عام مقالاتمحرم الحرام اور نئے سال

– نئے سال کی مبارکبادی پر علمائے کرام کے فتاوے

جن معاملات میں آج مسلمانوں کا ایک طبقہ صراط مستقیم کو چھوڑ کر اللہ تعالی کے دشمنوں اور یہود و نصاری کے طرز پر چل پڑا ہے ان میں سے ایک عید بھی ہے ، صورت حال یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے غیر قوموں کی مشابہت میں نئی نئی عیدیں ایجاد کرلی ہیں حتی کہ بہت سے لوگوں نے کافروں کی بہت سی عیدوں کو اپنے شہروں اور ملکوں میں منتقل کرلیا ہے ، جب کہ ان کافروں کی عیدیں ایسی ہوتی ہیں جو شرک و کفر پر مبنی اور بعض تو فحاشی و بے حیائی کا کھلا پیغام دیتی ہیں کیونکہ ہر عید اپنے منانے والوں کی تہذیب و ثقافت کی ترجمانی کرتی ہے جیسے بسنت کا میلہ ، عید عاشقاں اور نیا سال وغیرہ اور بدقسمتی یہ کہ بہت سے نام نہاد مسلمان کافروں کی عیدوں کی آمد پر اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ اپنی شرعی عیدوں کی آمد پر اس خوشی کا اظہار نہیں کرتے ۔

خصوصی طور ” نیاسال ” یا عید رأس السنہ منانے کے لئے تو کچھ مسلمان اپنا شہر یا علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہروں کا سفر کرتے ہیں اور اس موقعہ سے پیش کئے جانے والے حیا سوز اور بے غیرتی سے بھرے پروگراموں میں شریک بھی ہوتے ہیں اور بعض تو اپنے ساتھ اپنی بیوی بچوں کو بھی لے جاتے ہیں ، کیونکہ یہ عید اصل میں یہود اور نصرانیوں کی عید ہے جو یورپ سے ہمارے اندر آئی ہے اور معلوم ہے کہ رقص و ساز ان کے یہاں فن ہے ، فحاشی و عریانی ان کی تہذیب ہے زناکاری و شراب نوشی ان کا کلچر ہے لہذا ان کی عیدوں میں بھی یہ چیزیں بہت واضح طور پر موجود رہتی ہیں ، بلکہ ان کی عیدوں میں فحاشی و عریانیت کی بعض ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جو انسانیت و اخلاق سے کوسوں دور ہوتی ہیں خاص کر عید عاشقاں اور نئے سال میں لہذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ان سے پرہیز کرے ذیل میں علمائے امت کے بعض فتاوے نقل کئے جارہے ہیں تاکہ اللہ تعالی کا خوف رکھنے والے لوگ نصیحت و ہدایت حاصل کریں اور اس کے باوجود جو ہلاک ہونا چاہتا ہے وہ دلیل کی بنا پر یعنی حق پہچان کر ہلاک ہو ۔

[۱] خلیفہ راشد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ کا فتوی

حضرت عطاء بن دینار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
عجمیوں کی گفتگو نہ سیکھو اور مشرکوں کے تہواروں کے دن ان کی عبادت گاہوں میں نہ جاو کیونکہ ان پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوتا ہے ۔
حضرت ابان کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کے دشمنوں [ کافروں ] کے تہواروں کے دن ان سے دور رہو ۔
{ السنن الکبری للبیھقی :9/234 – اقتضاء الصراط المستقیم :1/455-457 }

[۲] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے کام میں کافروں کی مشابہت کریں جو ان کے تہواروں [خصوصی ایام ] کے ساتھ خاص ہو ، کھانے میں ، نہ لباس میں ، نہ چراغاں کرنے میں ، نہ کاروبار اور دوسرے دنیاوی امور ترک کرنے میں اور نہ خلاف معمول کوئی کام کرنے میں ۔ اسی طرح اس موقع پر دعوت کرنا جائز نہ ہوگا ۔ اور نہ ہی تحفہ و تحائف [ اس مناسبت سے ] پیش کئے جائیں گے ۔ اسی طرح کوئی ایسی چیز نہ بیچی جائے گی جس سے ان کی عید و تہوار میں ان کی مدد ہوسکے اور نہ ہی بچوں کو ان کے تہوار کے موقع پر کوئی ایسا کھیل کھیلنے دیا جائے گا جو کافروں کے تہواروں کے موقع پر کھیلے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی زیب و زینت کا اظہار کیا جائے گا ، خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کافروں کے تہواروں کو کسی شعیرہ کے ساتھ خاص کریں ، بلکہ وہ دن بھی مسلمانوں کے لئے عام دنوں کی طرح ہونا چاہئے ۔

[۳] امام ذہبی کا فتوی :

امام ذہبی رحمہ اللہ نے کافروں کے تہواروں سے متعلق ایک مستقل رسالہ تالیف فرمایا ہے اور بڑے ہی سخت انداز میں کافروں کی عیدوں اور تہواروں میں کسی بھی قسم کی شرکت سے روکا ہے ، ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :

” اے مسلمان! اللہ نے تیرے اوپر واجب کیا ہے کہ رات و دن میں سترہ بار اللہ سے دعا کر کہ تجھے صراط مستقیم پر گامزن رکھے جو اس کے انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے ، اور جن پر اس کا غضب نازل ہوا اور جو لوگ گمراہ ہوئے ایسے لوگوں کے راستے سے بچائے ، تو تیرے دل کو کیسے اچھا لگتا ہے کہ جن کی یہ صفت ہو اور وہ جہنم کا ایندھن ہوں تو ان کی مشابہت کرے ، اگر تجھے کہا جائے کہ کسی بڑھئی یا ہجڑے کی مشابہت کرے تو تو اس کام سے بدکے گا ، جب کہ تو اقلف [یعنی نصاری ] ، عید کے موقع پر صلیب [ کراس نشان ] کی پوجا کرنے والے کی مشابہت کررہا ہے ، اپنے بچوں کو نئے کپڑے پہنا رہا ہے ، انہیں خوشیوں میں شریک کررہا ہے ، ان کے لئے انڈے رنگ رہا ہے ، خوشبو خرید رہا ہے اور اپنے دشمن کی عید کے موقع پر ایسی خوشیاں منا رہا ہے جیسے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عید منایا کرتا ہے ۔

تو سوچ کہ اگر تو نے ایسا کیا تو یہ عمل تجھے کہاں لے جائے گا ؟ اگر اللہ نے معاف نہ کیا تو اللہ کے غضب اور ناراضگی کی طرف لے جائے گا ، کیا تجھے معلوم نہیں ہے کہ تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس کام میں اہل کتاب کی مخالفت پر ابھارا ہے جو ان کے لئے خاص ہے حتی کہ بال کی سفیدی جو مومن کے لئے نور ہے جس سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا ہے “من شاب شیبۃ فی الاسلام کانت لہ نورا یوم القیامۃ “جس شخص کے بال اسلام میں سفید ہوئے تو یہ بال قیامت کے دن اس کے لئے نور کا سبب بنیں گے ، لیکن اہل کتاب کی مخالفت کے لئے ہمارے نبی نے ان بالوں پر خضاب لگانے کا حکم دیا ہے چنانچہ اس کی علت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : یہود خضاب نہیں لگاتے لہذا تم ان کی مخالفت کرو ۔

آگے مزید لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر وہ مسلمان جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو غیر قوموں کی عیدوں میں حاضر ی سے روکے اور اسے اس انجان اور جھگڑا لو آدمی جیسا نہیں ہوجانا چاہئے کہ جب اسے کسی کام سے روکا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ ” ہمیں اس سے کیا لینا دینا ہے ” اور بہت سے بد کردار اور گمراہ لوگوں کو شیطان نے یہاں تک بہکا دیا ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں اور بد کرداروں کے تہواروں کا میلہ دیکھنے کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتے ہیں اور اس طرح ان کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں ، جب کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ : ” من کثر سواد قوم حشر معھم
جو کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کرے قیامت کے دن اسے انہی لوگوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا ” ۔

اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے : [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ] {المائدة:51} ” اے ایمان والو ! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناو ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا ” ۔

علماء کا کہنا ہے کہ کفار کے ساتھ مشابہت اور ان کی عیدوں میں حاضری ان سے محبت میں داخل ہے ، جب کہ مسلمانوں کے ملک میں کافروں کو اپنی عیدوں کو کھلے عام منانے کی اجازت نہیں ، پھر اگر مسلمان ان کے تہواروں میں شریک ہورہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ان کی عیدوں کے اعلان میں ان کی مدد کررہا ہے ، ایسا کرنا دین اسلام میں بدعت کے ایجاد کے مترادف ہے اور بڑا ہی ناپسندیدہ کام ہے ، اور ایسا صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو بڑا ہی بد دین اور ناقص الایمان ہوگا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید میں داخل ہوگا : ” من تشبہ بقوم فھو منھم ” ” جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے ” ۔

[۴] سماحۃ الشیخ علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا :

س : بعض مسلمان نصاری کی عیدوں میں شریک ہوتے ہیں اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟

جواب : کسی مسلمان مرد و عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ یہود ونصاری یا کسی اور کافر قوم کی عید میں شریک ہو بلکہ ان پر اس سے دور رہنا واجب ہے اس لئے کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے اس کا شمار انہیں کے ساتھ ہوتا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غیر قوموں کی مشابہت اور ان کے اخلاق و عادات اپنانے سے منع فرمایا ہے لہذا مسلمان مرد ہو یا عورت ان پر واجب ہے ایسے کاموں سے پرہیز کریں ، اور ان کے لئے کسی بھی طرح جائز نہیں ہے کہ کسی بھی چیز سے اس بارے میں مدد کریں ، اس لئے کہ یہ شریعت کے مخالف عیدیں ہیں ، لہذا نہ ان میں شریک ہونا جائز ہے نہ ان عیدوں کو منانے والوں کے ساتھ تعاون کرنا جائز ہوگا اور نہ ہی چائے ، قہوہ برتن وغیرہ کسی چیز سے ان کی مدد جائز ہوگی کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے : [وَتَعَاوَنُوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِيدُ العِقَابِ] {المائدة:2}

” نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تعالی سخت سز دینے والا ہے ”

اور کافروں کی عیدوں میں شرک ہونا گناہ و ظلم و زیادتی کے کام پر ایک قسم کی ان کی مدد ہے ۔

{ مجموع فتاوی شیخ ابن باز :6/508 }

ختم شدہ

زر الذهاب إلى الأعلى