عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ” تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ ، وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ ” .
( صحيح البخاري :6616 ، القدر – صحيح مسلم :2707 ، الذكر والدعاء )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اللہ تعالی کی پناہ مانگو بلاؤں کی سختی سے ، بدبختی کے لاحق ہونے سے ، بری قضاء وقدر سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے ۔
{ صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔
تشریح : اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے : [يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الفُقَرَاءُ إِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الغَنِيُّ الحَمِيدُ] {فاطر:155} ” اے لوگو ! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور وہ بے نیاز اور لائق حمد ہے ” ۔
انسان کوئی بھی ہو ، نیک ہو یا بد ، چھوٹا ہو یا بڑا ، غریب ہو یا امیر بلکہ نبی وولی ہی کیوں نہ ہو اس دنیا میں اللہ کے در کے سب ہی محتاج بلکہ اس کے سامنے مجبور محض ہیں ، اپنی صحت میں ، رزق میں اور اپنی زندگی کی بقا ،غرض ایک ایک چیز کے لئے اللہ کے محتاج ہیں ، غنی و بے نیاز ذات صرف اللہ تعالی کی ہے ، اس کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ اگر ساری دنیا کے لوگ اس کے نافرمان ہوجائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی اور اس کے برعکس اگر سب کے سب لوگ اس کے اطاعت گزار بن جائیں تو اس کی مملکت و قوت میں کوئی اضافہ نہ ہوگا ، اسی لئے اللہ تبارک وتعالی نے بندوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے تعلقات کو اسی سے جوڑے رکھیں ، امید اسی سے وابستہ رکھیں ، توکل و اعتماد اسی پر رہے ، کسی بھی دنیوی یا اخروی ، روحانی یا جسمانی ، انفرادی یا اجتماعی ضرورت کا سوال اسی سے کریں اس کے لئے اس نے بندوں پر دعا کا دروازہ کھولا ہے ان کی دعاؤں کی قبولیت کا وعدہ بھی کیا ہے اور دعا سے بے رغبتی یا کسی اور سے دعا کرنے کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے : [وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ] {غافر:600} ” اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو ، میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا ، یقین مانو کہ جو میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں [ مجھ سے دعا نہیں کرتے اور مجھے چھوڑ کر کسی اور کو پکارتے ہیں ] وہ قریب ہی ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے ” ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ تعالی سے دعا نہیں کرتا اس پر اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے ۔
{ سنن الترمذی ، ابن ماجہ بروایت ابو ہریرہ } ۔
دعا کا ایک پہلو تو یہ ہوتا ہے کہ بندہ ٴ محتاج اللہ تبارک وتعالی سے مثبت طور پر کسی حاجت و ضرورت کے لئے استدعا کرے ، عام طور پر اسے دعا مانگنا یا دعا کرنے کا نام دیا جاتا ہے ۔ دعا کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بندہ محتاج دنیا و آخرت کے کسی مشکل مرحلے ، کسی بلاء و آفت یا شر و مصیبت سے اللہ قادر و قدیر کی پناہ مانگے اور ان سے حفاظت و بچاؤ کی استدعا کرے ، اسے علماء نے استعاذہ کا نام دیا ہے ، ہم اپنی زبان میں اسے پناہ مانگنا ، پناہ طلب کرنا یا پناہ میں آنا کہہ سکتے ہیں ، لہذا جس طرح جن امور میں صرف اللہ تعالی کو قدرت حاصل ہے
انہیں صرف اللہ تعالی ہی سے مانگا جاسکتا ہے ، بعینہ اسی طرح جن شرور مصائب کے رفع کرنے کی قوت کسی اور کو حاصل نہیں ہے ان سے صرف اللہ تعالی ہی کی پناہ چاہی جاسکتی ہے ، یعنی استعاذہ صرف باری تعالی ہی سے کیا جاسکتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دعاؤں کا ایک بہت بڑا حصہ استعاذہ سے تعلق رکھتا ہے ، بلکہ یہ کہنا برحق ہوگا کہ دنیا و آخرت کی کوئی خیر و بھلائی اور کوئی حاجت و ضرورت ایسی نہیں ہے جس کی دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے نہ کی ہو اور امت کو تلقین نہ فرمائی ہو ، اسی طرح یہ کہنا بھی بالکل صحیح ہے کہ دنیا و آخرت کا کوئی شر ، کوئی فساد ، کوئی فتنہ اور کوئی بلا اور آفت اس عالم وجود میں ایسی نہیں ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی پناہ نہ مانگی ہو اور امت کو اس کی تلقین نہ فرمائی ہو ۔
زیربحث حدیث میں بھی بظاہر تو چار چیزوں سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے [ بعض روایتوں میں وارد ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس استعاذہ کو پڑھتے تھے ] لیکن فی الحقیقت دنیا و آخرت کی کوئی برائی اور کوئی تکلیف اور مصیبت و پریشانی ایسی نہیں سوچی جاسکتی جو ان چار عنوانوں کے احاطہ سے باہر ہو ۔
[۱]جہد بلاء {بلا کی مشقت و سختی } : بلاء ہر اس حالت کا نام ہے جو انسان کے لئے باعث تکلیف اور موجب پریشانی ہو اور انسان کے لئے اس سے نپٹنا مشکل ہوجائے بلکہ اگر اسے موت و زندگی کا ختیار دیا جائے تو وہ موت کو قبول کرے خواہ وہ فقر و فاقہ کی شکل میں ہو ، بیماری و مصائب کی صورت میں ہو یا دینی و روحانی پریشانی کی شکل میں ، ایسی تمام صورت حال میں واقع ہونے سے پہلے بندہٴ عاجز اللہ قادر و قدیر کی پناہ طلب کررہا ہے ۔
[۲] درک الشقاء { بد بختی لاحق ہونا }: یہ بدبختی و شقاوت خواہ برے خاتمہ کے طور پر ہو یا دینی و دنیاوی امور، اسے ایسی مشقت و پریشانیوں میں ڈال دیں کہ وہ صبر نہ کرسکے یا اسے جہنم کے منازل و درجات میں جانا پڑے ۔
[۳] سوء قضاء { بری تقدیر } : اللہ تعالی کی بنائی ہوئی تقدیر اور اس کا فیصلہ برا نہیں ہوتا ، تاہم بعض فیصلوں سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے ، گویا انسانوں کے اعتبار سے اللہ کے فیصلوں پر حسن اور برائی کا پہلو آجانا ہے یعنی اسے اللہ تعالی مجھے اپنے ایسے فیصلوں سے محفوظ رکھ جن میں ہمارے لئے دینی ودنیوی نقصان کاکوئی پہلو ہو ۔
[۴] شماتت اعداء { دشمنوں کے خوش ہونے سے } : یعنی اے اللہ تعالی ہمیں ایسے المناک حادثات سے دو چار نہ فرمانا کہ جن سے ہمارے دشمن خوشی محسوس کریں ، کیوں کہ بسا اوقات دشمنوں کی طعنہ زنی اور شماتت بڑی روحانی تکلیف و اذیت کا باعث ہوتی ہے ، اس لئے اس سے خصوصیت کے ساتھ پناہ مانگنے کا حکم ہوا ۔
فوائد :
۱- استعاذہ [پناہ طلبی ] بھی دعا کی ایک قسم ہے جو صرف اللہ تعالی سے طلب کی جاسکتی ہے ۔
۲- بری تقدیر سے پناہ مانگنے کا معنی تقدیر پر اعتراض نہیں بلکہ اس پر صبر و احتساب کی توفیق طلبی ہے ۔
۳- حدیث میں مذکور ہ دعا کی اہمیت کہ اس میں دنیا و آخرت کی ہر مصیبت سے اللہ کی پناہ طلب کی گئی ہے ۔
دعا یہ ہے :
” اعوذ بِاللَّهِ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ ، وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ ” .
ختم شدہ