(چھوٹا خواب اورجھوٹا باپ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :184
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
حديث :
عن واثلۃ بن الأسقع رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ [ إن من أعظم الفری أن یدعي الرجل إلى غیر أبیہ أو یری عنیہ ما لم تر أو یقول علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما لم یقل]
صحیح البخاری : ۲۵۰۹ المناقب ،مسند احمد : ۴ص۱۰۴
ترجمه :
حضرت واثلۃ بن الأسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :[سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے یا اپنی آنکھ کو وہ کچھ دکھائےجو اس نے نہیں دیکھا – جھوٹا خواب بیان کرے – یا رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کوئ ایسی بات بیان کی جو آپ نے ارشاد نہیں فرمائ ۔] صحیح البخاری و مسند احمد
تشریح :
شریعت کی نظر میں جھوٹ بہت بڑا گناہ ، رحمت الہی سے محرومی کا سبب ، رحمۃ للعالمین ﷺ کے نزدیک مبغوض ترین خصلت ، نفاق کی علامت اور عالم برزخ میں عذاب کا بڑا سبب ہے۔{ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ } [ أل عمران : ۶۱ ] پھر جھوٹوں پر لعنت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہونے کی دعا کریں ۔ ارشاد نبوی ہے : (منافق کی تین علامتیں ہیں، اگرچہ وہ روزہ رکھے ، نماز پڑھے اور یہ سمجھتا ہو کہ میں مسلمان ہوں ، بات کرے تو جھوٹ بولے ، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور امانت رکھی جائےتو خیانت کرے) صحیح مسلم وغیرہ نبی رحمت ﷺ کو خواب میں دیکھلایا گیا کہ ایک شخص گدی کے بل چت لیٹا ہوا ہے اور ایک دوسرا شخص لوہے کا زنبور لئے اسکے جبڑے کو ایک طرف چیرتا ہے یہاں تک کہ گدی تک چیر دیتا ہے اور اسکے نتھنے اور آنکھ کو بھی گدی تک چیر دیتا ہے پھر وہ اسکے چہرے کی دوسری جانب آتا ہے اور وہی عمل کرتا ہے جو اس نے پہلی جانب کیا تھا ، ابھی وہ ایک جانب سے فارغ نہیں ہوتا کہ پہلی جانب پہلے کی طرح صحیح ہو جاتی ہے ، وہ پھر اسکی طرف آتا ہے اور وہی کچھ کرتا ہے جو پہلی مرتبہ میں کیا تھا ۔ جب آپ ﷺ نے اس دردناک سزا کا سبب دریافت کیا تو بتایا گیا کہ (یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور جھوٹ بولتا جسے لوگ نقل کرتے اور وہ دنیا کے کنارے تک پہنچ جاتی ، بس اس شخص کے ساتھ قیامت کے دن تک یہ معاملہ کیا جاتا رہے) ۔ صحیح بخاری
یہ تو عام جھوٹ کی سزا ہے لیکن اگر یہی جھوٹ کوئ ایسا شخص بولے جو اپنے مقام و منصب کے لحاظ جھوٹ بولنے کا حاجت مند نہیں ہے ، یا اس جھوٹ سے کسی کی حق تلفی ہو رہی ہے ، یا اس پر کوئ شرعی احکا م مترتب ہو رہے ہیں تو اس جھوٹ کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے ۔ زیربحث حدیث میں بھی ایسے ہی تین قسم کے جھوٹ کا بیان ہے :
وہ شخص جو اپنی نسبت اپنے حقیقی باپ سے ہٹ کر کسی اورکی طرف کرتا ہے اور لوگوں یا حکومت کے ذمہ داروں کے سامنے یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرا باپ فلاں شخص نہیں بلکہ فلاں ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے بہت سی حدیثوں میں اسے بڑے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے اور ایسے شخص پر جنت کو حرام بتلائ ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور ایسے شخص کو اللہ کی لعنت ، اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت کا مستحق بتلاتا ہے ۔ (مسند احمد ابن ماجہ)
اس قباحت کی وجہ شاید یہ ہے کہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ پر یہ بہتان باندھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فلاں کے نہیں بلکہ فلاں کے پانی سے پیدا کیا ہے ، نیز اس میں نسب کا ضیاع ، اور اس میں حقیقی ورثہ کا میراث کی مہرات وغیرہ سے محرومی ہے ، اس سخت ممانعت کے باوجود یہ وبا ہمارے یہاں عام ہوتی جارہی ہے ، کوئ گورنمنٹ کی نوکری لینے کے لئے کسی کو اپنا باپ ظاہر کر رہا ہے ، کوئ پنشن کے لئے جھوٹ بولکر متوفی کا بیٹا بن جا رہا ہے اور کسی کی وراثت کے لئے اسکا لے پالک بن جا رہا ہے اور کوئ شخص لاولد ہونے کی وجہ سے یا نرنیہ اولاد سے محروم ہونے کی وجہ سے کسی کو اپنا منھ بولا بیٹا بنا کر سرکاری کاغذات پر اسے اپنا حقیقی بیٹا ظاہر کر رہا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام صورتیں زیر بحث حدیث میں وارد و عید کے تحت داخل ہیں یا پھر اسکا بہت بڑا حصہ انھیں مل رہا ہے ۔
وہ شخص جو جھوٹا خواب بیان کر رہا ہے ، ایسا شخص بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین لوگوں میں ہے اور قیامت کے دن دردناک عذاب کا مستحق ہے ، قیامت کے دن حشر کے میدان میں ایسے شخص کو مجبور کیا جائگا کہ جو کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگائے جو اس سے ہر گز نہ ہوسکے گا ، (صحیح بخاری) اسکی وجہ یہ ہے کہ اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نبوت کا ایک حصہ ہے لہذا اگر کوئ شخص جھوٹا خواب بیان کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا ایسا خواب دکھایا ہے حالانکہ دعوی جھوٹا ہے ، مزید یہ کہ لوگوں کی گمراہی کا بھی سبب ہے کہ ایسے شخص کے بزرگ ، ولی اور اللہ کا نیک بندہ ہونے کا تصور لوگوں کی ذہن میں بیٹھے گا جبکہ ایسا شخص جھوٹا ، دھوکہ باز اور شیطان کا ولی ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہ بیماری عام طور پر ایسے ہی لوگوں میں پائ جاتی ہے جو غلط عقیدے کے حامل ، باطل مذہب کے مبلغ اور خود شہرت و ناموری کے خواہش مند ہوتے ہیں ۔
لہذا کوئ اللہ کے رسول ﷺ سے خواب میں ملاقات کا دعوی کرتا ہے اور کوئ اللہ کے رسول ﷺ سے اپنے ادارے کی بنیاد رکھواتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
وہ حدیثیں جو ثابت نہیں ہیں یا جو من کھڑت اور جھوٹی ہیں انھیں بیان کرنا بھی بڑا گناہ اور جہنم میں اپنا ٹھکانا بنانے کا ہم معنی ہے ارشاد نبوی ہے : میرے اوپر جھوٹ بولنا کسی اور پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے ، لہذا جو میرے اوپر جھوٹ بول رہا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے ، (بخاری و مسلم) نیز فرمایا : جو کوئ ایسی حدیث بیان کر رہا ہے جسے جھوٹی سمجھتاہے تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے (بخاری و مسلم) ایسا اس لئے کہ اس سے گمراہی پھیلتی اور آپ ﷺ کی شخصیت داغداری ہوتی ہے ، اسلئے کہ آپ ﷺ کا ہر قول و فعل شریعت کی حیثیت رکھتا ہے اور آپ ﷺ بغیر حکم الہی کے کوئ بات نہیں کہتے تھے لہذا آپ ﷺ کی طرف سے کوئ ایسی حدیث بیان کی جائےجو جھوٹی ہو یا اسکی نسبت نبی ﷺ کی طرف مشکوک ہو تو گویا یہ اللہ اور اسکے اسول پر بہتان باندھا جا رہا ہے لیکن افسوس کی غیر محتاط علماء قصہ گو واعظین اور شیریں بیان مقررین کے یہاں یہ بیماری عام ہے جس کی وجہ سے عوام اور کم علم لوگوں کی ایک بڑی جماعت بہت سے غیر ثایت شدہ کاموں کو سنت رسول سمجھ بیٹھتی ہے ۔
فوائد :
۱۔ اسلام چاہتا ہے کہ اسکے متبعین ہر حال میں سچے اور حق کے پیروکار رہیں ۔
۲۔ اللہ اور اسکے اسول ﷺ کی طرف کسی بات کا منسوب کرنا مخلوق کی طرف منسوب کرنے سے مختلف ہے کیونکہ وہ شریعت ہے ۔
۳۔ لے پالک اور کسی کو منھ بولا بیٹا بنانا شریعت کے خلاف اور ناجائز ہے ۔