( اچھے اور برے خواب ) 1
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :182
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
( ۱ )
حديث :
عن أبي ھریرة رضي الله عنه عن النبی ﷺ قال : الرؤیا ثلاثۃ : فبشری من اللہ و حدیث النفس و تخویف من الشیطان فإذا رأی أحدکم رؤیا تعجبہ فلیقصھا إن شاء وإذا رأی ما یکرھہ فلا یقصہ علی احد ولیقم فلیصل ۔
(مسند احمد : ۲ص۳۹۵ ، سنن ابن ماجہ : ۳۹۰۶ تعبیر الرؤیا )نیز دیکھئے صحیح البخاری : ۱۰۱۷ ، صحیح مسلم :۲۲۶۳، مسند احمد : ۲ص۲۶۹
تشریح :
حضرت ابو ہریرہؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : خواب تین قسم کا ہوتا ہے ۔ (۱) اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری، (۲) دل کے خیالات ، (۳) شیطان کا ڈرانا ۔ لہذا اگر کوئ ایسا خواب دیکھے جو اسے اچھا لگے ، اگر چاہے تو اسے بیان کرے اور اگر کوئ ناپسندیدہ خواب دیکھے تو اسے کسی سے بیان نہ کرے اور اٹھ کر نماز پڑھ لے ۔ ( مسند احمد، سنن ابن ماجہ )
اس دنیا میں انسان سوتا ہے اور اپنے سونے اور نید کا ایک بڑا حصہ خوابوں میں گزارتا ہے ، کیونکہ جب انسان سوجاتا ہے تو اس پر ایک گونہ موت طاری ہوجاتی ہے اور اسکی روح بحکم الہٰی ادھر ۔ ادھر آتی جاتی ، پروازکرتی اور دوسری روحوں سے ملاقات کرتی رہتی ہے پھر اس حالت میں جو چیزیں دیکھتی یا جن لوگوں سے ملتی ہے تو اسکا اثر خواب کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ، خواب کا علم ایسا علم ہے جسکا معمولی اور بہت ہی معمولی حصہ انسان کو عطا کیا گیا ہے ۔{ وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا }[الاسراء 85] “اور تمھیں تو بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے “۔
انسان نید کی حالت میں جو خواب دیکھتا ہے اسکی مختلف کیفیت ہوتی ہے ، اور انسانی زندگی پر اسکا بڑا اثر پڑتا ہے ۔ لیکن اگر اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائےأ تو انسان سکون و اطمینان کی زندگی بسر کر سکتا ہے ۔ زیر بحث حدیث میں خواب سے متعلق دو بڑی اہم باتیں بیان ہوئےہیں ، ایک خواب کی قسمیں ، اور دوسرے خواب کے آداب ۔
(1) خواب کی قسمیں : اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ نید کی حالت میں انسان جو خواب دیکھتا ہے وہ تین طرح کے ہوتے ہیں ۔
(أ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری :۔ خواب کی پہلی قسم جو بہت ہی اہم ہے اور جسے نبوت کا ایک حصہ کہا گیا ہے وہ اچھا خواب ہے ، اس معنی میں کہ اس خواب میں اسے بعض ایسی چیزیں بتلا دی جائیں جنھیں وہ جانتا نہیں تھا ، بابعض امور پر تنبیہ کی جائےجن سے غافل تھا ، بعض ایسے حالات کی اطلاع دی جائےجن کی معرفت اور انکے مطابق عمل اسکے لئے مفید ہے ، یا بعض ایسے کا موں سے دور رہنے کو کہا جائےجس میں اسکے لئے کوئ دینی یا دنیوی نقصان تھا یا بعض ایسے امور کے چھوڑ دینے کی طرف اشارہ ہو جس میں وہ ملوت تھا وغیرہ ۔ وغیرہ ، یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لئے جو بندہ اللہ تعالیٰ کے جسقدر قریب ہوتا ہے اسے اس خواب کا زیادہ حصہ ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا خواب وحي شمار ہوتا ہے ۔
(ب) حدیث نفس: ۔ خواب کی دوسری قسم وہ ہے جسے حدیث نفس کہا گیا ہے یعنی دلی خیالات ، اسکی حقیقت صرف یہ ہے کہ انسان حالت بیداری میں جس چیزکے بارے میں فکر مند رہتا ہے اسے خواب میں وہی چیز نظر آتی ہے ، مثلا جو شخص دنیا کے معاملات میں زیادہ مشغول اور فکر مند رہتا ہے اسے دنیا وی چیزیں نظرآتی ہیں اور جو شخص دینی معاملات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے اسے ویسی ہی چیزیں خواب میں آتی ہیں لہذا اس بارے میں انسان کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اسکی تادیل و تعبیر کے بارے میں سوچنا چاہیے ۔
(ج (شیطانی خواب :۔ خواب کی تیسری قسم وہ ہے جسمیں انسان پریشان ہوتا اور خوفناک و خطرناک چیزیں دیکھتا ہے ۔ یہ خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اسے ہی حدیث میں پریشان خیالی کہا گیا ہے اسکی علامت یہ ہے کہ عمومی طور پر ایسے خواب غیر واضح ہوتے ہیں انکے اول و آخر کا پتا نہیں ہوتا اور نہ ہی انسان اسے اچھی طرح یاد رکھ پاتا ہے ، ایسا خواب شیطان کے وسوسے یا انسان کے ساتھ شیطان کے کھیل کی وجہ ہے ۔
(2) خواب کے آداب : ۔ اس حدیث میں دوسری اہم بات یہ بیان ہوئ ہے کہ اچھے اور برے خواب کے آداب کیا ہیں ۔
(أ) اچھے خواب کے آداب :۔ شکر باری تعالیٰ : سب سے اہم یہ کہ اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جسکے ذریعے وہ اپنے مومن بندے کو کوئ خوشخبری سنانا چاہتا ہے یا کسی خطرناک چیز سے متنبہ کرنا چاہتا ہے لہذا بندے کو چاہیے کہ اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرے۔ارشاد نبوی ہے : جب تم میں سے کوئ شخص پسندیدہ خواب دیکھے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لہذا اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور اسے بیان کرے ۔ [ صحیح البخاری : ۶۹۸۵ ، صحیح مسلم : ۲۲۶۱ ]
(ب) اسے بیان کرے :۔ بیان کرنے کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ خواب ایسا ہے جسکے تعبیر کی ضرورت ہے اور اسکا مفہوم واضح نہیں ہے اور کسی ایسے شخص سامنے بیان کرنے کی ضرورت ہے جو اسکی صحیح اور معقول تعبیر بتا سکے تو اسے بیان کرے البتہ کسی کے سامنے بیان کرنے سے پہلے اس بات کا دھیان واجیی طور پر رکھنا چاہیے کہ اس خواب کو صرف کسی ایسے ہی شخص کے سامنے بیان کیا جائےجو اسکا خاص آدمی ہو ، اسے خواب کی تعبیر کا علم بھی ہو اور خواب دیکھنے والے کا خیرخواہ ہو، اسلئے کہ اگر خواب کے ذریعہ خواب دیکھنے والے کو کوئ نعمت حاصل ہو تو سننے والے کے دل میں حسد اور بغض وعناد کا جذبہ پیدا ہو گاجیسا کہ حضرت یوسف ؑ کے ساتھ برادران یوسف کا معاملہ رہا ہے ، اسی وجہ سے حضرت یعقوب ؑ نے حضرت یوسف ؑ سے فرمایا تھا : { قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا } ۔ [ یوسف 5] اے بیٹے یہ خواب اپنے بھائیو ں سے نہ بیان کرنا ورنہ وہ تمہارے لئے بری تدبیریں سوچنے لگیں گے ۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اپنا خواب صرف اسی شخص سے بیان کرو جو[ خواب کی تعبیر ] جانتا ہو یا پھر تمہارا خیر خواہ ہو۔ [ سنن الترمذی و سنن الداری ] ایک اور حدیث میں ہے ، جب تم میں سے کوئ اچھا خواب دیکھے تو اسے صرف اسی شخص کے سامنے بیان کرے جو اس سے محبت کرتا ہو ۔ [ صحیح مسلم ]
(ج) خواب بیان کرنے میں جھوٹ نہ بولے :۔ جھوٹ بولنا ویسے بھی بہت بڑا گناہ ہے اور اللہ رحیم و غفور کی لعنت کا سبب ہے ، پھر اگر اس جھوٹ کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف ہو تو اسکی قباحت اور بڑھ جاتی ہے ، نبی ﷺ کا ارشاد ہے : بلا شبہ سب سے بڑا افتراء [ بہتان ] یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے ، یا اپنی آنکھ کو وہ کچھ دیکھائےجو اس نے نہیں دیکھا [ یعنی جھوٹا خواب بیان کرے ] یا رسول اللہ ﷺ کے ذمے کوئ ایسی بات لگائےجو آپ نے ارشاد نہیں فرمائ [صحیح بخاری]، کیونکہ اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے ، لہذا یہ دعوی کرنا کہ میں نے ایسا ایسا خواب دیکھا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان ہے ۔
) جاری ہے (