محرم الحرام اور نئے سالہفتہ واری دروس

نئے سال کا استقبال

حديث نمبر :189

خلاصہء درس : شيخ ابوکليم فيضي

حديث :

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بِمَنْكِبِي فَقَالَ (كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ ، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ إِذَا أَمْسَيْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ.) صحيح البخاري: 6416 الرقاق 

ترجمه:

حضرت عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے ميرا کندھا پکڑا اور فرمايا : تم دنيا ميں اسطرح رہو گويا پرديسي ہو يا راہ چلتے مسافر ، اور{يہ ارشاد نبوي بيان کرنے کے بعد }حضرت ابن عمر فرمايا کرتے تھے :جب تم شام کرو تو صبح کے منتظر نہ رہو اور جب صبح کرو تو شام کے منتظر نہ رہو اور اپني تندرستي کے زمانے ميں اپني بيماري کيلئے اور اپني زندگي ميں موت کيلئے تياري کرلو- صحيح البخاري

تشريح :

دنيا ايک مسافر خانہ ہے يہاں ہر شخص کي حيثيت پرديسي اور راہ چلتے مسافر جيسي ہے ، يہاں کسي چيز کو دوام حاصل نہيں ہے ، دنيا کي زندگي گھنٹوں ،دنوں ، مہينوں اور سالوں ميں تبديل ہوتي رہتي ہے حتي کہ بتقدير الہي اسکا آخري مرحلہ پہنچ جاتا ہے لہذا ہر شخص کو اپني زندگي و صحت کو غنيمت سمجھنا چاہئے، دنيا سے اپنا تعلق اتنا ہي جوڑے رکھنا چاہئے جتنا ضروري ہو ، موت کي آمد سے قبل توبہ واستغفار کرکے اسکے لئے تيار رہنا چا ہئے ، کيونکہ اس دنيا ميں انسان کتنا ہي دن رہ لے ايک نہ ايک دن اسے رخصت ہونا ہے ، يہي چيز ہے جس کي طرف زير بحث حديث ميں انسانوں کو متوجہ کيا گيا ہے ، اس حديث کو نقل کرنے کے بعد امام نووي لکھتے ہيں : علماء نے اس حديث کي شرح اور اسکے معني يہ بيان کيئے ہيں کہ تم دنيا کي طرف زيادہ مت جھکو ، نہ اسے مستقل وطن بناو ، نہ اپنے جي ميں زيادہ دير دنيا ميں رہنے اور اس پر زيادہ توجہ دينے کا پرگرام بناو، اس سے صرف اتنا ہي تعلق رکھو جتنا کہ مسافر اجنبي ديس سے تعلق رکھتا ہے ، اور دنيا ميں زيادہ مشغول نہ ہو، اسي طرح جسے ايک مسافر جو اپنے گھر جانے کا ارادہ رکھتا ہو ديار غير سے زيادہ وابستگي نہيں رکھتا –{رياض الصالحين ص 42 مترجم}

راوي حديث حضرت عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے اس نبوي وصيت کو اچھي طرح سے سمجھا اور علم و عمل کے لحاظ سے اسکا اچھا ثبوت پيش کيا اور اس سے تين اہم درس و عبرت مستنبط کيئے ۔

{1} عمل ميں تاخير نہيں : اگر شام کا وقت مل گيا تو صبح ہونے کا انتظار نہ کرو يعني جس عمل کو شام ميں کرنا ہے اسے صبح کے وقت کيلئے نہ ٹال رکھو بلکہ ہر کام وقت پر اداکرو اسے کل پر نہ ٹالو يعني صبح کا عمل اسکے وقت ميں اور شام کا عمل اسکے وقت اور آج کا عمل آج ہي کر لينا چاہئے اسميں تا خير اور ٹال مٹول سے کام نہيں لينا چاہئے ، يا اسکا معني يہ بھي ہو سکتا ہے کہ شام کا وقت مل گيا تو يہ نہ سمجھو کہ صبح تک لازما زندہ رہوگے اور اگر بفضل الہي صبح کا وقت مل گيا تو کوئي ضروري نہيں کہ انسان اس دن شام بھي کر پائے گا کيونکہ موت کا وقت متعين ہے اور وہ اللہ کے سوا کسي کو معلوم نہيں ہے اور اس زمانے ميں يہ چيز بہت کھل کر سامنے آچکي ہے کہ ايک شخص صبح کے وقت کھر سے نکلتا ہے اسکے اہل و عيال اسکے لئے دوپہر کا کھانا تيار رکھتے ہيں ليکن گھر پر اسکي لاش آتي ہے ، صبح کو وہ اپنا لباس اپني پسند اور اپنے ہاتھوں سے زيب وتن کرتا ہے ليکن دوپہر کو وہ اپنے ہاتھوں سے اسے اتار نہيں پاتا وغيرہ –

{2}صحت ہزار نعمت ہے : اپني تند رستي کے زمانے ميں اپني بيماري کے ايام کيلئے تياري کرلو ، جب تک انسان صحت مند رہتا ہے اسکے جسم ميں چستي مزاج ميں نشاط اور عمل کي طرف طبيعت کا ميلان رہتا ہے اور بآساني نيک عمل کر کے نيکيوں کاخزينہ جمع کرسکتا ہے ليکن وہي جسم جب بيمار ہو جاتا ہے تو جسم ميں سستي طبيعت ميں الجھن اور مزاج ميں بيگاڑ پيدا ہو جاتا ہے پھر انسان خواہش کے باوجود نيک عمل نہيں کرپاتا لہذا جب تک صحت ہے انسان کو چا ہئے کہ جو کچھ عمل خير ميسر آئے اسے حسب استطاعت کرلے تا کہ بيماري کے زمانے ميں بھي اسکے نامہ اعمال ميں نيکياں جمع ہوتي رہيں جيسا کہ ارشاد نبوي ہے : جب بندہ بيمار ہو جائے يا سفر ميں چلا جائے تو حالت صحت واقامت ميں جو عمل کرتا تھا اللہ اسکا اجر اسے ديتا ہے ۔ {صحيح البخاري و مسند احمد}

{3} موت کے بعد اعمال کا سلسلہ منقطع : موت سے قبل زندگي ہي ميں موت کے بعد کيلئے عمل کرلو ، کيونکہ جب انسان مرجا تا ہے تو اسکے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور جب تک زندہ ہے وہ عمل پر قادر ہے لہذا اسے چا ہئے کہ زندگي کي گھڑيوں کو غنيمت سمجھتے ہوے موت کے بعد کي زندگي کيلئے تياري کرلے اور ضائع نہ کرے ، اسي چيز کو نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي درجہ ذيل حديث ميں بھي بيان کيا گيا ہے کہ دو نعمتوں کے بارے ميں انسان بہت ہي غفلت کا ثبوت ديتا ہے ايک صحت دوسري فرصت {صحيح البخاري }کيونکہ وہ صحت وفراغ کو وقت کي قدر نہيں کرتا اور اسے ضائع کرديتا ہے حتي کہ بيماري يا عدم فرصتي اسے اپنے قبضے ميں کر ليتي ہے ، لہذا آج ہم جب کہ ايک نئے سال کا استقبال کر رہئےہيں تو اس مناسبت سے زندگي کے ايام کے تيزي سے گزر جانے سے عبرت حاصل کريں اور جو کچھ نيک عمل ہو سکتا ہے اسکے انجام دينے ميں جلدي سے کام ليں قبل اسکے ہمارے اور نيک عمل کے درميان موت ، بيماري اور عدم فرصتي حائل ہو جائے –

فوائد:

1 – دنيا ايک سرائے خانہ يا گزر گاہ ہے جائے اقامت نہيں ۔

2 – عقل مند کو چا ہئے کہ اپني زندگي و صحت اورفرصت کے وقت کو غنيمت سمجھے ۔

3 – انسان ہميشہ ايک حال ميں نہيں رہتا ہے بلکہ کبھي صحت مند تو کبھي بيمار ، کبھي صاحب ثروت تو کبھي فقير ومحتاج اور کبھي فارغ الہال تو کبھي مشغول ۔

4 – انسان کي حالت يہ ہے کہ سامان سوبرس کا ہے پل کي خبر نہيں ۔

زر الذهاب إلى الأعلى