسی سوراخ میں واپس جانے کی ناکام کوشش کرتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبریل یہ کیا ہے ! جبریل نے جواب دیا : یہ وہ آدمی ہے جو ایک بڑی بات کر جاتا ہے ، پھر اس پر شرمندہ ہوتا ہے اور اس بات سے رجوع کی طاقت نہیں رکھتا ۔
{ الطبرانی البزار ، مجمع الزوائد :1/68 ، الفتح :7/200 } ۔
فوائد :
۱- غیبت کی قباحت کہ عالم برزخ میں بھی عذاب کا سبب ہے ۔
۲- کسی کمزور اور غریب مسلمان کی تحقیر بہت بڑا گناہ ہے ۔
۳- کسی مسلمان پر ظلم گویا خود اپنے آپ پر ظلم ہے ۔
۴- لا یعنی [ بے کار ] باتوں سے پرہیز ۔
ختم شدہ