ماذا بعد رمضان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :180
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
حديث :
عن عائشۃ رضي اللہ عنہا قالت: سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أي الأعمال أحب إلى اللہ ؟ قال : أدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ ۔ الحدیث ۔
( صحیح البخاری : 6465 الرفاق ، صحیح مسلم : ۷۸۲ الإيمان )
ترجمہ :
أم المؤمنین حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سوال کیا گیا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے جواب دیا : وہ عمل جو ہمیشہ پابندی سے کیا جائے خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح :
عام طور پر یہ بات ملاحظہ میں ہے کہ لوگ رمضان المبارک کے مہینہ میں نیکیوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ دن میں روزہ رکھتے اور رات میں تراویح پڑھتے ہیں ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور دعاء و استغفار میں مشغول رہتے ہیں، صدقہ و خیرات کی طرف راغب اور سنّت و نوافل کی پابندی کرتے ہیں ۔ یہ رمضان المبارک کی برکتوں کا ایک مظہر اور مسلمان کی زندگی کا ایک روشن پہلو ہے ۔ لیکن دوسری طرف بڑے افسوس کا مقام یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو رمضان المبارک میں باجماعت نماز ادا کرتے تھے رمضان گزرتے ہی وہ نہ صرف جماعت بلکہ سرے سے نماز ہی پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں ، بہت سے لوگ جو رمضان میں روزآنا ایک پارہ یا اس سے کچھ کم زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرلیتے تھے رمضان گزرتے ہی انکا تعلق قرآن سے اسطرح ٹوٹ جاتا ہے کہ قرآن مجید کا آدھا صفحہ بھی نہیں پڑھا جاتا ، بہت سے اہل ثروت جنھوں نے رمضان المبارک میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خرچ کیا ہوگا رمضان گزرنے کے بعد ایک پھوٹی کوڑی بھی انکے جیب نہیں نکلتی ، ہمارے بہت سے بھائ جو رمضان میں محرمات کے سننے اور بولنے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں رمضان گزر جانے کے بعد بالکل ہی مادر پدر آزاو ہو جاتے ہیں، نہ انھیں اپنی زبان پر کنٹرول رہتا ہے، نہ آنکھوں کو بچاتے ہیں اور نہ ہی کانوں کی حفاظت کرتے ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کا رب کوئ اور،اور دیگر مہینوں کا کوئ دوسرا رب ہے کہ رمضان کے رب کو راضی رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے البتہ دوسرے مہینوں کا رب اگر ناراض ہو جائے تو کوئ بڑی بات نہیں ہے، یہ انسانی زندگی بلکہ مسلمانوں کی زندگی کا وہ تاریک پہلو ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ اولاً تو جو رب رمضان المبارک میں نیکیوں سے خوش ہوتا ہے ، بندوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے اور انکی توبہ قبول کرتا ہے وہ دوسروے مہینوں میں بھی بندوں سے بندگی کا مطالبہ ہے کہ وہ موت تک اللہ تعالیٰ کی عبادت پر مشغول رہے ۔ ثانياً { وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ } الحجر : ۹۹ “اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہ یہاں تک کہ تجھے موت آجائے” اس آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ نماز وغیرہ عبادتیں انسان پر اس وقت تک فرض ہیں جب تک کہ اسکے ہوش و حواس ثابت ہو اور اسکی عقل باقی ہے ۔ ثالثاً کسی بھی نیک عمل کے بعد خاصکر واجب عمل کو ترک کر دینا شریعت کی میں نظر بہت بڑی حماقت ہے ، قرآن مجید نے اسکی مثال کچھ اسطرح دی ہے ، { وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا } الایۃ النحل: ۹۲ “اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے بڑی محنت سے سوت کاتا پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ” صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیرمیں وارد ہے کہ اس عورت سے مراد مکہ میں رہنے والی وہ فرقاء نامی عورت ہے جو دن بھر سوت کاتتی رہتی تھی اور شام ہوتے ہوتے اپنے پورے دن کے کاتے ہوے سوت کو اڈھیر کر پھینک دیتی تھی (تفسیر سورہ نحل) رابعاً نیک عمل پر استمرار ار و مداومت اللہ تبارک و تعالیٰ اور اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے نزدیک پسندیدہ کاموں میں سے ہے، جیسا کہ زیربحث حدیث سے ظاہر ہوتا ہے اسلےأ کہ کسی بھی نیکی کے کام پر مداومت کی مثال اس شخص جیسی ہے جو اپنی بساط پھر اپنے آقا اور مالک کی خدمت میں لگا رہتا ہے نیز نیک عمل پر مداومت اللہ تبارک و تعالیٰ سے تعلق خاطر کی علامت ہے، اسی طرح سچے مسلمان کا یہ وصف ہے کہ وہ نیک عمل پر مداومت کرتے ہیں، {الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ } المعارج : ۲۳ “سچے مومن وہ ہیں جو اپنی نمازوں پر مداومت ہیں” اس طرح نیک عمل پر مداومت حسن خاتمہ کی علامت ہے ۔ اسکے برعکس کچھ دنوں تک نیک عمل اور پھر اسے چھوڑ دینا رب کریم و غفورورحیم سے منھ موڑنے اور دربار عالی سے اوگروانی کا ہم معنی ہے اس لیے نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے عبادت کے کام پر ضرورت سے زیادہ محنت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
فوائد :
(1) نیکی کا تھوڑا عمل جو برابر کیا جائے اس زیادہ عمل سے بہتر ہے جو کچھ مدت کرکے چھوڑ دیا جائے۔
(2) جو نیک کام برابر کیا جائےوہ رب کے نزدیک پسندیدہ ہے ۔
(3) محبت کرنا اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے جو اسکے شایان شان ہے ۔
ختم شدہ