ہفتہ واری دروس

جشنِ سال نو 2012؟؟

حديث نمبر :195

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی

حديث :

عَنْ أَنَسٍ بن مالك قَالَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم- الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا فَقَالَ « مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ ». قَالُوا كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِى الْجَاهِلِيَّةِ. فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ ». {سنن ابو داود:1134 الصلاۃ، سنن النسائی :3/179 ، مسند احمد :3/103 }

ترجمه :

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت ہمارے دو دن ایسے تھے جن میں ہم کھیل کود کرتے تھے {بطور عید مناتے تھے }آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال فرمایا : ان دونوں دنوں کی کیا حقیقت ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا عہد جاہلیت میں ہم کھیل کود کیا کرتے رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تبارک وتعالی نے ان دونوں دنوں کو بدل کر تمھیں ان سے بہتر دو دن عطا کئے ہیں ، عید الاضحی اور عید الفطر کے دن ۔ {سنن ابو داود ، سنن النسائی ، مسند احمد }

تشریح :

سن 2011ء رخصت ہوا اور سن 2012 ء نے اپنا ڈیرہ ڈالا ، کافروں کے اس نے سال کی آمد پر دنیا بھر میں جشن منائے گئے ، غیر مسلموں نے تو اس نئے سال کی آمد پر عید منائی اور یہ انکا حق بنتا ہے ، البتہ مسلمانوں نے بھی انکی اس عید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اگر یہ کھا جائے تو غلط نہ ہوگا مسلمان اس بارے میں غیر مسلموں سے آگے رہے حتی کہ اس مناسبت سے جس مصنوعی درخت کی پوجا کی جاتی ہے وہ ہر ملک اور ہر علاقے میں وہاں کی ثقافت واقتصاد کے لحاظ سے بنتا ہے اس سال وہ مصنوعی درخت سب سے زیادہ مہنگا ایک خلیجی ملک میں بکا ہے مسلمانوں کی یہ دلچسبی جہاں ایک طرف ان کے لئے شرمناک ہے وہیں خطرناک بھی ہے ، شرمناک اسلئے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالی نے جو عزت بخشی ہے اسکا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان قائد ، متبوع اور پیشوا بن کر رہیں نہ کہ انکی حیثیت ذلیل اور تابع کی ہو ، کیونکہ یہ سال نہ مسلمانوں کا سال ہے ، نہ نبیوں کی تاریخ ہے اور نہ ہی دنیا میں کوئی نبی اس میلاد ی تاریخ پر اعتماد کرتا تھا بلکہ اللہ تعالی کی مقرر کردہ تاریخ وہ ہے جسے قمری ، ہجری یا اسلامی سال کہا جاتا ہے اسکی سب سے واضح دلیل یہ فرمان الہی ہے : { إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ } ۔ الآیہ{التوبہ : 36 } مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے ، اس دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ، ان میں سے چار حرمت وادب والے ہیں یہی مستحکم طریقہ ہے ۔

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قمری سال ہی اصل جنتری ہے اور اسی پر اعتماد درستدین اور مستحکم طریقہ ہے ، اسکے علاوہ کوئی بھی دوسری جنتری نو ایجاد اور بدعت ہےاسی لئے ہمیشہ سے علمائے حق اس ہجری سال کے علاوہ کسی اور سال پر اعتماد سے روکتے اور منع فرماتے رہے ہیں۔ مشہور مفسر قرآن اور متکلم امام رازی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اہل علم کا کہنا ہے کہ اس آیت کی روشنی میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنی خرید وفرخت ، لین دین کی مدت کی تعیین ، زکاۃ کی ادائیگی اور دوسرے تمام احکام میں عربی سال کا اعتبار رکھیں ، انکے لئے رومی عجمی سالوں کا اعتبار جائز نہ ہوگا {تفسیر الرازی 8/55} پھر یہ کسقدر شرم کی بات ہے کہ مسلمان اپنے ملک میں ایک ایسے سال کا استقبال اسقدر اہتمام سے کریں جو ان کا اپنا سال نہیں ہے یہ کسقدر ذہنی غلامی کی بات ہے کہ وسائل اعلام پر قابض نام نہاد مسلمان اپنی شرعی عیدوں کی آمد پر اسقدر توجہ نہیں دیتے جو توجہ اور اہتمام اس کافروں کی عید اور انکے نئے سال کی آمد پر دے رہے ہیں ۔

یہ معاملہ خطرناک اسلئے کہ اس نئے سال کی تقریبات میں شریک ہونا ، اس پر خوشی کا اظہار کرنا ، اسے اپنے شہروں میں منتقل کرنا یہ ایسے امور ہیں جو غیر مسلموں کی مشابہت میں داخل ہیں بلکہ یہ ایسی مشابہت ہے کہ اگر اسے اپنی عید وں، اسلامی سالوں اور اسلامی منہج سے اچھا سمجھا گیا تو خطر ہ ہے کہ انسان کا فر ہو جائے گا ہم اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے ذیل میں آٹھویں صدی کے دو اماموں کا قول نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔

امام ذہبی رحمہ اللہ غیر مسلموں کی عید میں شرکت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :” اے مسلمان ؛ اللہ نے تیرے اوپر واجب کیا ہے کہ رات و دن میں سترہ بار اللہ سے دعا کر کہ تجھے صراط مستقیم پر گام زن رکھے جو اسکے انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے ، او جن پر اسکا غضب نازل ہو ا اور جو لوگ گمراہ ہوئے ایسے لوگوں کے راستے سے بچائے ۔ تو تیرے دل کو یہ کیسے اچھا لگتا ہے کہ جن کی یہ صفت ہو ااور وہ جہنم کا ایندھن ہو ں تو ان کی مشابہت کرے ۔ اگر تجھے کہا جائے کہ کسی بڑھئی یا ہیجڑے کی مشابہت کرے توتو اس کام سے بدکے گا ،جبکہ تو اقلف {یعنی نصاری }کی عید کےموقع پر صلیب {کراس نشان }کی پوجا کرنے والے کی مشابہت کررہا ہے ، اپنے بچوں کونئے کپڑے پہنا رہا ہے ، انہیں خوشیوں میں شریک کررہا ہے ، ان کے لئے انڈے رنگ رہا ہے ، خوشبو خرید رہا ہے اور اپنے دشمن کی عید کے موقع پر ایسی خوشیاں منارہاہے جیسے اپنے نبی کریم کی عید پر منایا کرتا ہے ۔ تو سوچ کہ اگر تونے ایسا کیا تو یہ عمل تجھے کہاں لے جائے گا ؟ اگر اللہ نے معاف نہ کیا تو اللہ کے غضب اور ناراضگی کی طرف لے جائے گا { تشبیہ الخسیس باھل الخمیس }

امام قیم رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب احکام اھل الذمہ میں لکھتے ہیں : شعائر کفر سے متعلقہ کاموں پر مبارکباد پیش کرنا با جماع امت حرام ہے ، مثلا کافروں کی عید اور روزہ کی مناسبت سے یہ کہتے ہوئے مبارکباد پیش کرنا کہ آپ کو عید مبارک ہو ، یہ عید تمہارے لئے خوش آئند ہو وغیرہ وغیرہ ، ایسا کہنے والا اگر کافر ہونے سے بچ بھی جائے لیکن حرام کا مرتکب ضرور ہوگا ، ایسا کرنا شراب پینے ، قتل کرنے اور زنا کا ری پر مبارک باد پیش کرنے سے بھی زیادہ بڑا گناہ اور رب کی ناراضگی کا سبب ہے ، بہت سے لوگ جنہیں دین کی قدر معلوم نہیں ہے وہ ایسے کاموں میں مبتلا ہو جاتے ہیں حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ کتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں ، اسلئے جو شخص گناہ ، بدعت اور کفر کی مناسبت سے کسی بندے کو مبارکباد دے رہا ہے وہ اپنے آپ کو اللہ کے غضب اور ناراضگی کا مستحق بنا رہاہے ۔

بہت سے لوگوں کو یہاں سے شبہ ہوتا ہے کہ عید وں اور تاریخوں کا معاملہ بالکل عادی امور میں سےہے جسمیں مسلمانوں پر کسی چیز کی پابندی نہیں ہے حالانکہ زیر بحث حدیث پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ زمانہ جاہلیت کی عیدوں کو باقی نہ رکھنا جبکہ انکے منانے والے سبھی لوگ مسلمان ہو گئے تھے اور انہیں بدلکر دوسرے دو دن متعین کرنا یہ صاف مفہوم رکھتا ہے کہ مسلمان عید کے مقابلے میں آزاد نہیں بلکہ شریعت کے پابند ہیں ۔

فائدے :

1 ۔ اسلام میں عید کا معاملہ خالص شرعی امر ہے ۔

2۔ جسطرح عبادت کے معاملے میں کافروں کی مشابہت جائز نہیں ہے اسی طرح عیدوں میں بھی انکی مشابہت جائز نہیں ہے ۔

3۔ کافروں کی عیدوں میں شرکت ، ان میں کسی بھی قسم کا تعاون ان سے مشابہت میں داخل ہے ۔

زر الذهاب إلى الأعلى