حدیث:
عن البراء بن عازب رضی اللہ عنہ قال : قام فینا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم فقال: (أربع لا تجوز في الأضاحي: العوراء البيّن عورها، والمريضة البيّن مرضها، والعرجاء البيّن ظلعها، والكسير، وفي لفظ: والعجفاء التي لا تنقي)۔ سنن ابوداؤد : ۲۸۰۱ الضحایا ، سنن الترمذی : ۱۵۳۰ الأضاحی، سنن النسائي : ۴۲۷۱ الضحایا
ترجمہ :
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ہمارے درمیان ایک بار کھڑے ہوئے اور فرمایا : چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں ہیں ، پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے انکی تفصیل بیان فرمائی ، ایسا کانا جسکا کانا ہونا بالکل ظاہر ہو، ایسا بیمار جسکی بیماری واضح ہو، ایسا لنگڑا جسکا لنگڑاپن نمایاں ہو اور ایسا دبلا جسکی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔ سنن ابوداؤد ، سنن الترمذی، سنن النسائ
قربانی دین کا ایک اہم شعیرہ اور تقرب الی اللہ کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، اسکی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید میں متعدد جگہ اسکا ذکر نماز کے ساتھ ہوا ہے ۔ ’’فصل لربک وانحر ‘‘ ۔ پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر ۔ { قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَاي وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمينَ} (سورة الأنعام 162)” آپ کہہ دیں کہ میری نماز ، میری قربانی ، میرا مرنا اور جینا اللہ رب العالمین کے لئے ہے” ۔
نبی کریم صلى الله عليه وسلم اپنے دس سالہ قیام مدینہ منورہ میں اس عبادت کا بڑا اہتمام کرتے تھے ، آپ خود بھی قربانی کرتے ، قربانی پر لوگوں کو ابھارتے مسلمانوں میں قربانی کے جانور تقسیم فرماتے قربانی کے کئے عمدہ سے عمدہ جانوروں کے انتخاب کا حکم دیتے اور خود بھی عمدہ اور اچھا جانور ذبح فرماتے ۔
ابو امامہ بن سہیل نامی ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ منورہ میں اپنے قربانی کے جانوروں کو کھلا پلا کر موٹا و تندرست کرتے تھے ۔ [صحیح البخاری ۔کتاب الأضاحی بارع 7]
قربانی کے جانور میں کن شروط کا پایا جانا ضروری ہے وہ درجہ ذیل ہیں ۔
1- قربانی کا جانور : [بہیمۃ الأنعام] پالتو جو پائے اونٹ ، گائے، بھیڑ اور بکری سے ہونا چاہیے { وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكاً لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الأَنْعَامِ } (الحج 34) “اور ہرامت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے متعین فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائےجانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انھیں دے رکھے ہیں” ۔
2- معتبر عمر کو پہنچ جائے: ضروری ہے کہ قربانی کا جانور’’ مسنہ اور ثني ‘‘ہو یعنی جسکے سامنے کے دو دانت نکل آئے ہوں ، بعض اہل علم نے اسکی تحدید اسطرح کی ہے کہ اونٹ کی عمر پانچ سال سے اوپر ہونی چاہیے ، گائے یا بیل کی عمر دو سال یا اس سے اوپر ہونی چاہیے اور بکری یا بکرے کی عمر سال سے اوپر ہونی چاہیے ۔ البتہ دنبہ اگر چھ ماہ کا پورا ہو گیا ہے تو اسکی قربانی جائز ہے ۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے ’’ جذع ‘‘ یعنی چھ ماہ سے اوپر بھیڑ (قربانی میں) دو دانت والے بکرے کے برابر ہے ۔ [سنن ابن ماجہ]
3- عیب سے پاک ہو: قربانی کے جانور کے لئے تیسری اہم شرط یہ ہے کہ اسمیں کوئی ایسا عیب نہ پایا جائے جو قربانی کی صحت میں مانع ہو ان میں سے خصوصی طور پر چار عیبوں کا ذکر زیر بحث حدیث میں وارد ہے یعنی :
أ) کانا : اس سے مراد وہ کانا جسکا کانا پن بالکل واضح ہو، اسطرح کہ اسکی آنکھ بالکل سفید ہو چکی ہے یا بالکل اندر کی طرف جا چکی ہے ۔ البتہ اگر کسی جانور کا کانا پن واضح نہیں ہے یا بہت غور سے دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ کانا ہے تو اسکی قربانی جائز ہے ،۔ کانے کے حکم میں بالکل نا بینا جانور بھی ہے ۔
ب) بیمار نہ ہو: قربانی کا جانور اگر اسقدر بیمار ہے کہ اسکا مرض ظاہر ہے تو اسکی بھی قربانی جائز نہیں ہے ۔ البتہ معمولی مرض جس سے اسکی ظاہری شکل اور گوشت متا ثر نہ ہو اسکی قربانی جائز ہے ۔
ج) لنگڑا نہ ہو: ایسا لنگڑا جانور جسکا لنگڑا کر چلنا بالکل واضح ہو ، اور وہ اپنے لنگڑے پن کی وجہ سے ریوڑے پیچھے رہ جاتا ہے اسکی قربانی بھی جائز نہیں ہے ، اسی حکم میں وہ جانور بھی ہے جو پیروں کی وجہ سے چل نہیں سکتا ہے البتہ وہ جانور جسمیں معمولی لنگڑا پن ہے اسکی قربانی جائز ہے ۔
د) بہت دبلا نہ ہو: وہ جانور جو بڑھاپے ، بیماری یا قلت غذا کی وجہ سے اسقدر بوڑھا ہو کہ اسکی ہڈیوں پر گوشت اور اسکی نلیوں میں گودا نہیں رہ گیاہے اسکی بھی قربانی جائز نہیں ہے ۔
یہ حدیث اس بارے میں نص صریح ہے کہ ان چار عیبوں کے علاوہ دیگرمعمولی عیب اگر کسی جانور میں پائےجارہے ہیں تو انکی قربانی جائز ہے کیونکہ اولا تو یہ ایک عام حکم ہے ثانیا اس سلسلے میں کو ئ دوسری حدیث صحیح نہیں ہے ۔ البتہ اس سلسلے میں ایک اور حدیث قابل ذکر ہے : حضرت علی رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول صلى الله عليه وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ) قربانی والے جانور کی( آنکھوں اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ لیں ، اور وہ جانور ذبح نہ کریں جو کانا ہو یا جسکے کان آگے سے پیچھے سے کٹ کر لٹک گئے ہو، یا جسکے کان لمبائ میں کٹے ہوں یا جسکے کان عرض میں کٹے ہو یا اسمیں سوراخ ہو ( مسند احمد ، سنن اربعہ) یہ حدیث اہل علم کے نزدیک مختلف فیہ ہے لہذا بغرض احتیاط اس حدیث میں مذکورہ عیب پائےجانے والے جانوروں کی قربانی نہ دی جائےکیونکہ قربانی اصل میں بندے کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور نذر ہے اسلئے ضروری ہے کہ حسب استطاعت اچھے سے اچھے جانور کا انتخاب کیا جائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ} (أل عمران 92) “تم نیکی کا مقام اس وقت تک ہر گز نہیں پا سکتے جب تک وہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو جو تمھیں محبوب نہ ہوں” ۔
فائدہ:
1- قربانی اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ اور یوم النحر کے افضل ترین کاموں میں سے ہے ۔
2- قربانی کا جانور ہر اس عیب سے پاک ہونا چاہیے جسکا ذکر صحیح حدیثوں وارد ہے ۔
3- جس جانور کو انسان اپنے لئے عیب دار سمجھتا ہے اسکی قربانی نہ کرے ۔