ترجمات

– موزوں پر مسح سے متعلق اہم مسائل

ازقلم : فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ || ترجمہ : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ، وبعد

موزے پر مسح مشروع اور جائز ہے ، بشرط یہ کہ مسح کي شرطیں پائی جائیں ، چنانچہ حدیث میں وارد ہے کہ نبی صلی اللہ عليہ وسلم نے [چرمی] موزے پر مسح کيا ہے ۔ { صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔ حضرت علی رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزے پر مسح کی مدت مقیم کیلئے ایک رات دن اور مسافر کے لئے تین رات دن کی متعین کی ہے ۔ { صحیح مسلم } ۔
يہ بات ملاحظے ميں ہے کہ کچھ لوگ موزے پر مسح کے بارے ميں بہت سي غلطيوں کے مرتکب ہوتے ہيں ، اس لئے ارادہ ہوا کہ بعض وہ مسائل جمع کرديئے جائيں جنہيں ہم ہر مسلمان کيلئے اہم سمجھتے ہيں ، يہ مسائل اصل ہيں چند سوالوں کے جواب پر مشتمل ہيں جنہيں فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ نے ديا ہے ، انہيں ہم نے شيخ موصوف کي کتابچہ فتاوي ا لمسح علي الخفين سے ليا ہے ، اللہ تعالي سے دعا ہے کہ ان جوابات کو مفيد بنائے ۔

سوال : موزوں پر مسح کي شرطيں کيا ہيں ؟

جواب : موزوں پر مسح کيلئے چار شرطيں ہيں :
1) دونوں موزے طہارت کا ملہ کے بعد پہنے گئے ہوں ۔
2) موزے پاک ہوں ۔
3) مسح حدث اصغر يعني وضو کے موقعہ پر کيا جائے، نہ کہ حدث اکبر يعني غسل کے موقعہ پر ۔
4) شرعي طور پر متعين مدت کے اندر مسح کيا جائے ،يعني مقيم کيلئے ايک رات ودن اور مسافر کيلئے تين رات ودن ۔

سوال : اس شرط کي کيا حقيقت ہے جو بعض فقہاء لگاتے ہيں کہ دونوں موزے پاوں کے اس پورے حصے کو چھپائے ہوں ، وضو ميں جن کا دھونا فرض ہے ۔

جواب : يہ شرط صحيح نہيں ہے کيونکہ اس پر کوئي شرعي دليل نہيں ہے ، لہذا جس موزے پر موزے کا اطلاق ہوگا اس پر مسح جائز ہوگا ، کيونکہ حديث ميں مطلق موزے پر مسح کا ذکر ہے ، اور جس چيز کو شريعت ميں مطلق رکھا گيا ہے اسے مقيد کرنے کا کسي کو حق حاصل نہيں ہے ، بنا بريں پھٹے ہوئے موزے اور باريک موزے پر مسح جائز ہوگا ۔

سوال : کيا يہ نيت کرنا ضروري ہے کہ جب موزہ يا جوتا پہنے تو پہنتے وقت نيت کرلے کہ ان پر مسح کرے گا ، اس طرح کيا يہ نيت کرنا بھي ضروري ہے کہ مقيم رہکر مسح کرے گا يا مسافر ہوکر ، يا ايسي نيت کي ضرورت نہيں ہے ۔

جواب : ايسي نيت ضروري نہيں ہے ، کيونکہ حکم مجرد وجود پر معلق ہے ، اس لئے نيت ضروري نہيں ہے، جس طرح کہ جب کوئي لباس پہنے تو يہ نيت کرنا ضروري نہيں ہے کہ اس لباس کا مقصد نماز ميں اپنے ستر کو چھپانا ہے ، اسي طرح موزہ پہنتے وقت اس پر مسح کي نيت کرنا ضروري نہيں ہے، نہ يہ نيت ضروري ہے کہ کتني مدت تک اس پر مسح کرے گا ، بلکہ اگر مسافر رہا تو تين رات ودن مسح کرے گا ،خواہ اس کي نيت پہلے سے کي ہو يا نہ کي ہو، اور اگر مقيم ہے تو ايک رات ودن مسح کرےگا، خواہ اس کي نيت کي ہو يا نہ کي ہو ۔

سوال : ايک شخص نے تيمم کيا اور موزوں کو پہنا تو کيا پاني مل جانے پر وضو کرے گا تو اس کے لئے موزے پر مسح جائز ہے ؟ واضح رہے کہ اس نے کامل طہارت کے بعد موزہ پہنا تھا ۔

جواب : اگر اس نے تيمم کے ذريعہ طہارت حاصل کي ہے تو اس صورت ميں موزوں پر مسح جائز نہ ہوگا ، اس لئے کہ تيمم کي طہارت پاوں سے تعلق نہيں رکھتي ،بلکہ چہرے اور ہتھيليوں سے متعلق ہے ۔

سوال : مسافر سفر سے واپس آگيا يا مقيم نے سفر شروع کرديا اور مسح کرنا شروع کرديا ہے تو اس کا کيا حسا ب رہےگا ۔

جواب : مقيم نے مسح کرنا شروع کيا پھر سفر پر نکلا تو صحيح قول کے مطابق مسافر کي مدت مسح پوري کرے گا اور مسافر تھا پھر واپس آگيا تو مقيم کي مدت کا حساب لگائے گا ۔

سوال : اگرايک شخص نے اپنے موزے کو نکال ديا اور اس کا وضو ابھي باقي ہے ،پھر وضو ٹوٹنے سے قبل موزہ پہن ليا تو اس موزے پر مسح جائز ہوگا ؟

جواب : اگر موزے کو اتار کر دوبارہ پہن ليا اور وہ وضو سے ہے تو اگر يہ اس کا پہلا ہي وضو ہے يعني موزہ پہن لينے کے بعد ابھي تک اس کا وضو نہيں ٹوٹا ہے تو موزے کو دوبارہ پہن لينے اور وضو کرتے وقت اس پر مسح کرنے ميں کوئي حرج نہيں ہے ،البتہ اگر يہ وہ وضو تھا جس پر موزے پر مسح کيا ہے تو اس کے لئے جائز نہيں ہے کہ اس پر مسح کرے ، کيونکہ شرط يہ ہے کہ پاني سے طہارت حاصل کرنے کے بعد موزہ پہنا گيا ہے اور اس کي يہ طہارت مسح کي طہارت ہے ، اہل علم کے بيان سے يہي واضح ہوتا ہے ۔

سوال : موزہ نکالنا صرف جواز مسح کو باطل کرتا ہے يا صرف طہارت کو باطل کرتا ہے ؟

جواب : موزہ نکال دينے سے طہارت ختم نہيں ہوتي ليکن اس کا مسح باطل ہوجاتا ہے، يعني دوبارہ مسح نہيں کرسکتا ، ليکن وضو ٹوٹنے تک طہارت پر باقي رہے گا ، لہذا مسح کے ساتھ کي گئي طہارت اگر باقي ہے تو موزہ نکالنے کے بعد بھي اسي سے نماز پڑھ سکتا ہے ۔

سوال : ايک شخص نے پہلي بار تو اپنے بوٹ { انگريزي جوتا جو ٹخنوں تک ہوتا ہے } پر مسح کيا ، پھر دوسري بار وضو کرتے وقت بوٹوں کو نکال کر موزے پر مسح کيا ، تو کيا يہ مسح صحيح ہوگا يا پيروں کا دھونا ضروري ہوگا؟

جواب : اس بارے ميں اہل علم کے درميان اختلاف ہے ، بعض اہل علم کا خيال ہے کہ جس موزے پر مسح کيا ہے اوپر والا ہو يا نيچے والا حکم اسي سے متعلق ہوگا، دوسرے کي طرف منتقل نہ ہوگا ، اور بعض اہل علم کا خيال ہےکہ اگر مدت مسح باقي ہے تو حکم دوسرے سے متعلق ہوجائے گا ، علي سبيل المثال : اگر بوٹ پر مسح کيا پھر اسے نکال ديا اور پھر وضو کرنا چاہتا ہےتو راجح مسلک کے مطابق موزے پر مسح کرسکتا ہے ، جس طرح کہ ايک موزے پر مسح کيا پھر اس پر ايک اور موزہ پہن ليا يا بوٹ پہن ليا تو اگر مدت مسح باقي ہے تو راجح قول کے مطابق دوسرے پر مسح کرنے ميں کوئي حرج نہيں ہے ، ليکن يہ ياد رہے کہ پہلے موزے پر مسح سے مدت مسح کا اعتبار ہوگا نہ کہ دوسرے پر مسح سے ۔

سوال : مسح کا صحيح طريقہ کيا ہے اور کتني دور مسح کيا جائے گا، اس سے متعلق بہت سے لوگ سوال کرتے ہيں ؟

جواب : مسح کا طريقہ يہ ہے کہ پاوں کي انگليوں کے کنارےسے پنڈلي تک مسح کرے ،يعني موزے کے بالائي حصہ کا مسح کيا جائے اس طرح کہ ہاتھ کو پاوں کي انگليوں سے پنڈلي تک لے جائے ، اور يہ کہ دونوں ہاتھوں سے دونوں پيروں پر ايک ساتھ مسح کرے ، اس طرح کہ دائيں ہاتھ سے دائيں پير کا اور بائيں ہاتھ سے بائيں پير کا مسح ايک ہي ساتھ کرے ،جس طرح کہ دونوں کا مسح کيا جاتا ہے اس لئے کہ حضرت مغيرہ رضي اللہ عنہ کي حديث سے يہي ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے دونوں موزوں پر مسح کيا ۔

سوال : موزے کے نيچے مسح کا کيا حکم ہے ، جو شخص اس طرح مسح کرتا ہے اس کي نماز صحيح ہے ؟

جواب : اس کي نماز صحيح ہے اور اس کا وضو بھي صحيح ہے ، ليکن ايسے شخص کو بتلايا جائے کہ موزے کے نچلے حصہ کا مسح سنت سے ثابت نہيں ہے ، چنانچہ سنن ميں حضرت علي رضي اللہ عنہ سے مروي ہے کہ اگر دين ميں قياس و رائے کا دخل ہوتا تو موزے کے نچلے حصے کا مسح بالائي حصے کے مسح سے بہتر ہوتا ، حالانکہ ميں نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کو ديکھا ہے کہ وہ اپنے موزوں کے بالائي حصے کا مسح کرتے تھے ۔ اس حديث سے معلوم ہوتا ہے کہ موزے کے صرف بالائي حصے کا مسح مشروع ہے ۔

سوال : اس کا کيا حکم ہے کہ موزہ نکال کر يا اس تھوڑا حصہ نکال کر پاوں کو کھجلايا جائے يا کسي چھوٹے پتھر وغيرہ کو زائل کيا جائے ۔

جواب : اگر موزے ميں ہاتھ ڈال کر ايسا کرے تو کوئي حرج نہيں ہے ، البتہ اگر موزہ نکالا ہے تو ديکھا جائے گا کہ اگر پاوں کا معمولي حاصہ ظاہر ہوا ہے تو کوئي حرج نہيں ہے ، اور اگر پاوں کا اکثر حصہ ظاہر ہوا ہے تو آئندہ اس پر مسح باطل ہوجائے گا ۔

سوال : عام لوگوں ميں يہ مشہور ہے کہ موزوں پر مسح صرف پانچ نماز پڑھنے تک کيا جاسکتا ہے پھر اس کے بعد اسے نکالنا پڑيگا ۔

جواب : جي ہاں ، عام لوگوں ميں يہي مشہور ہے ، لوگ يہي سمجھتے ہيں کہ مسح ايک ہي دن رات ہے يعني صرف پانچ نمازوں کيلئے مسح ہے ، حالانکہ يہ صحيح نہيں ہے بلکہ ايک دن و رات مسح کے لئے کيلئے ہے ، اس کا معني يہ ہے کہ موزے پر مسح ايک دن و رات کياجائے گا خواہ پانچ نماز يں پڑھي جائيں يا اس سے زيادہ ، جيسا کہ ابھي گزرا کہ مسح کي مدت ايک دن و رات ہے ، لہذا ہوسکتا ہے کہ دس نمازيں يا اس سے بھي زيادہ پڑھے ، مثال کے طور پر ايک شخص نے پير کے دن فجر کي نماز کے وقت موزہ پہنا اور اس کا وضو شام تک باقي رہا يہاں تک کہ عشاء کے بعد وہ سوگيا پھر منگل کے دن فجر کي نمازميں اپنے موزے پر مسح کرتا ہے تو ايسي صورت ميں اس کے لئے جائز ہے کہ وہ بدھ کے دن فجر کے وقت تک اس پر مسح کرے ، اس طرح اس نے پير کے دن موزہ پہنے کي حالت ميں فجر ، ظہر عصر ، مغرب اور عشاء کي نمازيں پڑھيں ، ليکن اس پوري مدت کا شمار نہيں ہے ،کيونکہ يہ نمازيں موزہ پر مسح سے قبل پڑھي گئي ہيں اور اس نے منگل کے دن فجرکي نماز مسح کرکے پڑھي ،ظہر کي نماز مسح کرکے پڑھي ، عصر کي نماز مسح کرکے پڑھي ، مغرب کي نماز مسح کرکے پڑھي اور عشاء کي نماز مسح کرکے پڑھي ، اسي طرح يہ بھي ممکن ہے کہ وہ بدھ کے دن کي نمازيں بھي مسح ہي سے پڑھے بشرط يہ کہ مسح کي مدت ختم ہونے سے قبل مسح کرليا ہو ، مثال کے طور پر اس نے منگل کے دن صبح پانچ بجے مسح کيا تھا اور بدھ کے دن وضو کرتے وقت پونے پانچ بجے مسح کرليتا ہے اور اس وضو ميں وہ شام عشا تک باقي رہتا ہے تو اس طرح اس نے اس وضو سے بدھ کے دن بھي فجر ، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کي نمازيں پڑھي تو اس نے موزہ پہن کر پندرہ نمازيں پڑھيں ، کيونکہ اس نے پير کے دن فجر کے وقت موزہ پہنا اور اپني طہارت پر باقي رہا يہاں تک منگل کے دن کے فجر کے لئے پانچ بجے مسح کيا اور بدھ کے دن فجر کے لئے پونے پانچ بجے مسح کيا اور اپنے وضو پر باقي رہا يہاں تک کہ اسي وضو سے عشاء کي نماز پڑھي، اس طرح موزہ پہنے کے بعد سے پندرہ نمازيں موزہ پہننے کي حالت ميں پڑھيں ۔

سوال : ايک شخص نے وضو کيا اور موزے پر مسح کيا پھر موزہ نکال ديا ، کيا اس کا وضو ٹوٹ گيا ؟

جواب : اس بارے ميں اہل علم کا راجح قول جسے شيخ الاسلام امام ابن تيميہ اورديگر اہل علم کي ايک جماعت نے اختيار کيا ہے يہ ہے کہ موزہ نکالنے سے وضو نہيں ٹوٹتا ، لہذا اگر کسي نے اپنا موزہ اتار ديا اور اس کا وضو باقي ہے اور اس نے [ اس وضو کے ساتھ ] موزے پر مسح کيا تھا تو اس وضو نہيں ٹوٹتا ۔
واللہ اعلم و صلي اللہ علي نبينا محمد و علي آلہ وصحبہ وسلم ۔۔۔۔

ختم شدہ

 

ازقلم : فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ || ترجمہ : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

زر الذهاب إلى الأعلى