اللہ کے ساتھ حسن ظن
حديث نمبر :199
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
حديث :
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأنصاري قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَبْلَ مَوْتِهِ بِثَلاَثَةِ أَيَّامٍ يَقُولُ « لاَ يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلاَّ وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ». { صحیح مسلم :2877 ، مسند احمد :3/293، ابو داود:3113الجنائز}
ترجمہ :
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے تین دن قبل یہ فرماتے ہوئے سنا ، تم میں سے کسی شخص کو ہر گز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔ {صحیح مسلم ، مسند احمد ، سنن ابو داود}
تشریح :
اللہ تبارک وتعالی ہی اس دنیا کا خالق و مربی ہے ، وہی تمام مخلوقات کی ہر قسم کی ضروریات پوری کرتا ہے ، وہی گناہوں سے تجاوز فرماتا اور توبہ قبول کرتا ہے ، اسی کا فرمان ہے کہ میں بندوں کی دعا قبول کرتا ہوں ، اسی کا فرمان ہے کہ ((قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ)) ۔ [الزمر :53]{میری جانب سے } “کہہ دو: اے میرے بندو !جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاو،یقین مانو اللہ تعالی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، واقعی وہ بڑی بخشش اور بڑی رحمت والا ہے” ،حتی کہ اگر یہ کہا جائے تو صد فیصد صحیح ہوگا کہ وہ اپنے بندوں پر انکی ماوں سے بھی زیادہ مہر بان ہے،چنانچہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی لائے گئے جنمیں ایک بچے والی عورت تھی جسکا بچہ اس سے بچھڑ گیا تھا وہ قیدیوں میں جس بچے کو بھی پاتی اسے اپنے سینے سے چمٹاکر اپنی چھاتی سے لگالیتی اور دودھ پلاناشروع کر دیتی ، یہ دیکھکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تمھارا کیا خیال ہے کہ یہ عورت اپنے بچے کو آ گ میں پھینک دے گی ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ اگر اسکے بس میں ہوگا تو وہ کبھی بھی اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالے گی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقین مانو ! اللہ تعالی اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے ، [صحیح بخاری وصحیح مسلم بروایت عمر] پس جو اللہ اسقدر مہربان ہو اسکے بارے میں بدگمانی کا شکار ہونا کسی مسلمان کا عمل نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن اور اچھا گمان رکھے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی اسکے ساتھ رحمت و احسان کا معاملہ کرے گا دنیا وآخرت میں اسے اچھا بدلہ دیگا ، اللہ تعالی اسے کبھی بھی ضائع وبرباد نہیں کریگا گویا ہر حال میں بندے کو اللہ تعالی سے اچھی اور اچھے کی امید رکھنی چاہئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زند گی میں مسلمانوں کو اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن کی تلقین کیا کرتے تھے اور فرماتے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کروں گا جیسا وہ میرے بارے میں گمان رکھے گا اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں [صحیح بخاری و صحیح مسلم بروایت ابو ہریرہ] حتی کہ اپنی وفات کے وقت جن اہم باتوں کی مسلمانوں کو وصیت کی اسمیں سے ایک وصیت یہ بھی تھی کہ اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن رکھا۔
زیر بحث حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی وصیت کا ذکر ہے کہ بندے کو ہر وقت اللہ تعالی سے اچھی امید رکھنی چاہئے خواہ اپنی ذات سے متعلق ہو، کسی مسلمان سے متعلق ہو یا مسلمان قوم و اسلام سے متعلق ہو ، خاصکر اگر کسی مسلمان کی موت کا وقت ہے تو اسے اللہ تعالی سے عفو و رحمت اور مغفرت و بخشش کی خصوصی امید رکھنی چاہئے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن کا یہ معنی نہیں ہے کہ بندہ عمل نہ کرے ، طاعت و عبادت سے کنارہ کش رہے ، نافرمانی پر نافرمانی کرتا جائے اور پھر امید رکھے کہ اللہ تعالی اسکے ساتھ اچھا سلوک کرے گا یہ حسن ظن نہیں بلکہ حماقت و بچکانہ حرکت ہے ،یاد رکھیں کہ ” جس طرح بغیر ہل چلائے اور بیج بوئے فصل کی پیدا وار کی امید رکھنا حماقت ہے اسی طرح اعمال صالحہ کے بغیر اللہ تعالی سے اچھی امید وابستہ کرنا بھی نادانی ہے ” بلکہ حتی الامکان اللہ تعالی کے حقوق کی ادائیگی کے بعد حسن ظن رکھنا ہی اصل ایمان ہے ۔
حسن ظن کے مقام : لہذا ہر مسلمان کو توجہ دینی چاہئے کہ حسن ظن کا موقعہ و محل کیا ہے ۔
﴿1﴾ اللہ تعالی دعا قبول فرمائے گا : اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ بندے کی دعا قبول کرتا ہے لہذا دعا کے آداب شرائط کے ساتھ جو دعا کی جائے اسکے قبولیت کی پوری امید رکھنا یہی اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن ہے ۔
﴿2﴾ عبادت و اعمال صالحہ کی قبولیت : اللہ تعالی بندوں کے نیک اعمال قبول کرتا اور انہیں اسکا اچھا صلہ دیتا ہے لہذا اگر کوئی بندہ کوئی بھی نیک عمل کرتا ہے یا کوئی عبادت بجا لاتا ہے تو اسکے قبولیت کی پوری امید رکھنا اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن ہے ،
﴿3﴾ توبہ کی قبولیت : ہر انسان سے غلطی ہوتی ہے اور بسا اوقات بڑی بھیانک غلطی ہوتی ہے لیکن اسکے رب غفور نے تمام غلطیوں کی معافی کا وعدہ دیا ہے لہذا گناہوں ں کے بعد توبہ و استغفار کرنا اور پھر معافی کی امید رکھنا اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن ہے ، ((أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ…)) ۔۔۔” کیا انھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالی بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے” ۔
﴿4﴾ موت کے وقت : اپنی زندگی کے آخری مرحلےمیں مومن کو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اب جبکہ ہم اس دنیا سے جارہے ہیں تو اللہ تعالی سے پوری امید ہے کہ جس طرح اس نے دنیا میں میرے گناہوں پر میری گرفت نہیں کی اور میرے عیوب پر پردہ ڈالتا رہا ہے ،اسی طرح موت کے بعد بھی وہ میرے ساتھ خیر ہی برتاو کریگا ،ایسے وقت میں اللہ تعالی کی شان کریمی پر نظر رکھنا اسکے ساتھ حسن ظن ہے ۔
﴿5﴾ مصائب و شدائد کے وقت : انسان پر خواہ کتنے ہی مشکل وقت آئیں ، وہ خواہ کتنی ہی بڑی مصیبت میں مبتلا ہو لیکن اسے یہ یقین رکھنا چاہئے کہ یہ حالت اسکے لئے بہتر ہے اور ایک نہ ایک دن ہمارا رب رحیم وکریم ہمیں اس سے نجات دیگا ، یہ اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن ہے ۔
فوائد :
1] اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن بڑی اہم عبادت ہے ۔
2] موت کے وقت حسن ظن کی اہمیت ۔
3] امت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی ۔