حديث :
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ فِى غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَجْمَعَهَا إِلَى الْعَصْرِ فَيُصَلِّيهِمَا جَمِيعًا وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ سَارَ وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْعِشَاءِ وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ عَجَّلَ الْعِشَاءَ فَصَلاَّهَا مَعَ الْمَغْرِبِ {سنن ابو داود:1220الصلاۃ ۔ سنن الترمذي:553 الجمعۃ ۔ مسند احمد 5 ص241 }
ترجمة :
حضرت معاذ بن جبل رضي اللہ عنہ سے مروي ہے کہ غزوۃ تبوک کے موقعہ پر نبي صلي اللہ عليہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے قبل روانہ ہو تے تو ظہر کو موخر کرکے عصر کے وقت ميں دونوں کو ايک ساتھ پڑھتے اور جب مغرب سے قبل روانہ ہو تے تو مغرب کو موخر کر کے عشاء کے ساتھ پڑھتے اور جب مغرب کاوقت ہو نے کے بعد روانہ ہوتے تو عشاءکو مقدم کر کے مغرب کے ساتھ پڑھ ليتے ۔{ سنن ابو داود ۔سنن الترمذي ۔ مسند احمد }
تشريح :
محدث عصر علامۃ الشام امام الباني رحمہ اللہ نے اس حديث کي سند پر مفصل گفتگو اور اسکي صحت کو ثابت کردينے کے بعد فقہ الحديث کے عنوان پر چند مسائل کا ذکر کيا ہے ۔ جسکا مختصرا ذکر فائدے سے خالي نہيں ہے ۔
{1} سفرميں دونمازوں کو جمع کر کے پڑھنا جائز ہے خواہ عرفہ ومزدلفہ کے علاوہ کسي اور جگہ ہو ، جمہور علماء کا مسلک يہي ہے ، بخلاف احناف کے کہ انہوں نے اس جمع کو جمع صوري پر محمول کيا ہے يعني ظہر کو عصر کا وقت ہونے سے کچھ پہلے پڑھا ، اور{عصر کو اسکا وقت ہونے کے فورابعد پڑھا }اسي طرح مغرب کو بھي عشاء کے ساتھ کيا ، جمہور علماء نے انکا رد کئي طرح سے کيا ہے ۔
{ ا } حديث کا ظاہر اسکےخلاف ہے يعني حديث سے بظاہر جمع حقيقي معلوم ہورہا ہے ۔
{ب } دونمازوں کے جمع کرنے کي حکمت آساني پيدا کرنا اور پريشاني سے بچنا ہے ، جيسا کہ صحيح مسلم کي ايک اور روايت ميں اس کي تصريح ہے ،اور جمع صوري ميں آساني نہيں بلکہ مزيد پريشاني ہے جيسا کہ امر بالکل واضح ہے ۔
{ج } جمع سے متعلقہ بعض حديثيں اس دعوے کو باطل کرديتي ہيں جيسے حضرت انس بن مالک کي حديث جس کےالفاظ ہيں : ظہر کو موخر کيا حتي کہ عصر کا اول وقت داخل ہو گيا پھر ظہر کو عصر کے ساتھ جمع کرکے پڑھا {صحيح مسلم 2 ص151 وغيرہ}
{د } حضرت معاذ بن جبل کي مذکورہ حديث ميں جمع تقديم کا ذکر ہے جو احناف کے اس دعوے کو باطل کرتا ہے کہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم جب سورج ڈھلنے کے بعد روانہ ہو تے تو عصر کو ظہر کے وقت ميں مقدم کر کے دونوں کو ايک ساتھ پڑھتے اس معني ميں اور بھي ديگر حديثيں ہيں ۔
{2} جمع تاخير کي طرح جمع تقديم بھي جائز ہے ، امام شافعي {الام 1 ص67} امام احمد اور امام اسحاق بن راھويہ {سنن الترمذي 2 ص441} رحمہم اللہ کا مسلک يہي ہے ۔
{3} جس طرح جمع بين الصلاتين سفر ميں راہ چلتے ہوئے جائز ہے اسي طرح حالت سفر ميں جائے قيام پر بھي جائز ہے ۔ امام ابن القيم رحمہ اللہ سے يہاں سہوہوا ہے کہ انہوں نے اس جمع کا انکار کيا ہے ۔ جبکہ انکے استاذ امام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے الرسائل والمسائل 2 ص 27026 ميں اس سلسلے ميں ايک حديث ذکر کرنے کے بعد کہتے ہيں دو نمازوں کے درميان جمع کي تين صورتيں ہيں ۔
{ا } اگر پہلي نماز کے وقت ميں سفر ميں راہ چل رہا ہے تو دوسري نماز کے وقت ميں ٹھہر کر جمع کرے ، جمع بين الصلاتين کا يہ طريقہ صحيح بخاري ومسلم ميں حضرت انس اور ابن عمر رضي اللہ عنہم سے ثابت ہے اسکي مثال مزدلفہ ميں جمع بين الصلاتين ہے ۔
{ب} البتہ اگر دوسري نماز کے وقت ميں سفر جاري رکھنا ہو تو {سفر شروع کر نے سے قبل } پہلي ہي نماز کے وقت ميں جمع کر لے ،اسکي مثال عرفہ ميں جمع بين الصلاتين کي ہے ۔
{ج } البتہ اگر کوئي کسي جگہ مستقل قيام پذير ہے {يعني حالت سفر ميں }تو اس بارے ميں حضرت معاذ بن جبل کي اس حديث کے علاوہ ميري نظر ميں کوئي دوسري دليل نہيں ہے ، اسلئے کہ اس حديث سے بظاہر يہي معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم دوران سفر اپنے خيمے ميں مقيم تھے جيسا کہ اسميں باہر آنے اور اندر جانے کا ذکر ہے جبکہ باہر آنا اور اندر جانا حالت قيام ہي ميں ہوسکتا ہے ، کيونکہ حالت سفر ميں رواں دواں رہے تو اسے اتر نا اور سوار ہونا کہا جاتا ہے نہ کہ اندر آنا اور باہر جانے سے تعبير کيا جاتا ہے ۔
واضح رہے کہ غزوہ تبوک نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے آخري غزوات ميں سے ہے اسکے بعد آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے صرف حجۃ الوداع کا سفر کيا ہے اور اس سفر ميں عرفہ اور مزدلفہ کے علاوہ جمع بين الصلاتين کا کہيں ذکر نہيں ہے ، مني ميں قيام کے دوران يہ تو مذکور ہے کہ آپ وہاں نماز قصر کرکے پڑھتے تھے البتہ جمع کرنے کا ذکر کسي نے بھي نہيں کيا ہے ، يہ اس بات کي دليل ہے کہ آپ حالت سفر ميں کبھي جمع بين الصلاتين کرتے تھے اور کبھي جمع نہيں کرتے تھے اور يہي آپ کے عام سفر کا حال تھا کہ آپ جمع نہيں کرتے تھے ،
اور يہ امر بھي واضح رہے کہ جمع بين الصلاتين قصر کي طرح سفر کي سنتوں ميں سے نہيں ہے بلکہ حاجت وضرورت کے پيش نظر اس پر عمل ہو گا خواہ حالت سفر ميں ہو يا حالت اقامت ميں اسلئے کہ ايک بار نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے حالت اقامت ميں بھي جمع کيا ہے تاکہ امت پريشاني ميں نہ پڑے { جيسا کہ صحيح مسلم ميں حضرت عبد اللہ بن عباس سے اور طحاوي ميں حضرت جابر بن عبد اللہ رضي اللہ عنہم سے مروي ہے ،ديکھيئے ارواء العليل } لہذا مسافر اگر حاجت مند ہوتو جمع کريگا خواہ يہ حاجت راہ چلتے ہوئے ہو کہ ٹھہرنا مشکل ہے يا سفر ميں کسي جگہ حالت اقامت ميں کسي اور حاجت کي وجہ سے ہو ، جيسے ظہر يا عشا کے وقت آرام کرنے کا حاجت مند ہے ، چناچہ وہ ظہر کے وقت ميں سفر ميں کسي جگہ ٹھہرا جہاں آرام کرنے کھانے پينے اور سونے کا حاجت مند ہے تو ظہر کو موخر کرکے عصر کے وقت پڑھ سکتا ہے يامغرب کے وقت عشاپڑھنے کا حاجت مند ہے کہ مغرب کے ساتھ پڑھ کر سو جائے تاکہ آدھي رات کو اٹھکر پھر دوبارہ سفر شروع کردے ، يہ اور اسطرح کي حاجت وضرورت کے پيش نظر جمع بين الصلاتين جائز ہے ، البتہ جو شخص شہر يا گاوں ميں کئي دنوں کيلئے مقيم ہے تو يہ شخص اگر چہ قصر کرے گا کيونکہ مسافر کے حکم ميں ہے ليکن جمع نہيں کريگا کيونکہ جمع کي اجازت حاجت کي وجہ سے ہے بخلاف قصر کے کہ وہ نماز سفر کي مستقل سنت ہے ، {ديکھئے الصحيحۃ 1 ص 313، 315 بالاختصار }
ختم شده