ہفتہ واری دروس

فرض نماز کے بعد

حديث نمبر :193

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی

حديث :

عن عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ فِي دُبُرِ الصَّلاةِ إِذَا سَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ يَرْفَعُ بِذَلِكَ صَوْتَهُ لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ لاَ نَعْبُدُ إِلا إِيَّاهُ لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَنَاءُ الْحَسَنُ لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ . صحیح مسلم : 594 المساجد ۔سنن النسائی : 1340 الافتتاح ۔ الدعاء للطبرانی : 681، 2/1107

ترجمه

حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمجب سلام پھیر تے تو نماز کے بعد اپنی جگہ سے اٹھنے سے قبل بلند آواز سے یہ ذکر پڑھتے : لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ -آخر تک

تشريح

اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ اکیلا و یکتا ہے ، اسکا کوئی شریک نہیں ، اسی کی باد شاہی ہے ، ہر قسم کی حمد وستائش کا مستحق وہی ہے ، وہ ہر چیز پر قادر ہے ، گناہ سے بچنے کی توفیق اور نیکی کرنے کی قوت اللہ تعالی ہی سے حاصل ہوتی ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ، ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں ، سب نعمتیں اسی کی ہیں ، فضل و احسان اسی کا ہے ، اور اچھی تعریف اسی کی ہے ، اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ، ہم پورے اخلاص سے اسکی بندگی کرتے ہیں ، خواہ کافروں کو کتنا ہی نا گوار گزرے ۔ {صحیح مسلم، سنن النسائی،کتاب الدعاء للطبرانی} الفاظ کتاب الدعا ء کےہیں.

ہر قسم کی توحید پر مشتمل یہ کلمات ان اذکار میں سے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد کسی اور کام میں مشغول ہونے سے قبل بلکہ اپنی جگہ سے اٹھنے سے قبل پڑھا کرتے تھے اور پڑھتے ہوئے اپنی آواز کو بلند فرماتے تا کہ جہاں ایک طرف توحید باری تعالی کا اعلان ہو وہیں دوسری طرف صحابہ کرام بھی ان کلمات کو سیکھ لیں ،، ان کلمات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عبارت کا ہر جملہ تو حید باری تعالی پر دلالت کرتا ہے ، اس میں توحید ربوبیت کا بھی ذکر ہے اور توحید الوھیت کا بھی ، توحید اسماء و صفات کا بھی ذکر ہے اور کفار ومشرکین سے برائت کا بھی اعلان ہے ، خاصکر توحید الوھیت و عبادت جسکی طرف دعوت دینے کیلئے خصوصی طور پر تمام رسولوں کی بعثت ہوئی ہے اسکا اعلان تو باربار کیا گیا ہے ، ابتدا بھی تو حید الوھیت سے ہے، درمیان میں توحید الوھیت کا ذکر ہے اور خاتمہ بھی توحید الوھیت پر ہورہا ہے ۔ یہی چیز کچھ اختصار کے ساتھ اس ذکر میں بھی ہے جو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کے بعد جب نماز سے فارغ ہوتے اور سلام پھیر تے تو فرماتے : (لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهْوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ).صحیح البخاری :841 الاذان ، صحیح مسلم 593 المساجد

اللہ تعالی کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے ، اسکا کوئی شریک نہیں ، اسی کی حکومت ہے اور اسی کیلئے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، اے اللہ توجو چیز کسی کو عطاکرے اسے کوئی روکنے ولا نہیں اور جو چیز تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اسکی حیثیت فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور نہ تجھ سے مستغنی کر سکتی ہے { یعنی بڑے سے بڑا سرمایہ دار اور صاحب جاہ و عظمت بھی ہر آن تیرے کرم کا محتاج ہے }

بڑی بد قسمتی ہے کہ توحید واخلاص پر مشتمل یہ اذکار جو دنیا کی صحیح ترین حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں اور ہر انسان کی ضرورت ہیں پھر لوگوں کی بے توجہی ان کی طرف سے عجیب ہے ، بہت سے نمازی تو شاید جانتے بھی نہیں کہ یہ بھی نماز کے بعد کے اذکار میں شامل ہیں اور بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن نماز کے بعد جلد بازی کی وجہ سے اسے چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ لوگ جو پڑھتے ہیں تو اسکے معنی ومدلول پر غور نہیں کرتے اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو فرض نماز کے بعد دعا اور سنت دوسرے کاموں مشغول ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان اذکار کا مقام سنتوں کے بعد ہے جبکہ اولا تو یہ رائے حدیثوں کے سراسر خلاف ہے اور ثانیا ان لوگوں میں شایدہی کوئی ایسا ہو جوسنتوں کے بعد ان اذکار کا ورد کرتا ہو ۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بہتر یہ ہےکہ یہ دعا ئیں اور ذکر الہی کے کلمے سلام پھیر نے کے بعد متصلا بعد والی سنتوں سے پہلے ہی پڑھے جائیں ، کیونکہ اس سلسلے کی بعض حدیثوں میں تو اسکی بالکل تصریح ہے ،۔۔۔۔ اور بعض الفاظ کا ظاہری تقاضا یہی ہے ، ۔۔۔ رہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیر نے کے بعد صرف اللہم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام{صحیح بخاری و مسلم} کہنے کے بقدرہی بیٹھتے تھے تو اسکی کئی تو جھیں کی جاسکتی ہیں ، مثلا کہا جاسکتا ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہے کہ سلام پھیر نے کے بعد آپ نماز کی ہیئت پر صرف اسی قدر بیتھتے تھے اسکے بعد نشست بدل دیتے تھے اور داہنی یا بائیں جانب یا مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھ جاتے تھے ۔ الخ {حجۃ اللہ البالغہ 2/12}

مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ، سلام کے بعد ذکر و دعا کے بارے میں جو حدیثیں اوپر مذکور ہوئیں ان سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے خاتمے پر سلام کے بعد ذکر و دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عملا بھی ثابت ہے اور تعلیما بھی ، اور اس اسے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن یہ جو رواج ہے کہ سلام پھیر نے کے بعد دعا میں بھی مقتدی نمازہی کی طرح امام کے پابند رہتے ہیں حتی کہ اگر کسی کو جلدی جانے کی ضرورت ہو تب بھی امام سے پہلے اسکا اٹھ جانا برا سمجھا جاتا ہے ، یہ بالکل بے اصل بلکہ قابل اصلاح ہے ، امامت اور اقتدا کا رابطہ سلام پھیر نے پر ختم ہو جاتا ہے ، اسلئے سلام کے بعد دعا میں امام کی اقتدا اور پابندی ضروری نہیں ہے ۔ {معارف الحدیث 3/318}

ترجمه

1۔ دین اسلام میں تو حید کی اہمیت ۔

2۔ اس حدیث میں مذکور ذکر اور اس طرح کے دیگر مسنون اذکار نماز کے فورا بعد اور سنتوں سے پہلے مسنون ہیں ۔

3۔ نماز کے بعد صرف کلمہ طیبہ کے ورد اور خود ساختہ صلاۃ وسلام کا اجتماعی طریقہ غیر مسنون اور بدعی طریقہ ہے ۔

4۔ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت نہیں ہے لہذا قابل اصلاح ہے ۔

زر الذهاب إلى الأعلى