ترجمات

– چاند کے اختلاف میں امت کا اتحاد

از قلم : علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ || ترجمہ : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

سال رواں  سن 1439ھ  رمضان  کے چاند   سے متعلق  کچھ لوگوں  کو بڑا اشکال  رہا ہے   حتی  کہ ایک  ہی شہر  میں اور ایک  ہی جماعت  کےافراد  اس بارے میں  مختلف  رائے  رکھتے  دکھائی  دے رہے  ہیں،  جہاں لوگوں  کی اکثریت بلکہ  بڑی اکثریت  نے انتیس  شعبان  کی شام  ہلال نو کے ظہور کو قبول کیا اور اسی کی بنیاد  پر روزہ  و تراویح  کا اہتمام  کیا ہے  وہیں  دوسری  طرف  کچھ لوگوں نے  اس کی مخالفت کی اور ماہ شعبان  کے کامل  ہونے کا  اعتبار کیا ،  بنا بریں ان لوگوں نے  عام لوگوں  سے ایک دن بعد میں  روزہ رکھا اور  تراویح   شروع پڑھی ، جس کا اثر  آخری عشرہ  کی راتوں  میں شب  بیداری  پر بھی پڑ رہا ہے  اور خطرہ ہے کہ عید کے موقعہ پر  بھی یہ اختلاف  مزید  وسعت اختیار  کرلے گا ۔

قطع نظر  اس سے کہ 29 شعبان  بروز چہارشنبہ  ہلال نو ظاہر  ہوا کہ نہیں ، پہلا روزہ  جمعرات  کو  ہونا چاہئے یا جمعہ کو ہم اس سلسلے میں گفتگو  نہ کرکے  یہ موضوع  کو چھیڑتے  ہیں کہ ایسےحالات میں  عام لوگوں  کو کیا کرنا  چاہئے  ، نیز  ہم جیسے  چھوٹےطالب علموں کا موقف کیا ہونا چاہئے، کیونکہ یہ مسالہ کسی ایک سال کا نہیں ہے بلکہ روزہ اور عید کے موقعہ پر اکثر ایسے اختلافات رو نما ہوتے ہیں، بلکہ اب تو ایک گروپ ایسا رونما ہوا ہے جو  وحدت نام پر تفرق اور سنت کے نام پر بدعت کو رواج دے رہا ہے،چنانچہ وہ چند افراداپنے روزہ رکھنے کی ابتدا وانتہا اور عید کی نماز کی ادائگی تمام مسلمانوں سے جدا نظر آتے ہیںجبکہ ہمیں سب سے قبل یہ دیکھنا چاہئے کہ ایسے اجتماعی امور میں کیا چیز  شریعت کی روح سے موافقت رکھتی ہے اور ہمارے سلف صالحیں کا منہج کیا رہا ہے؟ چنانچہ اس سلسلے میں  اپنی طرف سے کچھ لکھنے  یا کہنے  کے بجائے  ہم ایک  بڑے  عالم  ، محدث شام ،مجتہد  عصر  علامہ  البانی  رحمہ اللہ  کی ایک  عبارت  کا ترجمہ  نقل کرنےپر اکتفا کرتے ہیں ، شاید  کہ ہمارے  بعض جذباتی،ادب خلاف سے عاری اور “ہم چنیں دیگرے نیست” کے مرض میں مبتلا حضرات کو عبرت  حاصل  ہو۔

علامہ  مرحوم  اپنی مشہور  کتاب  الصحیحہ  میں رقم 224  کے تحت ایک حدیث  نقل  کرتے ہیں  ۔

224 – ” الصوم يوم تصومون، والفطر يوم تفطرون، والأضحى يوم تضحون “.

روزہ کا دن وہی ہے  جس دن  تم روزہ  رکھو  ، افطار  [عید کا ] دن  وہی ہے  جس دن تم  افطارکرو ۔

سنن ترمذی ،4/37 ، سنن ابن ماجہ :1/509 ، سنن ابو داود :1/366 ، السنن الکبری :4/252 وغیرہ کا حوالہ دیا ہے ، حدیث  کے راوی  حضرت  ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ ہیں  } ۔

علامہ  مرحوم  اس حدیث  کی سند  پر ایک لمبی  بحث  کے بعد  فقہ الحدیث  کے عنوان  کے تحت لکھتے  ہیں :

امام  ترمذی رحمہ اللہ   اس حدیث  کی روایت کے  بعد کہتے ہیں

“بعض  اہل علم  نے اس حدیث  کی تفسیر  اس طرح کی ہے : اس حدیث  کا معنی  یہ ہے کہ روزہ  اور عید  کا معاملہ  جماعت  اور امت کی اکثریت ساتھ  ہے” ۔

اور امام  صنعانی  رحمہ اللہ سبل السلام  2/72 میں لکھتے ہیں  :”اس حدیث  میں اس بات کی دلیل  ہے  کہ  عید  منانے  میں لوگوں کی موافقت کا اعتبار  ہے  اور یہ کہ اگر  کسی شخص واحد  کو چاند  دیکھ کر عید کا ثبوت  ہوجاتا ہے تو بھی  اس کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں  کی  موافقت  کرے اور اس پر واجب ہے کہ نماز [عید]ادا کرنے،  افطار کرنے اور قربانی  کرنے میں  عام  مسلمانوں  کی رائے  کو قبول کرے ۔

یہی معنی  امام ابن القیم  رحمہ اللہ نے تہذیب  السنن  3/214 میں بیان کیا ہے ، چنانچہ  وہ لکھتے ہیں  :اس حدیث میں اس  شخص  کی تردید  ہے جو یہ کہتا  ہے کہ چاند  کی منزلوں  کے حساب  کا جسے علم  ہو اور اسے اپنے  حساب  سے چاند  کے طلوع کا علم ہو جائے تو اس کے لئے  روزہ رکھنا  اور افطار کرنا جائز ہوگا ، لیکن  جن لوگوں  کو اس  علم  نہیں ہوا وہ اس  پر عمل نہ کریں گے  ، اور یہ بھی کہا  گیا ہے کہ  تنہا  چاند دیکھنے  والا جس  کے چاند دیکھنے  کا اعتبار   قاضی نہیں کررہا  ہے تو    جس طرح کہ دیگر تمام لوگوں کے لئے  روزہ  رکھنا نہیں ہے وہ شخص بھی روزہ نہ رکھے گا ۔

نیز امام  ابو الحسن  سندھی  رحمہ اللہ  سنن ترمذی  کے حوالے  سے حضرت  ابو ہریرہ  کی حدیث  نقل کرنے کے بعد   سنن ابن ماجہ  کے حاشیہ  میں لکھتے  ہیں :

بظاہر  اس حدیث  کا معنی  یہ ہے کہ ان معاملات  [ روزہ رکھنے ، عید منانے  ، قربانی  کرنے ]  میں شخصی رائے  کا  کوئی  اعتبار  نہیں ہے  اور اس  معاملے میں لوگوں  سے علاحدگی  اختیار  کرنا جائز نہیں ہے  بلکہ  یہ معاملہ  مسلمانوں  کے امام  اور جماعت  کے سپرد  ہےا ور افراد  پر  امام  اور جماعت  کی اتباع  ضروری ہے  ، لہذا  اگر کوئی  شخص  چاند دیکھ لیتا ہے  اور امام  اس کی گواہی  کو رد  کردیتا ہے تو اس کے حق میں بھی یہ  امور یعنی  روزہ رکھنا ، عید منانا  اور قربانی کرنا ثابت نہ  ہوں گے اور اس بارے  میں اس کے لئے جماعت کی اتباع  واجب ہوگی ۔

علامہ  البانی  رحمہ اللہ آگے  لکھتے ہیں :میں کہتا  ہوں کہ  اس حدیث کا یہی  معنی واضح  اور ظاہر  ہے ، اور اس کی  تائید  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ   کے اس  استدلال  سے بھی ہوتی  ہے  کہ جب مسروق  رحمہ اللہ  نے عرفہ  کا روزہ  اس لئے  نہیں رکھا  کہ کہیں  آج یوم النحر[یوم النحر]   نہ ہو تو مائی  عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے ان کے سامنے واضح  فرمایا کہ ان کی اپنی شخصی  رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہے  بلکہ  ان پر جماعت  کا ساتھ دینا  واجب ہے  ، چنانچہ  حضرت مسروق  بیان کرتے ہیں  کہ ایک بار  عرفہ  کے دن میں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی خدمت میں  حاضر ہوا   تو  انہوں نے  کہا : مسروق کو ستو پلاو اور میٹھا زیادہ کردو ، حضرت مسروق  کہتے  ہیں  کہ میں نے  کہا  : آج میں نے روزہ  صرف اس لئے نہیں  رکھا کہ  مجھے ڈر  تھا  کہ کہیں  یہ  یوم النحر [ یعنی  عید الاضحی  کا دن ] نہ ہو ،    مائی  عائشہ رضی اللہ عنہا   نے فرمایا :عید  قربان  کا دن  وہ شمار  ہوگا جس دن لوگ  تمام لوگ  قربانی  کریں اور  عید الفطر  کاد ن  وہ ہوگا  جس دن سارے  لوگ افطار  کریں ۔

علامہ  البانی  رحمہ اللہ  لکھتے  ہیں کہ   میں کہتا ہوں  کہ سیدھی  سادی  اور آسان  شریعت  کی  روح   کے موافق یہی  امر ہے  جس کا  ایک بہت  بڑا مقصد  یہ  بھی ہے  کہ  لوگوں میں  اتفاق  پیدا  ہو  ، ان کی صفیں ایک رہیں   اور  ہر اس انفرادی رائے سے دور رہا جائے   جس سے  ان کی جمعیت  میں اختلاف  پیدا ہو  چنانچہ شریعت  اجتماعی  عبادتوں  جیسے روزہ ، عید اور  باجماعت  نماز جیسی عبادتوں  میں  انفرادی  رائے  کا اعتبار  نہیں کرتی  خواہ  و ہ اپنے  طور پر  حق ہی کیوں  نہ ہو ۔

کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا  کہ صحابہ  رضوان اللہ علیہم  اجمعین  ایک دوسرے  کے پیچھے   نماز پڑھتے  تھے  حالانکہ  ان میں بعض  کا  خیال  یہ تھا کہ عورت کا چھونا ، شرمگاہ کا چھونا اور خون کا نکلنا  ناقض  وضو ہے  اور بعض  صحابہ  ان چیزوں  کو ناقض  وضو نہیں سمجھتے   تھے  ، اسی طرح  ان میں سے  بعض  سفر میں نماز پوری  پڑھتے  تھے اور  بعض قصر  کرکے پڑھتے  تھے ،  ان کا  اس قسم کا اختلاف  ایک  امام کے پیچھے ایک ساتھ ہو کر  نماز پڑھنے اور  اس نماز  کا  اعتبار کرنے  میں مانع  نہ تھا ، کیونکہ  وہ جانتے  تھے کہ شخصی  رایوں  کے اختلاف  کو بنیاد  بنا کر  دین میں گروپ  بندی  بہت ہی بری چیز ہے ، بلکہ  ان میں [ یعنی  صحابہ میں ]  سے  بعض کا معاملہ  تو یہاں  تک پہنچا  ہوا تھا  کہ ایک عام اجتماع  جیسے منی  میں قیام کے موقعہ پر  امام اعظم  کی رائے  کے مخالف رائے  کی مطلق پرواہ  نہ کی اور  مخالف رائے  کلی طور پر  چھوڑ دیا  اس  خوف  سے کہ کہیں  اپنی رائے  پر عمل   کرنے کی  وجہ سے کوئی  شر و فساد  [ یعنی  امت  میں پھوٹ ]  جنم نہ لے  لے ،  چنانچہ  امام ابو  داود  رحمہ اللہ  1/207 روایت  کرتے ہیں کہ  حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  نے منی میں چار  رکعت  نماز پڑھائی  تو حضرت  عبد اللہ  بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے ان پر نکیر  کرتے ہوئے   فرمایا : ہم نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ، حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ اور حضرت عمر   رضی اللہ عنہ  کے ساتھ منی میں   دو رکعت  ہی پڑھتے   رہے  اور حضرت عثمان  رضی  اللہ عنہ  کے ابتدائی دور  خلافت  میں بھی دو ہی  رکعت پڑھتے   رہے اور اب وہ  پوری [ چار رکعت ] پڑھا  رہے ہیں  ، پھر تمہاری راہیں مختلف ہو گئیں  ، مجھے  تو یہ پسند  ہے کہ میری  دو ہی  رکعتیں  جو اللہ  کو مقبول ہوجائیں  وہ چار  رکعتوں  سے بہتر ہیں ،  پھر حضرت عبد اللہ  بن مسعود  نے بھی  چار ہی   رکعت پڑھی  تو  کسی  نے کہا کہ  ایک طرف آپ حضرت  عثمان پر  عیب  لگارہے  ہیں  کہ  انہوں نے  چار رکعت پڑھائی  [ سنت کے خلاف کیا] اور دوسری طرف  آپ خود بھی  چار رکعت پڑھ رہے ہیں  ؟  حضرت  عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا : ” الخلاف شر”  اختلاف بری چیز ہے ۔  اس حدیث کی سند  صحیح ہے ۔

نیز امام  احمد : 5/155  رحمہ اللہ  نے حضرت ابو ذر  سے بھی  ایسی  ہی ایک  روایت  نقل کی ہے رضی اللہ عنہم  اجمعین ۔

اس حدیث  اور اس  اثر  پر  ان لوگوں  کو غور کرنا چاہئے  جو اپنی  نمازوں  میں لوگوں  سے جدا نظر  آتے ہیں  اور ائمہ  مساجد  کی اقتداء  نہیں کرتے  ، خاص کر  رمضان  میں وتر  کی نماز  یہ کہتے  ہوئے امام  کے پیچھے  نہیں پڑھتے  کہ ان کا طریقہ  ہمارے  مذہب  کے خلاف  ہے ، اس طرح  بعض  وہ حضرات  جو علم فلک  کا دعوی  کرتے ہیں  اور اپنی رائے  اور اپنے  علم سے کام لیتے  ہوئے مسلمانوں  کی جماعت  سے علاحدگی  کی پرواہ کئے بغیر  روزہ رکھنے اور  افطار کرنے میں تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے   مسلمانوں کی  جماعت  سے الگ تھلگ  رہتے  ہیں  ۔

ان تمام  لوگوں  کوچاہئے کہ  جو   کچھ  علم کی باتیں  ہم نے  لکھیں  اس پر غور کریں  شاید ان کے دلوں  میں جو  جہالت  و گھمنڈ  کا مرض  ہے اس کے لئے اس میں  یہ شفا  کا سامان  ہو ، اور  اپنے مسلمان بھائیوں  کے ساتھ  ایک صف میں کھڑے  ہوجائیں کیونکہ  جماعت پر اللہ تعالی کا ہاتھ  ہے ۔

{سلسلۃ الاحادیث  الصحیحہ  :1/440 تا 445 }

ختم شدہ 

از قلم : علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ || ترجمہ : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

زر الذهاب إلى الأعلى