(حديث نمبر 201) غيبت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :201
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
حديث :
عن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أتدرون ما الغيبة؟ قالوا : اللهُ ورسوله أعلم ، قال : ذكرك أخاك بما يكره ، قيل : أفرأيت إن كان في أخي ما أقول ؟ قال : إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته ، وإن لم يكن فيه ما تقول فقد بهته . [صحیح مسلم :2589 البر، سنن ابو دود : 4874 الادب ، سنن الترمذی : 1935 البر ]
ترجمہ :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جوا ب دیا ، اللہ اور اسکے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارا اپنے کسی بھائی کا اس انداز میں ذکر کرنا جس سے اسکو ناگواری ہو ۔ آپ سے پوچھا گیا ، آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو میں کہہ رہا ہوں [تو یہ بھی غیبت ہے ]؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر اس میں وہ عیب موجود ہے جس کا ذکر تم کر رہے ہوتو یہی غیبت ہے جو تم نے اسکی کی ہے اور اگر اس میں وہ عیب موجود نہیں جو اسکی بابت کہہ رہے ہو تو پھر تو نے اس پر بہتان باندھا ہے [جو غیبت سے بھی بڑا گناہ ہے ] {صحیح مسلم ، ابو داود ، الترمذی}
تشریح :
آج ہماری محفلوں کی ایک بہت بڑی برائی غیبت ہے ، شاذ و نادر ہی کوئی مجلس نظر آئے گی جس میں غیبت کا دور نہ چلتا ہو ، اور افسوس ا س بات پر ہے کہ لوگ اس امر کی قباحت پر توجہ نہیں دیتے جبکہ قرآن مجید میں غیبت کو ایک بہت ہی گھناونی اور انسانی اخلاق سے بعید چیز سے تشبیہ لی گئے ہے ، ارشاد باری تعالی ہے ؛ “اے ایمان والو ۔۔۔۔۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے ، تم کو اس سے گھن آئے گی” ۔ [الحجرات : 12 ] اور اس پر بھی مصیبت یہ ہے کہ بہت سے لوگ نادانی یا عناد کے طور پر اپنے بھائی کی کوئی برائی بیان کرنے کو غیبت سمجھتے ہی نہیں حلانکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کے معنی و مفہوم کی وضاحت کر دی جیسا کہ زیر بحث حدیث سے واضح ہے کہ غیبت یہ ہے کہ کسی بھائی کی ایسی بات یا اسکے کسی ایسے فعل یا حال کا ذکر کیا جائے جسکے ذکر سے اسے ناگواری اور اذیت پہنچے اور جس کی وجہ سے وہ حقیر وذلیل یا مجرم و کوتاہ سمجھا جائے ، حتی کہ اگر اسکی بیوی ، اسکے بیٹے ، اسکے کپڑے ، اسکی سواری یا اس سے متعلقہ کسی چیز کا عیب بیان کیا جائے اور اسکا مقصد اس مسلمان بھائی کی تحقیر یا کسرشان ہو تو یہ بھی غیبت میں داخل ہے جیسے یہ کہنا کہ فلاں کی بیوی بد چلن ہے اور وہ اس پر توجہ نہیں دیتا ، اسکا لڑکا اوارہ ہے اور وہ اسکی تربیت پر توجہ نہیں دیتاوغیرہ ۔ چونکہ غیبت سے ایک مسلمان بھائی کی رسوائی اور بے آبروئی ہوتی ہے اسے روحانی اذیت پہنچتی ہے ، اور دلوں میں بیگاڑ و فساد کا بیج پڑتا ہے جس کے نتائج باہمی لڑائی ، دشمنی اور ایک دوسرے سے قطع تعلق کی شکل میں ظاہر ہو تے ہیں اسلئے اسلام نے اسے نہایت ہی قبیح ،گھناونی اور عام انسانوں کے نزدیک قابل نفرت چیز سے تشبیہ دی ہے۔ یہ غیبت کس قدر ناپسند یدہ اور اللہ و رسول کے نزدیک خسیس حرکت ہے اسکا اندازہ عہدے نبوی کے اس واقعہ سے ہوتا ہے ۔
خادم رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل عرب کا یہ دستور تھا کہ سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے اور ان دونوں بزرگوں نے اپنی خدمت کیلئے ایک شخص کو ساتھ لے رکھا تھا ، راستے میں کسی جگہ پڑاو ڈالا گیا ، جہاں حضرات شیخین آرام کر نے کیلئے لیٹے اور سو گئے ، امید تھی کہ جب بیدار ہونگے تو کھانا تیار رہے گا ، لیکن ہوا یہ کہ خادم بھی آرام کیلئے لیٹا اور نید لگ گئ ، جب شیخین بیدار ہوئے تو دیکھا کہ خادم نے کھانا تیار نہیں کیا ہے بلکہ وہ بے خبر سورہا ہے ، یہ دیکھ کر ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا ، یہ تو ایسا سورہا ہے جیسے کوئی اپنے گھر پر اطمینان سے سوتا ہے چناچہ اسے بیدار کیا اور کہا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر ان سے ہمارا سلام کہو اور عرض کرو کہ ابو بکر وعمر سالن طلب کر رہے ہیں ، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر عرضی پیش کرتا ہے تو آپ نے فرمایا : جاو ان دونوں سے میرا سلام کہو اور بتلادو کہ تم دونوں نے سالن کھا لیا ہے ، خادم نے جب آکر شیخین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنایا تو وہ دونوں گھبرا گئے اور آپ کی خدمت میں جلدی سے حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسول ہم نے آپ کے پاس سالن کیلئے بھیجا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ تم دونونےسالن کھا لیا ہے ، آخر وہ کونسا سالن ہے جسے ہم لوگوں نے کھا یا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کا گوشت بطور سالن کے استعمال کیا ہے [یعنی تم دونوں نے اسکی غیبت کی ہے ] اس ذات کی قسم جس ہاتھ میں میری جان ہے میں اسکا گوشت ابھی بھی تمہارے دانتوں میں دیکھ رہا ہوں ، یہ سن کر شیخین نے عرض کیا ! اے اللہ کے رسول ہم سے غلطی ہو گئی آپ ہمارے لئے دعائے استغفار کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاو اپنے اس بھائی سے جسکی غیبت کی ہے کہو کہ وہ تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرے ۔ [الصحیحہ للالبانی : 2608]
اس سچے واقعہ سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ پیٹھ پیچھے اپنے بھائی کوئی برائی بیان کرنا کسقدر قبیح ہے ، ؟ ۔ اے عقلمندو ! اس وقعہ سے عبرت حاصل کرو ۔
فائدہ :
[1] غیبت گناہ کبیرہ اور بھائیوں میں اختلاف کا ایک بہت بڑا سبب ہے ۔
[2] کوئی کتنا ہی بڑا اور اللہ کا ولی ہو اس سے خطا کا سرزدہونا ممکن ہے ۔
[3] بندوں کی عبرت کیلئے اللہ تبارک وتعالی بعض مثالوں کو محسوس شکل دےدیتا ہے ۔
[4] جسکی غیبت کی جائے معاف کرنے کا حق اسی کو حاصل ہے ۔