– جشن میلاد النبی سے متعلق ایک قدیم فتوی
امام ابو حفص تاج الدین عمر بن علی الفاکہانی متوفی 734ھ ساتویں صدی کے آخر اور آٹھویں صدی کے ابتدا کے ایک مشہور مالکی امام ہیں ، ان سے جشن عید میلاد النبی منانے سے متعلق سوال کیا گیا ، جس کا جواب امام موصوف نے بڑے ہی اختصار اور جامع انداز میں دیا افادہٴ عامہ کے لئے اس کا ترجمہ پیش ناظرین ہے ۔
—————————————————-
سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں سید المرسلین کے اتباع کی توفیق بخشی ، دین کے بنیادی کاموں کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی ، سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنا ہمارے لئے آسان بنایا ،یہاں تک کہ ہمارے دلوں کو علم شرع کے نور سے منور کردیا اور ہمارے باطن کو دین میں بدعتوں، نت نئے امور کے ایجاد سے پاک وصاف رکھا ۔
ہم اللہ تعالی کی تعریف کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں نور یقین کی دولت عنایت فرمائی اور اس بات پر اس شکر ادا کرتے ہیں کہ مضبوط رسی [قرآن مجید ] کو سختی سے تھامے رہنے کی نعمت سے نوازا ، ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے ،وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ، اولین و آخرین کے سردار ہیں ۔
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و اصحابہ وازواجہ الطاھرات امہات المومنین صلاۃ و اغۃ الی یوم الدین ۔
سوال : اما بعد ! مبارک لوگوں کی ایک جماعت نے مجھ سے بار بار یہ سوال کیا کہ ربیع الاول کے مہینے میں بعض لوگ جو جشن مناتے اوراسے میلاد کا نام دیتے ہیں کیا اس کی شریعت میں کوئی حقیقت ہے، یا یہ بدعت اوردین میں ایجاد کردہ کوئی نئی چیز ہے ؟ ، مجھ سے اس کا واضح جواب چاہا اورخصوصی طور پر اس کی وضاحت چاہی ۔
اللہ کی توفیق سےاس کے جواب میں کہتا ہوں کہ میں نہیں جانتا کہ کتاب الہی اور سنت رسول میں اس کی کوئی اصل ہو ، اور نہ ہی وہ علماء جو دین میں اسوہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور سلف صالحین کے نشان قدم پر سختی سے جمے رہے ہیں ان سے کوئی ایسی چیز منقول ہے بلکہ یہ ایک بدعت ہے جسے بےکار گھومنے پھرنے والے لوگوں سے ایجاد کیا ہے اور یہ ایک خواہش نفس ہے پیٹو لوگوں نے جس کا اہمتام کیا ہے ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اس عمل کو جب ہم دین کے احکام خمسہ پر پیش کریں اور کہیں کہ یہ کام واجب ہوگا یا مستحب ہوگا یا جائز ہوگا ، یا مکروہ ہوگا یا پھر حرام ہوگا تو باجماع علماء نہ یہ واجب ہے نہ مستحب ، کیونکہ مستحب وہ کام ہے جس کے کرنے کا شریعت ہم سے مطالبہ کرتی ہو ، البتہ اس کا تارک قابل مذمت نہیں ہے ۔
جب کہ یہ ایسا عمل ہے کہ میرے علم کے مطابق نہ تو شریعت نے اس کی اجازت دی ہے ، نہ صحابہ نے اس پر عمل کیا ہے ، نہ تابعین نے ایسا کیا ہے اور نہ ہی دین پسند علماء سے ایسا کرنا ثابت ہے ، اگر مجھ سے پوچھا گیا تو قیامت کے دن اللہ تعالی کے سامنے میرا یہی جواب ہوگا ۔
اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ یہ عمل جائز ہو اس لئے کہ باجماع مسلمین دین میں کسی بدعت کا ایجاد کرنا جائز نہیں ہے ، اب صرف یہ باقی رہ جاتا ہے کہ یہ کام مکروہ ہو یا حرام ، اس طرح اس موضوع پر گفتگو دو فصلوں میں کی جاتی ہے اور اس کی دو مختلف حالتیں بنتی ہیں ۔
[۱] پہلی حالت یہ ہے کہ ایک شخص اپنے ذاتی مال سے اپنے اہل وعیال اور ساتھیوں کے لئے کھانے پینے کا انتظام کرے اور معاملہ اس سے آگے نہ بڑھے، بلکہ صرف کھانے پر لوگ اکٹھا ہوں اور اس میں کسی بھی خلاف شرع کام کا ارتکاب نہ کیا جائے اس صورت میں ہم اسے ایک ناپسندیدہ اور بری بدعت کا نام دیں گے ، کیونکہ یہ ایسا عمل ہے جو کسی صاحب دین عالم نے نہیں کیا ہے حالانکہ وہ لوگ ، فقہائے اسلام ، اور علمائے انام تھے ، ان کی حیثیت زمانے کے لئے چراغ اور وہ زمین کےلئے باعث زینت تھے ۔
[۲] دوسری حالت یہ ہے کہ اس کام میں مخالف شرع کام شامل ہوا اور اس کے لئے [چندہ کرکے ] مال جمع کرنے کا اہتمام کیا جائے ، حتی کہ اگر کوئی شخص کچھ دیتا بھی ہے تو اس کا نفس اس پر ملامت کر رہا ہے اور اس سے تکلیف والم محسوس کرتاہے کیونکہ اسے وہ ظلم سمجھتا ہےاسی لئے ، اہل علم کہتے ہیں کہ شرم {کرکے دئے گئے } مال کا لینا بعینہ ویسا ہی ہے جیسے کسی سے زبردستی مال لیا جائے ، خاص کر اگر اس کھانے پینے کے ساتھ ساتھ ، گانے ، موسیقا ، طبلہ اور سارنگی وغیرہ بھی ہوں ، مردوں اور بے ریش خوبصورت نوجوانوں کا اجتماع ہو { گیت اور قوالی } گانے والی عورتیں ہو ں ، خواہ وہ مردوں سے جدا بیٹھی انہیں دیکھ رہی ہوں یا ان کے ساتھ ہوں ، خم وبیچ کےساتھ ناچ ہو اور حساب {آخرت } کے دن کو بھولے ہوئے لوگ کھیل وتماشا میں مشغول ہوں ، اسی طرح اگر عورتیں الگ بھی بیٹھ کر بلند آواز سے نظمیں پڑھیں ، ذکر وتلاوت کرتے ہوئے مشروع معتاد طریقے سے تجاوز کرجائیں اور اس فرمان الہی سے غافل ہوں :”ان ربک لبالمرصاد “[14] تو اس کابھی یہ حکم ہے ۔
یہ وہ چیز ہے جس کی حرمت سے متعلق دو اہل علم کا بھی اختلاف نہیں ہوسکتا اور نہ ہی صاحب مروءت و باغیرت لوگ اسے اچھا سمجھیں گے ، یہ تو صرف انہیں لوگوں کے نزدیک حلال ہوگا جن کے دل مردہ ہوچکے ہوں ، گناہ و نافرمانی کے کام کی کوئی پرواہ نہ ہو ، اس پر مزید کہ یہ لوگ اسے عبادت اور ثواب کا کام سمجھتے ہیں اور اسے حرام اور منکر تصور نہیں کرتے ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون { سچ فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے } اسلام کی ابتدا کسمپرسی کی حالت سے ہوئی اور عنقریب اسی حالت پر پلٹ آئےگا جس پر اس کی ابتداء ہوئی تھی ۔
کیا خوب کہا ہے ہمارے شیخ القشیری رحمہ اللہ نے : {ان کے شعر کا ترجمہ }
” ہمارے اس پریشان کن زمانے میں معروف منکر ہوگیا اور منکر کو لوگ معروف سمجھ بیٹھے ہیں ، اہل علم ذلیل وخوار تصور کئے جاتے ہیں اور جاہلوں کو اونچے مقامات حاصل ہیں ، لوگ حق سے بھٹک چکے ہیں اور جس {عمل وعقیدہ کی وجہ سے } انہیں دنیاکی سرداری ملی تھی اس سے انہیں کوئی نسبت نہیں ہے ۔
پھر پرہیزگار ونیکوکار لوگوں پر حالت سخت سے سخت ہوئے تو تسلی دیتے ہوئے میں نے کہا :
حالات سے پریشان نہ ہو کسمپرسی و اجنبیت کا زمانہ ہی آپ لوگوں کا مقدر ہے ۔۔
اور کیا ہی خوب کہا ہے امام ابو عمرو بن العلاء رحمہ اللہ نے : جب تک لوگ عجیب امر سے تعجب کرتے رہیں گے بخیر رہیں گے ۔
اسی کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں ذہن نشین رہنی چاہئے کہ جس مہینے ، ربیع الاول میں آپ کی پیدائش ہے بعینہ وہی مہینہ ہے جس میں آپ کی وفات ہے تو خوش ہونا غمگیں ہونے سے زیادہ قابل لحاظ نہیں ہے ۔
مجھے صرف یہی کہنا تھا اور اللہ تعالی سے حسن قبول کی امید ہے ۔
ختم شدہ