بازار جانےکے آداب
حديث نمبر :196
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی
حديث :
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه:أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : [من دخل السوق فقال لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير وهو على كل شيء قدير كتب الله له ألف ألف حسنة ومحا عنه ألف ألف سيئة ورفع له ألف ألف درجة]. {سنن الترمذی : 3428 الدعوات، سنن ابن ماجہ : 2235 التجارات ، مسند احمد 1/47}
ترجمه :
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص بازار میں داخل ہو اور یہ [درج ذیل ] ذکر پڑھے لے تو اللہ تعالی اسکے نامئہ اعمال میں دس لاکھ نیکیاں لکھ دیتا ہے ، اسکے دس لاکھ گناہ مٹادیتا ہے ، اور اسکے دس لاکھ درجات بلند کرتا ہے ۔ [سنن الترمذی ، سنن ابن ماجہ ، مسند احمد۔]
تشريح :
بازار ایک ایسی چیز ہے جس سے تقریبا ہرشخص کا سابقہ پڑتا ہے بلکہ بازار کسی بھی معاشرے اور مجتمع کی ایک اقتصادی اور معاشرتی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر قوم میں بازار کا وجود رہا ہے حتی کہ صرف شہروں ہی میں نہیں بلکہ دیہاتوں میں بھی بازار و منڈی کا اہتمام ہوتا رہا ہے ، جہاں لوگ اپنی ضروریات کی چیزیں خریدتے ، بیچتے اور ادھر ادھر سے آئے ہوئے لوگوں سے متعارف ہوتے ہیں ،حتی کہ اللہ کے افضل ترین بندے بھی بازاروں سے اپنا ایک گونہ تعلق رکھتے تھے {وما ارسلنا قبلک من المرسلین الا انہم لیاکلون الطعامویمشون فی الاسواق}ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانابھی کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھر تے تھے ۔[الفرقان :20] لیکن اسمیں کوئی شک نہیں کہ بازار انسان کی صرف ایک ضرورت ہے اسکی فضیلت نہیں ہے کیونکہ بازار شورو شرابا ، جھوٹ ودھوکہ اور فواحش و منکرات کا مرکز ہوتا ہے ، وہاں للھیت کم اور مادیت زیادہ دکھائی دیتی ہے، ذکر الہی کا اہتمام کم سے کم تر اور چھوٹی قسمیں کثرت سے کھائی جاتی ہیں، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بازار کو بد ترین جگہ قرار دیا ہے ۔ ارشاد نبوی ہے :اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب جگہ مسجد یں ہیں اور سب سے نا پسند یدہ جگہ بازار ہیں {صحیح مسلم :671 المساجد بروایت ابو ہریرہ ،} لیکن چونکہ بازار انسان ایک ضرورت ہے لہذا شریعت نے بازار میں داخلے اور وہاں اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے اور بیچنے کی اجازت دی ہے ،البتہ اسکے لئے کچھ آداب رکھے ہیں جسکا پاس و لحاظ رکھنا مسلمان کے لئے بڑ ا اہم ہے ، ان میں سے چند اہم آداب درج ذیل ہیں ۔
1 – بازار ضرورت و حاجت کے تحت جایا جائے : وقت گزارنے اور لوگوں کی بھیڑ دیکھنے کے لئے جا نا مناسب نہیں ہے ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سب سے پہلے بازار میں نہ داخل ہو اور نہ سب سے آخر میں نکلو کیونکہ بازار شیطان کے دنگل ہیں اور شیطان وہیں اپنا جھنڈا گاڑ تا ہے ، [صحیح مسلم :2451] لہذا ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد جلدی بازار سے نکل جائے ۔
2 – دعا نہ بھولے :زیر بحث حدیث میں اسی دعا کا ذکر اور اسکی فضیلت بیان ہوئی ہے ، بظاہر لوگوں کو تعجب ہوگا کہ اس چھوٹے سے عمل پر اتنا بڑا اجر کیا معنی رکھتا ہے ؟ حقیقت تو اللہ تعالی کو معلوم ہے لیکن شاید اولا اسکی وجہ کلمہ توحید کی فضیلت و برکت ہے، اور ثانیا چونکہ بازار ذکر الہی سے غفلت کی جگہ ہے ، جہاں جاتے ہوئے ہر شخص کی توجہ اپنی ضرورت کی طرف ہوتی ہے لہذا ایسے وقت میں اللہ تعالی کا ذکر بڑی اہمیت رکھتا ہے ، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث میں اسی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص بازار میں داخل ہو لوگوں کی غفلت اور مشغولیت کے وقت میں اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالی اسکے نامئہ اعمال میں دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور قیامت کے دن اسکو ایسی مغفرت سے نوازے گا کہ لوگوں کے وہم گمان میں بھی نہ ہوگی ، [شرح السنۃ : 1339]
3 – نظر نیچی رکھے : بازار میں باپردہ اور بے پردہ دونوں قسم کی عورتیں ہوتی ہیں ، مسلم وکافر ہر قسم کی عورتیں آتی ہیں ،بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جنکا دیکھنا مسلمان کے لئے مناسب نہیں ہوتا لہذا ایک مسلمان سے مطالبہ ہے کہ ایسے حالات میں اپنی نظر کو نیچی رکھے ، صحابہ کرام نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عامراستوں اور بازاروں کی مجالس میں بیٹھنے کی اجازت چاہی تو آپ نے جن شرطوں کے ساتھ اجازت دی تھی ان میں ایک شرط نظر نیچی رکھنا بھی شامل ہے ،[صحیح البخاری ]
4 – ہر بازار داخلہ کے لائق نہیں ہوتا :بہت سے بازار ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں فواحش ومنکرات کی دعوت عام ہوتی ہے ، حدود الہیہ کی پامالی بڑی دلیری کے ساتھ کی جاتی ہے وغیرہ لہذا ایسے بازاروں میں داخلے سے پر ہیز ضروری ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم ِ خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ : اے انس ” لوگ شہروں کو آباد کریں گے انہیں شہروں میں سے ایک شہر بصرہ ہوگا اگر وہاں سے تمھارا گزر ہو یا تمھا را داخلہ ہو تو وہاں کی شور والی زمین، سر سبز زمین ، کھجوروں کے باغات ، نوابوں کے محل اور اسکے بازاروں سے دور رہنا اور اس شہر سے کناروں میں رہائش اختیار کرنا کیونکہ وہاں کے لوگوں کی شکلیں بدل دی جائے گی ،ان پر پتھروں کی بارش ہوگی اور کچھ لوگ [بے حیائی و فحاشی کے کاموں میں ] رات گزاریں گے تو صبح ہوتے ہوتے انکی شکلوں کو سور اور بندروں کی شکل سے بدل دیا جائےگا [سنن ابو داود]
5 – متانت وسنجیدگی کو لازم پکڑیں : بازار شوروشرابا، چیخ و پکار اور نعرہ بازی کی جگہ ہوتی ہے لیکن یہ چیزیں متانت و سنجیدگی اور حسن اخلاق کے خلاف ہیں ، تو رات وغیرہ پچھلی کتابوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صفت یہ بھی مذکور ہے کہ آپ بازار میں شورو شرابا کرنے والے نہ ہونگے[صحیح البخاری ] نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی ہر متکبر ، پیٹو اور بازاروں میں شور وشرابا کرنے والے سے بغض رکھتا ہے … الحدیث [صحیح ابن حبان ]
6 – ایک نبوی وصیت :حضرت قیس بن ابی عزرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ بازار میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : لغو باتیں اور قسم کھانا اس بازار کا حصہ ہے لہذا اسے تم صدقہ سے ملا دو [سنن النسائی : 7/15، مسند احمد 4/6 ]
فائدے :
1 – بازار میں داخلہ کے کچھ اداب ہیں جنکا پاس و لحاظ بہت ضروری ہے ۔
2 – کلمئہ توحید کی فضیلت و اہمیت کہ وہ گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا سبب ہے ۔
3 – جس وقت اور جس جگہ لوگ اللہ کے ذکر سے غافل ہوں وہاں اللہ کے ذکر کا اہتمام بڑی عظیم نیکی ہے ۔