– حضرت حسین کی شہادت کا واقعہ
حضرت عمار الدھنی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب الباقر رحمہ اللہ سے پوچھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا قصہ مجھے سنائیں تو آپ نے فرمایا : جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ولید بن عقبہ والئی مدینہ کے پاس حسین سے بیعت کے لئے کہا گیا تو آپ نےفرمایا کہ مجھے مہلت دو ، ولید نے نرمی برتی اورع مہلت دیا ۔۔ اس فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے آپ نے راتوں رات مکہ شریف کا رخ کیا جہاں اہل کوفہ کیطرف سے بہت سے خطوط بعض روایات میں ہے کہ ایک لاکھ خط {السیر :3/299 } آپ کے پاس آئے اس وقت کوفہ کے امیر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ تھے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو تحقیق امر کے لئے بھیجا ، اور ان سے کہا کہ جاو اور دیکھو کہ ان لوگوں نے کیا اور کیسے لکھا ہے ۔
مسلم بن عقیل نے دو راہنما اپنے ساتھ لئے اور چلے صحراء میں کہیں پیاس لگی اور ایک راہنما مرگیا جس سے متاثر ہوکر مسلم بن عقیل نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس لکھا کہ انہیں معذور رکھا جائے لیکن آپ نے جواب دیا کہ کوفہ جاؤ اور وہاں کے حالات دیکھو ، حضرت مسلم بن عقیل کوفہ پہنچ کر عوشجہ کے یہاں ٹھہرے ، اہل کوفہ کو جب معلوم ہوا تو بارہ ہزار [ امام ذہبی نے ابن سعد کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ 18 ہزار ] لوگوں نے ان کے ہاتھ پر حضرت حسین کے لئے بیعت کی عبید اللہ بن مسلم نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ اس سلسلے میں نرمی سے کام لے رہے ہیں آپ کو ان لوگوں پر سختی کرنی چاہئے ، حضرت نعمان رضی اللہ عنہنے فرمایا کہ ضعیف و کمزور رہنا میرے لئے اس سے بہتر ہے کہ اللہ کے گناہ کے کاموں میں قوی اور طاقتور رہوں ، جس پردے کو اللہ نے لٹکایا ہے میں اسے پھاڑنا نہیں چاہتا اور اپنی بات یزید کے پاس لکھ کر بھیج دی ،، یزید ان دنوں عبید اللہ بن زیاد سے ناراض تھا پھر اپنی رضامندی کا خط لکھتے ہوئے اس سے کہا کہ میں تمہیں بصرہ کے ساتھ کوفہ کا بھی امیر بناتا ہوں اور اس کے پاس لکھا کہ مسلم بن عقیل کو قتل کردو ، عبید اللہ بن زیاد بصرہ کے کچھ سرداروں کے ساتھ اپنے چہرے کو چھپائے ہوئے کوفہ میں داخل ہوا جس کسی مجلس پر سے بھی اس کا گزر ہوتا تھا اور ان کو سلام کرتا تھا تو لوگ جواب میں کہتے تھے ” وعلیکم السلام یا ابن رسول اللہ ” ۔۔
کیوں کہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ حسین رضی اللہ عنہ ہیں ۔
پھر عبید اللہ بن زیاد نے اپنے ایک غلام کو بلایا اسے تین ہزار درہم دیا اور کہا کہ جاؤ اور اہل کوفہ جس کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں اس کا پتہ لگاؤ ، اور ظاہر کرنا کہ میں اجنبی ہوں اور یہ پیسہ اس لئے لے کر آیا ہوں کہ آپ اس سے تقویت حاصل کریں ۔۔
غلام نکلا اور پتہ لگاتے لگاتے ایک ایسے بوڑھے کے پاس پہنچا جو بیعت لیا کرتا تھا جس نے اسے مسلم بن عقیل کے پاس پہنچا دیا غلام نے مسلم بن عقیل کو وہ درہم دیئے بیعت کی اور واپس آکر عبید اللہ بن زیاد سے ساری باتیں بتلادی ۔۔
وہاں سے مسلم ہانی بن عروہ المرادی کے گھر منتقل ہوگئے ، عبید اللہ نے لوگوں سے پوچھا کہ بات کیا ہے کہ ہانی بن عروہ نہیں دکھائی دے رہے ہیں؟ وہاں سے محمد بن الاشعث وغیرہ نکلے اور ہانی سے کہا کہ امیر آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے ہانی ان لوگوں کے ساتھ عبید اللہ کے پاس سوار ہوکر آیا اس وقت عبید اللہ کے پاس شریح قاضی بیٹھے ہوئے تھے ۔
عبید اللہ نے کہا کہ اپنی بربادی لئے وہ آگیا ۔۔۔۔۔۔۔ ہانی نے جب سلام کیا تو عبید اللہ نے کہا کہ اے ہانی مسلم کہاں ہے ؟ جواب دیا کہ اے امیر مجھے اس کا علم نہیں ہے اسی درمیان جس نے درہم دیا تھا وہ باہر آگیا اور ہانی نے جب اسے دیکھا تو حقیقت بتلادی اورکہا کہ اے امیر ہم نے انہیں نہیں بلایا ہے بلکہ وہ آکر ہمارے گلے پڑگیا ہے ۔۔۔ عبید اللہ نے کہا کہ اسے لا کر حاضر کرو ، جواب دیا کہ اگر وہ میرے پاؤں کے نیچے بھی ہوتا تو بھی میں اپنا پاؤں نہ اٹھاتا ۔۔۔۔ عبید اللہ نے اس پر کوڑے برسائے جس سے اس کا بدن زخمی ہوگیا ۔۔۔۔ ہانی نے کسی پولیس کی تلوار چھین کر حملہ کرنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہوسکا ، عبید اللہ نے کہا اب تیرا خون حلال ہوگیا لہذا اسے قید کردیا بنی مذحج تک جب یہ خبر پہونچی تو محل کے گرد ادھر بھیڑ لگ گئی اور جب مسلم بن عقیل کو یہ خبر ملی تو باہر نکلے اور ان کے گرد چالیس ہزار لوگ اکٹھا ہوگئے انہیں منظم کیا اور قصر کا رخ کیا ۔۔۔۔ عبید اللہ نے کوفہ کے بڑےبڑے لوگوں کو بلا بھیجا جب لوگ ان کے پاس اکٹھا ہوئے تو انہیں حکم دیا کہ اپنے اپنے خاندان و قبیلے والوں کو سمجھائیں ۔۔۔۔۔ وہ لوگ اپنے اپنے قبیلے والوں کو جھانک کر دیکھا اور گفتگو کرنےلگے اس طرح لوگ مسلم بن عقیل سے چھٹ کر الگ ہونے لگے حتی کہ صرف پانچ سو آدمی ان کے ساتھ باقی رہ گئے ، اور مسلم بن عقیل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو لکھ چکے تھے کہ جلد از جلد آنے کی کوشش کریں پھر جب رات ہوئی تو سب کے سب گھسک اور مسلم بن عقیل کے ساتھ کوئی بھی نہ بچا ۔۔۔ مسلم بن عقیل راستوں میں اکیلے بھٹکتے رہے یہاں تک کہ ایک گھر کے پاس پہنچ کر دستک دی ایک عورت باہر نکلی اس سے مسلم بن عقیل نے پانی مانگا ، اس نے پانی پلایا اور پھر اندر چلی گئی ، تھوڑی دیر بعد جب نکلتی ہے تو انہیں دروازے پر پاتی ہے، بولی کہ تم ذرا کچھ مشکوک آدمی لگ رہے ہو ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بتلادیا کہ میں مسلم بن عقیل ہوں ۔۔۔۔۔ کیا تمہارے پاس ٹھہرنے کی جگہ ہے ؟ عورت نے انہیں ٹھہرنے کی اجازت دے کر اندر بلالیا ، لیکن اس عورت کا بیٹا محمد بن اشعث کا نوکر تھا وہ اپنے مالک کے پاس گیا اور صورت حال بتلادی ۔۔۔ عبید اللہ نے پولیس بھیج کر انہیں گرفتار کرنا چاہا مسلم بن عقیل اپنی تلوار سونت کر نکلے اور لڑائی کرنے لگے محمد بن اشعث نے انہیں امان دے دی تو مسلم بن عقیل نے اپنے کو اس کے حوالے کردیا ۔۔۔ محمد بن اشعث انہیں لے کر عبید اللہ کے پاس آیا عبید اللہ نے انہیں اور ہانی کو قتل کردیا ۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ مسلم بن عقیل کے خط کی بنیاد پر کوفہ لئے روانہ ہوچکے تھے اور جب قادسیہ سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر تھے تو وہاں ایک آدمی سے ان کی ملاقات ہوگئی جس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بتلایا کہ میں اپنے پیچھے کوئی بھلائی چھوڑ کر نہیں آرہا ہوں یعنی[مسلم بن عقیل کے قتل اور کوفہ کی غداری کی خبر دی ] حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ فرمایا لیکن مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے کہا کہ جب تک مسلم بن عقیل کا بدلہ نہیں لیتے اس وقت تک واپس نہ جائیں گے چاہے قتل کردئیے جائیں ۔ ۔۔
لہذا آپ آگے بڑھے جہاں عبید اللہ بن زیاد کی گھڑ سوار فوج کا سامنا ہوا ، آپ کٹ کر کربلا کے میدان میں پہنچ گئے قصیماء پہاڑ کو اپنے پیچھے کرلیا تاکہ صرف سامنے ہی سے مقابلہ ہو ۔۔۔ اس وقت آپ کے ساتھ 45 سوار اور 100 کے قریب پیدل تھے ۔
عمر بن سعد بن ابی وقاص جنہیں عبید اللہ بن زیاد نے فوج کا کمانڈر بنایا تھا انہوں نے اولا انکار کیا لیکن عبید اللہ بن زیاد نے معاف کرنے سے انکار کیا ، ان سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ تین باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرلو ۔ ۔۔ یا تو مجھے چھوڑ دو تاکہ میں کسی سرحدی علاقہ میں چلا جاؤں ۔۔ یا یزید کے پاس چلا جاؤں یا یہ کہ میں مدینہ واپس ہوجاؤں، عمر بن سعد بن وقاص نے اسے قبول کرلیا اور عبید اللہ بن زیاد کے پاس لکھ بھیجا ۔۔۔ لیکن عبید اللہ بن زیاد نے جواب [بعض روایات میں ہے کہ عبید اللہ بن زیاد نے ان کی پیش کش کوقبول کرنا چاہا لیکن شمرذی الجوشن نے زور دیا کہ وہ آپ کے حکم پر ہتھیار ڈالیں ۔ ۔ السیر :3/311 ] دیا کہ اس کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ آکر اپنے آپ کو میرے حوالے کردیں ۔۔۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔۔ آپ نے لڑائی کی اور آپ کے ساتھی قتل و شہید کردئیے گئے جن میں صرف ، اہل بیت کے سترہ17 جوان تھے ۔
{ سیر اعلام النبلاء :3/306-308 }
ختم شدہ