رمضان اور تین آمین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :179
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
عن مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ : صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ ، فَلَمَّا رَقِيَ عَتَبَةً ، قَالَ : ” آمِينَ ” ثُمَّ رَقِيَ عَتَبَةً أُخْرَى ، فقَالَ : ” آمِينَ ” ثُمَّ رَقِيَ عَتَبَةً ثَالِثَةً ، فقَالَ : ” آمِينَ ” ثُمَّ ، قَالَ : ” أَتَانِي جِبْرِيلُ ، فقَالَ : يَا مُحَمَّدُ ، مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ ، فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ ، قُلْتُ : آمِينَ ، قَالَ : وَمَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا ، فَدَخَلَ النَّارَ ، فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ ، قُلْتُ : آمِينَ ، فقَالَ : وَمَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ ، فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ ، قُلْ : آمِينَ ، فَقُلْتُ : آمِينَ ” .
( صحيح ابن حبان : 410 ، 1/ 420 – المعجم الطبراني الكبير :19/292 )
ترجمہ : حضرت مالک بن حویر ث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر تشریف لے گئے ، جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین ، پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین ، پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا :آمین ، پھر [ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ] فرمایا : میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائےاور کہنے لگے : اے محمد [صلی اللہ علیہ و سلم ] جو شخص رمضان کا مہینہ پالے اور اس کی مغفرت نہ ہوتو اللہ تعالی اسے رسوا کرے ، میں نے کہا : آمین [اے اللہ قبول فرما ] حضرت جبریل نے جب دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : جو اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پالے ، پھر [ان کی نافرمانی کرکے ] جہنم میں داخل ہوا تو اللہ تعالی اسے رسوا کرے ، میں نے کہا : آمین ، حضرت جبریل علیہ السلام نے [ جب تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو ] پھر فرمایا : اور وہ شخص جس کے پاس آپ کا نام لیا جائے پھر وہ آپ پر درود نہ بھیجے تو اللہ تعالی اسے رسوا کرے ، کہئے آمین ، میں نے کہا : آمین ۔
{ صحیح ابن حبان ، طبرانی کبیر } ۔
تشریح : رمضان المبارک کا مہینہ سال کے تمام مہینوں میں سب سے افضل اور رحمت الہی کے نزول کا بہترین موسم ہے ، اللہ تبارک وتعالی نے سب سے افضل و مبارک کتا ب کو سب سے افضل نبی پر نزول کے لئے اسی مہینہ کا انتخاب کیا ہے : [شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ القُرْآَنُ]{البقرة:1855} ” رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ” ۔ اس مبارک ماہ کی آمد پر جنت کے دروازے اہل ایمان کے لئے کھول دئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں ، اور شیطانوں اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ، یہ سب کچھ رمضان المبارک کے استقبال اور اہل رمضان پر خصوصی رحمتوں کی غرض سے ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ پورے رمضان ہر شب ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے کہ اے خیر کے طالب آگے بڑھ اس لئے کہ مغفرت الہی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور رحمت الہی کی بارش ہورہی ہے ، اور اے برائی کرنے والے رک جا ، اس خیر و برکت کے مہینے میں برائیاں کرنا اور اپنی پرانی روش پر جمے رہنا ایک مومن کے شایان شان نہیں ہے
{ دیکھئے سنن الترمذی ، سنن النسائی وغیرہ } ۔
اب واضح ہے کہ جو شخص اس مبارک ماہ کی برکتوں سے محروم رہ جائے ، رحمت الہی کی بارش میں نہ نہائے اور مغفرت الہی کے سایہ میں نہ آئے اس سے زیادہ محروم انسان اور کون ہوسکتا ہے ، چنانچہ ایک بار اس مبارک ماہ کی آمد پرمبارک بادی پیش کرتے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام سے فرمایا :
رمضان المبارک کا مہینہ آگیا ، یہ بڑا مبارک مہینہ ہے ، اس مہینہ کا روزہ تم لوگوں پر فرض کیاگیا ہے ، اس مبارک ماہ میں آسمان [جنت ] کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ، اس ماہ میں اللہ تعالی نے ایک ایسی رات رکھی ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے جو شخص اس رات کی خیر و برکات سےمحروم رہا وہ بڑا ہی بدنصیب ہے ۔
{ سنن النسائی ، مسند احمد بروایت ابو ہریرہ } ۔
زیر بحث حدیث میں بھی من جملہ دیگر امور کے ساتھ رمضان المبارک کی خیر و برکات سے محرومی کو بہت بڑی بدنصیبی قرار دیا گیا ہے ، قابل غور امر ہے کہ اس شخص سے بڑا بد نصیب انسان اور کون ہوگا جس پر سب سے افضل فرشتہ بد دعا کرے اور سب سے افضل نبی جو لوگوں کے لئے رحمت بن کر آیا تھا اس پر آمین کہے ، ایسی دعا کی قبولیت میں کیا شبہ رہ جاتا ہے ، لہذا ہر مومن کو چاہئے کہ اس ماہ کی آمد پر وہ اپنا محاسبہ کرے ، اپنی گزشتہ کوتاہیوں سے توبہ کرے ، عمل خیر کے لئے کوشاں رہے ، اس مبارک ماہ کی مبارک گھڑیوں کو نیک عمل مین صرف کرے اور خصوصی طور پر وہ اعمال جو اس مبارک ماہ میں محرومی اور حضرت جبریل امین علیہ السلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بد دعاؤں کا سبب بنیں ان سے پرہیز کرے ۔ رمضان المبارک کے روزے اخلاص و احتساب کی نیت سے رکھے ، اس کا خصوصی اہتمام کرے کیونکہ رمضان المبارک کا روزہ دین کا ایک اہم رکن ہے اسے واجب و ضروری نہ سمجھنا ،اس میں لاپرواہی برتنا اور یہ سمجھنا کہ رمضان کا روزہ اس قد ضروری امر نہیں ہے کہ اس سے بندے کے ایمان میں کوئی فرق پڑسکتا ہے اور پھر غیر ضروری حیلوں سے روزہ ترک کردینا دین اسلام سے خروج کا سبب بن سکتا ہے ، اس مبارک ماہ کا روزہ چھوڑنے والے کو دھیان میں رکھنا چاہئے کہ یہ ایسا فعل ہے جس پر قیامت سے قبل عالم برزخ میں بھی سخت سزاؤں کا سامنا ہے ، چنانچہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو مشاہدہ کرایا گیا کہ کچھ لوگوں کو الٹے لٹکادیا گیا ہے ، اور کسی تیز دھار آلہ سے ان کے جبڑوں کومسلسل پھاڑا جارہا ہے جس کے اثر سے ان کے جبڑوں سے خون و پیپ بہہ رہا ہے ، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ساتھ موجود فرشتوں سے اس کا سبب پوچھا تو آپ کو بتلایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو افطار کا وقت ہونے سے قبل اپنا روزہ افطار کردیتے تھے ۔
{ صحیح ابن خزیمہ ، صحیح ابن حبان ، النسائی الکبری ، وغیرہ بروایت ابو امامہ } ۔
یعنی یہ شخص دن بھر روزہ تو رکھتا تھا البتہ افطار میں احتیاط سے کام نہ لیتا تھا بلکہ غروب آفتاب سے چند منٹ پہلے ہی روزہ افطار کردیا کرتا تھا ، اسی طرح بہت سے لوگ روزہ تو رکھتے ہیں البتہ روزہ کے حقوق و آداب کو ملحوظ نہیں رکھتے ، روزہ کی حالت میں نہ اپنے زبان کی حفاظت کی ، نہ اپنی آنکھ کو بچائے رکھا اور نہ ہی اپنے کان کو غلط چیزیں سننے سے روکے رکھا ، یہ لوگ بھی روزہ رکھنے کے باوجود رمضان کی برکتوں سے محروم ہیں ۔
فوائد :
۱- رمضان المبارک کا روزہ نہ رکھنا ، والدین کی نافرمانی کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا نام سن کر درود نہ بھیجنا رحمت الہی سے محرومی کے سبب ہیں ۔
۲- رمضان المبارک کا روزہ دین کا اہم رکن اور اس میں کوتاہی عالم برزخ میں عذاب کا سبب ہے ۔
۳- اللہ تعالی کے فرشتے بندوں کے نیک اعمال پر خوش ہوتے اور دعائیں دیتے ہیں اور برے اعمال پر ناراض اور بد دعا دیتے ہیں ۔
ختم شدہ