ہفتہ واری دروس

شراب سے ممانعت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :177

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

عن عبد الله ابن عَبَّاسٍ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : ” أَتَانِي جِبْرِيلُ ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ لَعَنَ الْخَمْرَ ، وَعَاصِرَهَا ، وَمُعْتَصِرَهَا ، وَشَارِبَهَا ، وَحَامِلَهَا ، وَالْمَحْمُولَةَ إِلَيْهِ ، وَبَائِعَهَا ، وَمُبْتَاعَهَا ، وَسَاقِيَهَا ، وَمُسْتَقِيَهَا “.

( مسند أحمد :1/317 – صحيح ابن حبان : 5332 ، الأشربة – الطبراني الكبير :12976 )

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا : یا محمد ! اللہ تعالی نے شراب پر لعنت بھیجی ہے ، اس کے نچوڑنے والے پر اور نچڑوانےوالے پر ، اس کے پینے والے پر ، اس کے لانے والے پر اور جس کے لئے لائی جائے اس پر ، اس کے بیچنے والے پر اور اس کے خریدنے والے پر ، اس کے پلانے والے پر اور اس کے پلانے کا مطالبہ کرنے والے پر ۔

{ مسند احمد ، صحیح ابن حبان ، طبرانی کبیر } ۔

تشریح : کھانے اور پینے کی چیزوں کے بارے میں شریعت نے ایک اصول دیا ہے کہ : [وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الخَبَائِثَ] {الأعراف:157} ” اور یہ رسول ان پر طیب اور پاک چیزوں کو حلال بتلائے اور گندی اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں ” ۔ یعنی ہر وہ چیز جو پاکیزہ خوشگوار اور نفع بخش ہے حلال اور برعکس اس کے جو چیز خبیت ، بدمزہ اور نقصان دہ ہے حرام ہے ۔

جن خبیث اور باعث ضرر چیزوں کو قرآن و حدیث میں حرام قرار دیا گیا ہے اس میں سے اہم چیز شراب بھی ہے ، جسے قرآن و حدیث میں خمر ، مسکر ، ام الخبائث اور بڑے گناہوں سے تعبیر کیا گیا ہے ، شراب کے خبیث و حرام ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے استعمال سے انسان کچھ ہی دیر کے لئے صحیح جوہر عقل و تفکر کی نعمت سے محروم ہوکر حیوانی صفات کا حامل بن جاتا ہے ، پھر اس حالت میں ایسی ایسی حرکتیں کرجاتا ہے جس کی توقع کسی انسان سے نہیں کی جاسکتی ہے ، زنا اور بسا اوقات محارم کے ساتھ ، قتل ، چوری اور اس قسم کے دیگر جرائم کے پیچھے بسا اوقات شراب ہی ہوتی ہے ، اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب اور منشیات سے متعلق بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائیں :

[۱] شرابی جب شراب پیتا ہوتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا {بخاری ومسلم وغیرہ }

[۲] شرابی جنت میں داخل نہ ہوگا ۔ {صحیح ابن حبان }۔

[۳]جو شخص دنیا میں شراب پینے کا عادی ہوگا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا ۔ { بخاری ومسلم } ۔

[۴] شراب پینے کا عادی شخص جب اللہ تعالی سے ملے گا تو اس کی وہ کیفیت یہ ہوگی کہ گویا اس نے بت کو پوجا ہے ۔ { مسند احمد و صحیح ابن حبان } ۔

[۵] شراب سے بچو اس کے لئے کہ شراب ہر برائی کی چیز ہے ، وغیرہ ، عہد صدیقی میں ایک بار حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما اور چند دیگر صحابہ ایک مجلس میں بیٹھے گفتگو کررہے تھے کہ کبیرہ گناہوں کا ذکر چھڑ گیا ، لیکن اس پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا تھا کہ [ شرک باللہ کے بعد ] سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ اور نہ ہی کسی کے پاس اس بارے میں کوئی صحیح علم تھا ، لہذا حضرت عبد اللہ عمر کو حضرت عبد اللہ بن عمرو کے پاس بھیجا گیا کہ شاید ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہو ۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ شراب نوشی ہے ، یہ خبر لے کر حضرت عبد اللہ بن عمر جب صحابہ کے پاس آئے تو لوگوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا پھر سبھی لوگ اٹھے اور جمع ہوکر حضرت عبد اللہ بن عمرو کے گھر تشریف لے گئے اور تفصیل چاہی تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کے کسی بادشاہ نے ایک شخص کو پکڑا اور اسے اختیار دیا کہ شراب پئے ، یا خون کرے ، یا زنا کرے ، یا سور کا گوشت کھائے یا پھر اگر نہیں مانتا تو اسے قتل کردیا جائے ، چنانچہ اس نے شراب پینا قبول کرلیا ، اور جب شراب پی لیا تو وہ سارے کام کر گیا جن سے وہ بچ رہا تھا یعنی زنا بھی کیا قتل بھی کیا وغیرہ وغیرہ ۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے مزید فرمایا کہ اس قصہ کو بیان کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص بھی شراب پیتا ہے چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اور اگر اس کا انتقال ہوجائے اس حال میں کہ مثانہ میں اس شراب کا کچھ بھی حصہ باقی ہے تو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور اگر چالیس دن کے اند مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی ۔ { مستدرک الحاکم ، الطبرانی } ۔

شراب و منشیات کی یہی قباحت ہے کہ نہ صرف اس کا پینے والا از روئے شرع مجرم ہے بلکہ اس پر کسی بھی قسم کا تعاون کرنے والا ، اللہ تعالی کی طرف سے لعنت کا مستحق ہے جیسا کہ زیر بحث حدیث سے واضح ہے کہ جو شخص شراب سے کچھ بھی تعلق رکھے ، بنانے والا ہو یا بنوانے والا ، پینے والا ہو یا پلانے والا آخر تک ان سب کے لئے رسول رحمت ، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا یہ ہے کہ وہ اللہ رحمان و رحیم کی رحمت سے محروم ہے بلکہ شرابی پر اللہ رحمان و رحیم کی ایسی ناراضگی ہے کہ اس کا عہد کہ ایسے شخص کو آخرت میں وہ جہنمیوں کے جسم میں پسینہ اور جلنے کی وجہ سے ان کے جسم کا لہو اور پیپ ضرور پلائے گا ۔{ صحیح مسلم } ۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو محفوظ رکھے ۔ { آمین } ۔

فوائد :

۱- شراب اور ہر وہ چیز جو نشہ لائے حرام اور اس کا استعمال کبیرہ گناہ ہے ۔

۲- جس طرح حرام کام کا مرتکب مجرم ہوتا ہے اسی طرح اس پر کسی بھی قسم کا تعاون بھی گناہ ہے ۔

۳- کسی کو بطور ہدیہ و تحفہ یا بطور مہمان نوازی کے شراب پیش کرنا بھی سخت گناہ ہے ۔

۴- حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی علمی صلاحیت اور کبار صحابہ کے نزدیک ان کی قدر و منزلت ۔

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى