عام مقالات

– فضائل شام

دنیا میں اپنی خیرات وبرکات کو رکھا ہے لیکن بعض جگہوں کو اپنے خاص فضل وکرم سے نوازا ہے جیسے مکہ مکرمہ جو دنیا کی سب سے  بابرکت جگہ ہے وہیں پر اللہ تعالی کا  گھر ہے ،اسی جگہ  کو اپنے سب سے آخری اور سب سے محبوب نبی کی جائے پیدائش اور جائے بعثت بنایا ہے ،مکہ سے ہجرت کے وقت نبی ﷺ نے فرمایا تھا؛وَاللَّهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ، وَلَوْلاَ أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ الترمذی؛3952،ابن ماجہ؛3108،احمد؛4/305عن عبداللہ بن عدی

اللہ کی قسم تو اللہ کی سب سے افضل زمین ہے اور میرے نزدیک اللہ کی سب سے محبوب زمین ہے ،اللہ کی قسم اگر یہاں سے مجھے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔

وہ جگہیں جنہیں اللہ تعالی نے بابرکت قرار دیا ہے ایک علاقہ شام کا بھی ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت سام اور انکی اولاد کا مسکن رہا ہے۔

شام اس سبز وشاداب علاقے کا نام ہے جو ایشیاء کے شمال غرب میں واقع ہے،اسکی حدود طول  میں دریائے فرات سے لیکر عریش مصر تک ہیں اور جنوب میں جبل ۔۔۔۔سے لیکر بحر روم تک ہیں۔آج جغرافیائی لحاظ سے فلسطین،اردن،سوریا اورلبنان کا علاقہ شام کا علاقہ ہے

شام کو اسلامی شریعت اور اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے،شام ہزارہا انبیاء کا مسکن ومدفن رہاہے ،اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جائے ہجرت شام ہے ،

،نبی کریم ﷺ کے اسراء کی انتھا شام اور معراج کی ابتدا ارض شام سے ہے یہی علاقہ برسہا برس تک اسلامی خلافت کا مرکز رہا ہے جہاں سے اسلامی فتوحات چاروں طرف پہیلیں حتی کہ اللہ تعالی نے اس زمین قیامت سے قبل مسلمانوں کی آخری جائے پناہ قرار دی ہے ، فتنوں کے دور میں اس زمین کی طرف ہجرت اور سے اپنا مقام بنانے کا رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو حکم دیا ہے۔

” سَتَخْرُجُ نَارٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ أَوْ مِنْ بَحْرِ حَضْرَمَوْتَ، قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ تَحْشُرُ النَّاسَ ” قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ فَمَاذَا (2) تَأْمُرُنَا قَالَ: ” عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ “ احمد؛2/53،مسند ابو یعلی؛5551،صحیح ابن حبان؛7305 عن عبداللہ بن عمر

اور یہی زمین ہے جسے ارض محشر ومنشر ہونے کا شرف حاصل ہے،لیکن چونکہ ہمارے یہاں لوگ اس علاقے کی اہمیت سے غافل ہیں ۔

اسلئے ذیل میں اس علاقے کے چند اہم فضائل کا ذکر کیا جاتا ہے۔

1۔برکتوں والی زمین

قرآن مجید میں ایک سے زائد جگہ شام خصوصا شام میں سے فلسطین کے علاقے کو برکتوں کا علاقہ کہا گیا ہے ،یہ علاقہ ظاہری اعتبار سے بھی برکتوں والا ہے جہاں کی زمین،بڑی زرخیر ہے،پانی کی فراوانی ہےاورہر قسم قسم کے عمدہ پھل پیدا ہوتے ہیں اور باطنی طور پر بھی یہ زمین بابرکت ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا معبد ومسکن رہا ہے اور مسجد اقصی میں نماز پڑہنا اجر میں اضافہ کا سبب ہے۔

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1) الاسراء

حضرت یوسف علیہ السلام نے مرنے سے قبل بنو اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ جب مصر سے ہجرت کریں تو میری لاش کو ساتھ لیتے جائیں اور شام میں دفن کردیں،حضرت موسی علیہ السلام کی بڑی تمنا تھی کہ شام میں مدفون ہوں لیکن جب انکی قوم سے انکی مخالفت کی اور اس مبارک سرزمین تک نہ پہنچ سکے اور میدان تیہ میں انکی وفات کا وقت ہوا تو اللہ تعالی سے دعا کی ؛یا رب میری موت ارض مقدس کے قریب سے قریب تر علاقے میں  ہو چنانچہ دعا کی اے رب میری ارض مقدسہ سے صرف ایک پتھر کے پہینکنے کے مقدار کے برابر ہو۔صحیح البخاری؛1339،مسلم؛2372

وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ (137) الاعراف

نیز دیکھئے الانبیاء؛71،81،سبا؛18

2۔اللہ تعالی نے اس علاقے کی قسم کھائی ہے

اور عادۃ قسم اس چیز کی کھائی جاتی ہے جو مخاطب اور مخاطب کے نزدیک اہم ہوتی ہے۔

وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ (1) وَطُورِ سِينِينَ (2) وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (3) التین

امام ابن کثیر رحمہ اللہ سورۃ التین کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ بعض ائمہ نے فرمایا؛یہ تین وہ مقامات  ہیں جن میں سے ہر ایک مقام میں اللہ تعالی نے بڑی بڑی شریعتوں والے تین  بڑے اولوا العزم رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے،تین اور زیتون کے مقام سے مراد بیت المقدس ہے جسمیں اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔طور سینین سے مراد سیناء ہے جس پر حضرت موسی علیہ السلام کو شرف ہم کلامی نوازا گیا اور بلد امین سے مراد مکہ مکرمہ ہے جس میں اپنے پیارے رسول محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔تفسیر ابن کثیر تفسیر سورۃ التین

3۔شام پر رحمان کے فرشتوں کا بازو ہے

«طُوبَى لِلشَّامِ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقُلْنَا: وَمَا ذَاكَ يَا نَبِيَّ اللهِ؟ فَقَالَ: «إِنَّ الْمَلَائِكَةَ نَاشِرَةٌ أَجْنِحَتَهَا عَلَى الشَّامِ»

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیٹھے قرآن لکھ رہے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا؛طوبی للشام،شام کے لئے خیر ہی خیر ہے (شام اہل شام کو عیش وآرام کی زندگی حاصل ہوگی)حضرت زید کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے سوال کیا کہ اسے اللہ کے رسول ایسا کیوں؟آپ نے فرمایا؛ اسلئے کہ رحمنا کے فرشتے شام پر اپنے بازوں پھیلائے ہوئے ہیں۔سنن الترمذی؛3954،احمد؛5/185،ابن حبان؛7304،الصحیحۃ؛503،الطبرانی الکبیر؛4934

امام عز بن عبدالسلام لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہ اشارہ فرمایا کہ شام کے لئے اللہ تعالی نے کچھ فرشتے متعین فرما دئے ہیں جو اسکی حفاظت فرما رہے ہیں ۔الارض المقدسہ لابراہیم العلی؛35 جیسا کہ آنے والی حدیث میں آرہا ہے

4۔اہل شام فتنوں سے زیادہ متاثر نہ ہونگے

عن ابن حَوالةَ، قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: “سيصير الأمرُ إلى أن تكونوا جنُوداً مُجنَّدةً، جندٌ بالشام، وجندٌ باليمن، وجندٌ بالعراق” قال ابن حَوالة: خِرْ لي يا رسول الله إن أدركتُ ذلك، فقال: “عليك بالشامِ فإنها خِيَرةُ اللهِ من أرضِه، يجْتبي إليها خِيَرتَه من عبادِه، فأما إن أبيتُم فعليكم بيَمَنِكم، واسقُوا من غُدُرِكم، فإن الله تَوكّل لي بالشامِ وأهلِه” ابوداؤد؛2483،احمد؛4/110

فتنوں کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا؛حالات اسطرح ہوجائیں گے کہ تم لوگ گروہ اور لشکروں میں تقسیم ہوجاؤگے ،ایک لشکر شام میں ہوگا،ایک یمن میں ہوگا اور ایک عراق میں راوی حدیث حضرت عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  کہ یہ سنکر میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول !اگر میں ان حالات کو پالوں تو کس گروہ میں شامل ہونا میرے لئے انتخاب فرماتے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا؛تم شام کو اختیار کرنا اسلئے کہ شام اللہ کا پسندیدہ علاقہ ہے،اللہ تعالی اپنے پسندیدہ  بندوں کو یہیں جمع کریگا لیکن اگر تم شام سے انکار کرو یعنی وہاں نہ جاسکو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا اور اپنے تالابوں کا پانی پینا،بلاشبہ اللہ تعالی نے مجھے شام اور اہل شام کے متعلق ضمانت دی ہے۔

یعنی شام کی یمن پر فضیلت کی وجہ یہ  ہے کہ شام پر اللہ  کا خصوصی کرم ہے اور وہاں کے لوگ  فتنوں میں اوروں کے مقابلے کم ملوث ہونگے ۔آج جو فساد شام میں دکھائی دے رہے رہا ہے اس سے فسادی اور دین کے باغیوں کی چھٹائی ہورہی ہے

5۔فتنوں کے ایام میں اہل ایمان کی اکثریت شام میں ہوگی۔

اہل شام کے فتنوں میں کم مبتلا ہونے کا ظاہری سبب یہ ہوگا کہ جب یہ دنیا فتنوں سے بھر جائیگی تو ایسے وقت اہل ایمان کی اکثریت شام کے علاقے میں ہوگی چنانچہ ارشاد نبوی ہے

میں نے خواب دیکھا کہ میرے پاس فرشتے آئے اور میرے تکیہ کے نیچے سے کتاب کا عمود اٹھا لیا اور اسے شام کی طرف لے کر چلے گئے تو سن لو جب فتنے ظاہر ہونگے تو ایمان شام میں ہوگا۔ احمد؛4/198،مسند الشامیین؛1357 عن عمرو بن العاص

عمود کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں کہ کتاب کے سمجھنے میں جن پر اعتماد کیا جا سکے یعنی وہ لوگ جو کتاب کے پڑہنے اور سمجھنے والے ہیں۔

یہی حدیث بعینہ انہیں الفاظ میں حضرت ابودرداء سے بھی مروی ہے دیکھئے مسند احمد؛5/199، البزار؛4111، 10/48 نیز حضرت عبداللہ بن عمرو سے بھی مروی ہے دیکھئے مستدرک الحاکم؛4/509،الطبرانی الکبیر(المجمع؛10/58)

6۔حق پر قائم جماعت کا آخری مرکز شام ہوگا

ما سبق فضیلت کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے وہ مبارک جماعت جس سے متعلق نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ

عَنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَنْ يَزَالَ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى النَّاسِ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ»، مسلم؛171، 1921،البخاری؛3640

آجائیگا اور وہ اسی طرح غالب رہیں گے

متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خصوصا فتنوں کے دور میں یہ جماعت شام میں ہوگی یا انکا ظہور اور غلبہ شام میں زیادہ ہوگا، چنانچہ ارشاد نبوی ہے؛

عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَزَالُ أَهْلُ الْغَرْبِ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ» مسلم؛1925،مسند ابو یعلی؛783

اہل مغرب(شام) کے لوگ ہمیشہ حق پر قائم رہتے ہوئے غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

اس حدیث میں اہل مغرب سے مراد اہل شام ہیں جیسا کہ احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ رحمہا اللہ وغیرہ نے صراحت کی ہے

دیکھئے الصحیحۃ؛2/954،کیونکہ شام مدینہ منورہ سے جہت شمال مغرب میں واقع ہے

خود صحابی رسول حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بھی اس جماعت سے اہل شام مراد لیا ہے۔صحیح البخاری؛3641

ذیل حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ ملتا ہے

عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ، فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ، وَلَا يَزَالُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ، لَا يُبَالُونَ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ “مسند احمد؛3/436،الترمذی؛2192،ابوداؤد الطیالسی؛1172

جب اہل شام میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو تم میں کوئی خیر نہیں ہے ،میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی جو انہیں رسوا کرنا چاہے وہ کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا حتی کہ قیامت آجائے۔

ایک حدیث جسکی صھت مختلف فیہ ہے اس میں وارد ہے کہ آپ سے سوال کیا گیا کہ وہ لوگ کہاں ہونگے آپ ﷺ نے فرمایا؛وہ بیت المقدس اور بیت المقدس کے اطراف واکناف میں ہوں گے۔مسند احمد؛5/269،الطبرانی الکبیر؛7643 عن ابی امامہ

7۔مسلمانوں کا سب سے بہتر مقام

فتنوں کے ایام میں چونکہ اہل حق وایمان کی کثرت شام کے علاقے میں ہوگی جسکا نتیجہ ہوگا کہ ایک مؤمن کے لئے سب سے عمدہ جائے پناہ شام ہی ہوگا،ایک طویل حدیث میں ارشاد نبوی ہے

ومقر دار المؤمنین الشام سنن النسائی؛3591،احمد؛4/104

اور (فتنوں کے ایام میں) مسلمانوں کا اصل مرکز شام ہوگا

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ فُسْطَاطَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ بِالْغُوطَةِ، إِلَى جَانِبِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: دِمَشْقُ، مِنْ خَيْرِ مَدَائِنِ الشَّامِ “سنن ابوداؤد؛4298،احمد؛5/198،الحاکم؛4/486

8۔عیسی بن مریم کا نزول شام میں ہوگا

شام ہی میں جہاں مسلمانوں کی بہترین جماعت ہوگی اور حق پر قائم جماعت جہاد میں مشغول ہوگی تو انکی مدد کے لئے آسمان سے حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کا نزول ہوگا

«لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»، قَالَ: ” فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ: تَعَالَ صَلِّ لَنَا، فَيَقُولُ: لَا، إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَكْرِمَةَ اللهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ “مسلم؛156،احمد؛3/384،ابو یعلی؛2078

اور یہ امر متعدد حدیثوں سے واضح ہے کہ حضرت عیسی بن مریم کا نزول دمشق می ہوگا اور وہیں سے وہ بیت المقدس کا رخ کریں گے

عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ» الطبرانی الکبیر؛1/590

عیسی بن مریم علیہ السلام جامع دمشق کے مشرقی جانب واقع سفید منارہ پر نازل ہونگے۔

اس معنی میں متعدد حدیثیں ہیں دیکھئے تخریج احادیث فضائل الشام ودمشق للالبانی؛حدیث نمبر؛22،26

9۔ دجال کا خاتمہ

دنیا کا سب سے عظیم فتنہ جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوگا سوائے حرمین شریفین کے بالآخر اسکا خاتمہ بھی شام میں ہوگا چنانچہ ملحمہ اورخروج دجال سے متعلق ایک لمبی حدیث میں ہے کہ

فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ، يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ، إِذْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّهُمْ، فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللهِ، ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ، وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللهُ بِيَدِهِ، فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ مسلم؛2897

پس اس دوران کہ وہ دجال سے قتال کے ئے نکلنے کی تیاری میں مشغول ہونگے ،صفیں درست کررہے ہونگے ،اقامت ہوچکی ہوگی کہ عیسی بن مریم علیہ السلام نازل ہوگی،چنانچہ وہ دجال سے مقابلہ کے لئے انکی قیادت کریں گے تو جب اللہ کا دشمن انہیں دیکھے گا تو اس طرح پگھلنا شروع ہوگا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے ،اگر عیسی علیہ السلام اسے اس طرح چھوڑ دیں تو پگھل کر ہلاک ہوجاتا لیکن اللہ تعالی اسے انکے ہاتھ  قتل کریگا اور لوگوں کو اپنے نیزے پر اسکا خون دکھلائیں گے۔

10۔روئے زمین کی دوسری مسجد شام میں اس سرزمین میں بیت المقدس یا مسجد اقصی ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے اور وہاں نماز پڑہنے کی فضیلت وارد ہے،اسے اللہ کے رسول ﷺ نماز پڑہنے کی بہترین جگہ قرار دیا ہے۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سوال کیا؛اے اللہ کے رسول! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا؛مسجد حرام،میں نے دوبارہ سوال کیا؛اس کے بعد کونسی مسجد بنائی گئی ؟ آپ نے فرمایا؛مسجد اقصی،ہم نے پوچھا؛دونوں کی تعمیر میں کتنا فاصلہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا؛چالیس سال البخاری؛3366،مسلم؛520

اس مسجد میں ایک نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلہ میں 250 سو نمازوں کا ہے،چنانچہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ باہم یہ بحث کر رہے تھے کہ مسجد نبوی افضل ہے یا مسجد اقصی تو نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا؛صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ فِيهِ، وَلَنِعْمَ الْمُصَلَّى، وَلَيُوشِكَنَّ أَنْ لَا يَكُونَ لِلرَّجُلِ مِثْلُ شَطَنِ فَرَسِهِ مِنَ الْأَرْضِ حَيْثُ يَرَى مِنْهُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الدُّنْيَا جَمِيعًا – أَوْ قَالَ: خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا الحاکم؛4/509

میری مسجد میں نماز مسجد اقصی کے مقابلہ میں چار گنا زیادہ ہے البتہ مسجد اقصی بڑی عمدہ جگہ نماز پڑہنے کی ہے اور وہ وقت دور نہیں ہے جب انسان کے لئے کھوڑا باندہنے کی رسی کی جگہ جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکے پوری اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگی۔ الطبرانی الاوسط؛المجمع؛4/7،دیکھئے الصحیحۃ؛2902

ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے؛

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، سَأَلَ اللَّهَ ثَلَاثًا: حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ، وَمُلْكًا لَا يَنْبَغِي لَأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ، وَأَلَّا يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِيهِ، إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ” فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أُعْطِيَهُمَا، وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ» احمد؛2/176،النسائی؛694،ابن ماجہ؛1407

نوٹ؛اس بارے میں وارد حدیثیں مختلف ہیں بعض میں 500 نمازوں کا ذکر ہے جیسا صحیح ابن خزیمہ اور مسند البزار وغیرہ میں حجرت ابودرداء کی حدیث میں ہے دیکھئے الترغیب والترہیب ،امام بزار امام ابن خزیمہ اور حافظ ابن حجر الفتح ؛3/52 رحمہم اللہ وغیرہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔

اور بعض حدیثوں میں ایک ہزار نماز کے برابر ثواب وارد ہے جیسے میمونہ بنت سعد کی روایت جو سنن ابن ماجہ؛1407 اور مسند احمد؛6/463 میں وارد ہے۔واللہ اعلم

11۔اللہ کے رسول ﷺ نے شام کی طرف  ہجرت کی ترغیب دی ہے

دنیا کے آخری مراحل میں جب  ہر طرف فتنے ہی فتنے ہونگے اس وقت اللہ کے نیک بندے کسی امن کی جگہ کی تلاش میں ہونگے اور اپنے دین کو بچانے کے لئے ایک جگہ سے دوسرے جگہ ہجرت کرجائیں گے ،اس وقت میں ہجرت کے لئے سب سے بہتر مقام بلاد شام ہوگا ،ارشاد نبوی ہے؛

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «سَتَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ، فَخِيَارُ أَهْلِ الْأَرْضِ أَلْزَمُهُمْ مُهَاجَرَ إِبْرَاهِيمَ، وَيَبْقَى فِي الْأَرْضِ شِرَارُ أَهْلِهَا تَلْفِظُهُمْ أَرْضُوهُمْ، تَقْذَرُهُمْ نَفْسُ اللَّهِ، وَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ» ابوداؤد؛2482،احمد؛2/84،الحاکم؛4/486

ہجرت میں ہجرت کا سلسلہ چلتا رہے گا،اہل زمین میں سب سے افضل وہ لوگ ہوں گے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ کا رخ کریں گے(قرب قیامت کے علاوہ)صرف برے لوگ ہی رہ جائیں گے ان کی زمینیں انہیں نکال باہر پھینکیں گی،اللہ تعالی کی ذات بھی انہیں برا جانے گی اور آگ ان کا حشر بندروں اور خنزیروں کے ساتھ کرے گی۔

12۔شام ہی ارض محشر ومنشر ہے

جب صور پھونکنے کے وقت قریب ہوگا تو دنیا کے باقی مائدہ لوگ جو زلزلوں ،باہمی شرائیوں ،دجال کے فتنوں اور یاجوج وماجوج وغیرہ سے بچے ہونگے انہیں ہر طرف سے ارض شام میں جمع کیا جائیگا اوریہیں ان پر صور پھونکا جائیگا۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں

کتاب وسنت اور انبیاء سابقین سے جو منقول ہے نیز عقل وحس کے ساتھ ساتھ بزرگوں کے اندازے میں ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے خلق وامر کی ابتدا مکہ مکرمہ سے ہوئی جو ام القری اور ام الخلق ہے،یہیں سے رسالت محمدیہ کی ابتدا ہے جس سے ساری زمین منور ہوئی اس گھر کو اللہ تعالی نے لوگوں کے بقا کا سبب بتایا ہے ،چنانچہ اولین مراحل میں اسلام کا ظہور حجاز میں سب سے زیادہ تھا اور مذکورہ دلائل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ ملک جو نبوی منہج پر تھا وہ شام میں تھا۔شام ہی کی طرف حشر ہوگا۔بیت المقدس اور اسکے اردگرد کے علاقے کی طرف خلق وامر پلٹ آئے گا،اسی طرف  مخلوق کا حشر ہوگا،آخری زمانے میں  اسلام شام میں زیادہ ظاہر رہے گا جسطرح کہ مکہ بیت المقدس  سے افضل ہے  اس طرح  اس امت کا اول حصہ بھی آخری حصے سے افضل ہے اور آخری  زمانے میں معاملہ  شام کی طرف اسی طرح  واپس  آئے گا جسطرح  کہ اللہ کے رسول ﷺ کی  اسراء کی  ابتدا  مسجد حرام سے ہوئی اور مسجد اقصی انتہا رہی،چنانچہ آخری زمانے میں روئے زمین کے سب سے اچھے لوگ  وہی ہونگے جو حضرت ابراہیم کی ہجرت گاہ پر ہونگے۔الفتاوی؛27/43، 44

ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے

عَنْ مَيْمُونَةَ، مَوْلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْتِنَا فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ: «أَرْضُ الْمَحْشَرِ وَالْمَنْشَرِ ائْتُوهُ فَصَلُّوا فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاةً فِيهِ كَأَلْفِ صَلَاةٍ فِي غَيْرِهِ» قُلْتُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَتَحَمَّلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: «فَتُهْدِي لَهُ زَيْتًا يُسْرَجُ فِيهِ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَهُوَ كَمَنْ أَتَاهُ»  احمد؛6/463،ابن ماجہ؛1407

هَاهُنَا تُحْشَرُونَ. هَاهُنَا تُحْشَرُونَ. هَاهُنَا تُحْشَرُونَ احمد؛33/214

13۔شام کے لئے نبی ﷺ کی خاص دعا

بلاد شام کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ نے شام کے لئے خصوصی طور پر دعا کی ہے ،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ  نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا؛” اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا ”  اے ہمارے رب ہمارے شام میں برکت عطا فرما،اے اللہ ہمارے لئے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔لوگوں نے عرض کیا ؛ہمارے نجد کے لئے بھی دعا کردیں،تو نبی ﷺ نے دوبارہ فرمایا؛” اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا ” اے اللہ ! ہمارے لئے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے پھر سوال کیا کہ اے اللہ کے نبی ! ہمارے نجد کے لئے بھی دعا فرمادیں،تو نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا؛«هُنَاكَ الزَّلاَزِلُ وَالفِتَنُ، وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ» البخاری؛7094الفتن،الترمذی؛13953،احمد؛2/90 ،118

وہاں زلزلے اور فتنے پیدا ہونگے اور وہیں سے شیطان کی سینگ ظاہر ہوگی یعنی شیطانی گروہ وہیں سے نکلے گا۔

ایک دوسری حدیث میں ارشاد نبوی ہے

ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَفِي صَاعِنَا (1) ، وَمُدِّنَا، وَيَمَنِنَا، وَشَامِنَا، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ ” فَقَالَ: ” مِنْ هَاهُنَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ، مِنْ هَاهُنَا الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ “ احمد؛2/126

اے اللہ !ہمارے مدینہ میں برکت عطا فرما،ہمارے مد میں ہمارے صاع میں اور ہمارے یمن وشام میں ہمارے لئے برکت نازل فرما پھر آپ ﷺ مشرق کی طرف جہاں سورج طلوع ہوتا ہے متوجہ ہوئے اور فرمایا؛یہاں سے شیطان کی سینگ نکلے گی،یہاں سے زلزلے اور فتنے ظاہر ہونگے۔

14۔شام میں شہداء کی کثرت

نبی کریم ﷺ کے مولی حضرت ابو عسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛ ” أَتَانِي جِبْرِيلُ بِالْحُمَّى، وَالطَّاعُونِ، فَأَمْسَكْتُ الْحُمَّى بِالْمَدِينَةِ، وَأَرْسَلْتُ الطَّاعُونَ إِلَى الشَّامِ، فَالطَّاعُونُ شَهَادَةٌ لِأُمَّتِي، وَرَحْمَةٌ، وَرِجْسٌ عَلَى الْكَافِرِ”احمد؛5/81،الطبرانی الکبیر؛22/392،ابن ابی عاصم فی الآحاد والمثانی؛466،الصحیحۃ؛761

میرے پاس حضرت جبریل بخار اور طاعون لے کر آئے،بخار کو تو میں نے مدینہ میں روک لیا اور طاعون کو شام کی طرف بھیج دیا،چنانچہ طاعون میری امت کے لئے شہادت اور باعث رحمت ہےالبتہ کافر کے لئے عذاب ہے۔

اسی حدیث کا اثر تھا کہ سن 48ھ میں شام میں طاعون پھیلا جس میں ہزاروں مسلمان کام آئے ،ان میں متعدد کبار صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی تھے جیسے حضرات ابوعبیدہ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنھما بھی تھے۔چنانچہ ابو عسیب الاحدب بیان کرتے ہیں کہ(جس زمانے میں طاعون پھیلا تھا) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ شام میں خطبہ دینے کھڑے ہوئے جس میں طاعون کا ذکر کیا ،چنانچہ فرمایا؛یہ طاعون تمہارے رب کی طرف سے رحمت ،تمہارے نبی کی دعا اور اس میں تمہارے نیک لوگوں کا فوت ہونا ہے پھر فرمایا؛اے اللہ !اس رحمت کا کچھ حصہ آل معاذ کو بھی ملے،پھر اپنی اس جگہ سے نازل ہوئے اور اپنے بیٹے حجرت عبدالرحمن بن معاذ کے پاس گئے،انہیں دیکھکر حضرت عبدالرحمن بن معاذ نے فرمایا؛الحق من ربک فلا تکونن من الممترین آپ کے رب کی طرف سے یہ سراسر حق ہے،خبردار آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا،اپنے صابر بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سنکر حضرت معاذ نے فرمایا؛ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔احمد؛5/240،الطبرانی الکبیر؛20/121

15۔شام اللہ تعالی کی منتخب زمین ہے اور وہاں اللہ کے منتخب بندے رہیں گے

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛«صَفْوَةُ اللهِ مِنْ أَرْضِهِ الشَّامُ، وَفِيهَا صَفْوَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ وَعِبَادِهِ، وَلَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي ثُلَّةٌ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ»

 شام کی سرزمین اللہ کی منتخب زمین ہے وہاں اللہ کی پسندیدہ مخلوق اور پسندیدہ بندے رہائش پذیر ہیں اور  میری امت کی ایک جماعت جنت میں اسطرح داخل ہوگی کہ انکا نہ حساب لیا جائے گا اور نہ ہی ان پر کسی قسم کا عذاب ہوگا۔یہ مفہوم دیگر متعدد حدیثوں سے ثابت ہے ۔دیکھئے الاعلام بسن الھجرۃ الی الشام للبقاعی؛88، 89 ،معجم الطبرانی الکبیر؛8/229، 7796، الصحیحۃ؛1909

کسی سرزمین کا اللہ تعالی کے نزدیک منتخب ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہاں  اعمال خیر بکثرت ادا کئے جائیں گے اور بندوں  کا اللہ کے نزدیک منتخب ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ  اللہ کے طاعت شعار اور عبادت  گزار  بندے ہونگے۔

نیز اس حدیث کے اسلوب سے یہ بھی پتا چلتا ہے یہ مبارک جماعت جسکا  ذکر اس حدیث کے آخر میں کیا گیا ہے ان میں سے اکثر اہل شام یا شام کے باشندے ہوں گے واللہ اعلم دیکھئے التنویر شرح الجامع الصغیر؛6/584

وضاحت

اس حدیث میں وارد لفظ نجد کو لیکر ہمارے بہت سے بدعت پرست بھائی سعودیہ عربیہ پر اعتراض کرتے ہیں اور شیخ محمد بن عبدالوھاب رضی اللہ عنہ  کی دعوت کو متھم کرتے ہیں  ،حالانکہ انکا ایسا کرنا جہاں ایک  طرف  حقیقت کے خلاف  ہے وہیں توحید وسنت سے نفرت وبغض کی علامت ہے کیونکہ

اولا؛اس حدیث میں وارد لفظ  نجد سے تمام محدثین نے عراق اور اسکا صحرائی علاقہ مراد لیا ہے جو مدینہ منورہ سے مشرق  میں واقع ہے ،اسلئے  کہ بعض حدیثوں  میں صراحت کے ساتھ  عراق کا لفظ  وارد  ہے اور بعض  حدیثوں میں عراق کی طرف  اشارہ کرکے نبی ﷺ  نے یہ الفاظ  ارشاد  فرماتے ہیں۔

حضرت عبد اللہ  بن عمر  رضی اللہ  عنھما سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو دیکھا کہ اپنے ہاتھ سے عراق کی طرف اشارہ  کررہے تھے اور تین بار فرمایا؛ہوشیار رہنا فتنہ یہاں آئے گا ،دہیان دینا فتنہ یہاں سے اٹھے گا جہاں سے شیطان کی سینگ نکلتی ہے۔احمد؛4/143،مسند احمد کے محققین لکھتے ہیں کہ اسکی سند شیخین کی شرط پر ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما  سے ایک اور روایت ہے  کہ ایک بار نبی ﷺ نے دعا کی اور اپنی دعا میں  فرمایا؛

” اللهم بارك لنا في مكتنا، اللهم بارك لنا في مدينتنا، اللهم بارك لنا في شامنا، وبارك لنا في صاعنا، وبارك لنا في مدنا

اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے مکہ میں برکت عطا فرما،اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت عطا  فرما،اے اللہ ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت  عطا فرما،اور ہمارے صاع میں  برکت عطا فرما اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔

یہ سنکر ایک شخص  نے عرض کیا؛اے اللہ کے رسول (ﷺ)اور ہمارے عراق کے لئے ،آپ ﷺ نے اس سے اعراض فرمایا،آپ ﷺ نے پہلی دعا تین بار کی اور تینوں بار وہ شخص عراق کا نام لیتا اور نبی ﷺاس سے اعراض کرتے پھر فرمایا؛ بها الزلازل والفتن، وفيها يطلع قرن الشيطان الصحیحۃ؛2246

علامہ البانی مرحوم نے اس حدیث کو متعدد کتب حدیث سے نقل کرکے اس کی سند پر ایک لمبی بحث کی ہے اور اسے صحیح  قرار دیا ہے ،نیز شرح السنۃ للبغوی کے محققین نے بھی اس حدیث کو حلیۃ الاولیاء ؛6/133 کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے۔شرح السنۃ للبغوی؛14/207

نیز اس حدیث اور اس معنی کی ایک اور حدیث کو حضرت عبداللہ بن عباس کی سند سے امام ہیثمی رحمہ اللہ مجمع الزوائد میں  نقل فرما کر اسکے تمام راویوں کو ثقہ قرار دیتے ہیں ،مجمع الزوائد؛3/305،1/2

یہ دونوں حدیثیں  اور اسطرح  کہ دیگر صحابہ سے مروی حدیثیں  اس بارے میں بالکل صریح ہیں  کہ نجد سے  مراد  عراق ہے نہ آج  کا مشہور نجد۔واللہ اعلم

ثانیا؛تاریخی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو عراق اور بالاخص عراق کے وہ علاقے جو مدینہ منورہ سے مشرق شمس کی سمت واقع ہیں  جیسے  بصرہ اور کوفہ امر کے قرون اولی میں اٹھنے والے تمام فتنے  اور بدعتیں  اس علاقے  سے سر اٹھاتی ہیں جیسے حضرت عثمان  سے بغاوت کا علم سب سے پہلے عراق سے بلند ہوا،خلق قرآن کا فتنہ ،شیعیت کا فتنہ اور خارجیت کا فتنہ ہر ایک کی اصل  عراق کی سرزمین ہے۔

ثالثا؛کسی جگہ کا مبارک ہونا اسکا  یہ معنی نہیں ہے  کہ وہاں  جو بھی شخص ہو اور جو کام بھی وہاں کیا جارہا ہو وہ  شریعت کی نظر  میں اچھا  اور قابل ستائش ہے  ،اسی طرح کسی جگہ کا برا ہونا اسکا یہ معنی  قطعا نہیں ہے کہ وہاں  بھی جو شخص بھی ہو یا وہاں سے جو تحریک بھی اٹھے وہ مذموم اور شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے بلکہ مذموم ومحمود کا معیار شریعت کی مخالفت وموافقت ہے۔واللہ اعلم

دیکھئے علامہ البانی مرحوم کی الصحیحہ؛5/305، 306 نیز تخریج احادیث فضائل الشام ودمشق؛26، 27

عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: تَذَاكَرْنَا وَنَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مَسْجِدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ مَسْجِدُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ فِيهِ، وَلَنِعْمَ الْمُصَلَّى، وَلَيُوشِكَنَّ أَنْ لَا يَكُونَ لِلرَّجُلِ مِثْلُ شَطَنِ فَرَسِهِ مِنَ الْأَرْضِ حَيْثُ يَرَى مِنْهُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الدُّنْيَا جَمِيعًا – أَوْ قَالَ: خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا الحاکم؛4/509،المعجم الاوسط؛8226، 9/8226،شعب الایمان؛3849، 6/42

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ  رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے یہ گفتگو کررہے تھے مسجد نبوی افضل ہے کہ مسجد بیت المقدس تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛میری اس مسجد میں ایک نماز بیت المقدس میں پڑہی گئی چار نماز کے برابر ہے،ویسے وہ نماز پڑہنے کی بہترین جگہ ہے اور وہ وقت قریب ہے کہ ایک مؤمن کے لئے اتنی جگہ بھی ملنا  مشکل ہوگا  کہ وہ وہاں سے بیت المقدس کو دیکھ لے اگر صرف اتنی جگہ بھی مل گئی تو وہ اسکے نزدیک دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا۔

نبی کریم ﷺ کی یہ مبارک حدیث بیت المقدس سے متعلق کئی امور پر روشنی ڈالتی ہے،بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ حدیث مبارک بیت المقدس کی موجودہ تاریخ سے متعلق نبی ﷺ کا ایک معجزہ ہے،

لہذا ہمیں اس حدیث پر غور کرنا اور موجودہ دور میں بیت المقدس کی کیا صورت حال ہے اس پر توجہ دینی چاہئے۔

1۔اس وقت بیت المقدس مسلمانوں  کی پہنچ سے بہت دور تھا اور اس پر دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت یعنی روم کا  قبضہ  تھا،ایسے حالات میں نبی ﷺ کا بیت المقدس میں نماز کی اہمیت اور مسلمانوں کے دل میں اسکی محبت کی یہ خبر دینا گویا  بیت المقدس کے فتح کی خوشخبری سنانا ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق ہے،یہی وجہ ہے کہ آپ کی وفات کے  بعد صدیق وفاروق رضوان اللہ علیھم اجمعین کی پہلی کوششوں  میں بیت المقدس کو فتح کرنا تھا،چنانچہ بیت المقدس سن 15ھ عہد فاروقی میں فتح  ہوا۔

2۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا بیت المقدس سے متعلق معلومات کا اہتما کرنا اور یہ بات یقینی ہے کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کے سامنے اسکی اہمیت بیان  فرماتے تھے ،اسکی عظمت کا ذکر  کرتے تھے تبھی تو صحابہ کو یہ شبہہ ہوا کہ شاید  بیت المقدس کی اہمیت مسجد  نبوی سے بھی زیادہ  ہے۔

3۔اس حدیث سے  مسجد اقصی کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ شریعت  میں اسکا ایک  مقام ہے اور یہ مقام مسلمانوں کے دل میں باقی رہے گا۔

4۔ مسجد کی فضیلت اور اسمیں  نماز کے اجر کا زیادہ ہونا،چنانچہ  نبی ﷺ نے”ولنعم المصلی ھو” وہ نماز پڑہنے کی بہترین جگہ ہے۔

نیز آپ نے فرمایا کہ اس مسجد میں نماز دیگر  مسجدوں کے مقابلے ڈھائی سو گنا زیادہ ہے۔

5۔ابتدا میں مسلمانوں  کا قبلہ بیت المقدس  رہا ہے،اب اگر چہ اسکا قبلہ ہونا منسوخ ہوگیا ہے لیکن اسکی اہمیت باقی ہے اور قیامت تک باقی  رہے گی۔

6۔بہت ممکن ہے ایک وقت آئے کہ یہ مقدس زمین مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے  حتی کہ اسکے اردگرد بھی انہیں رہائش نصیب نہ ہوگی۔

7۔ لیکن اس وقت بھی مسلمانوں کے دلوں میں اسکی ایسی محبت ہوگی کہ ایک مسلمان کے لئے کچھ دور پر صرف  اتنی   زمین مل جائے کہ وہ بیت المقدس کو دیکھ سکے تو یہ اسکے لئے دنیا  اور دنیا کی ہر چیز سے عزیز ہوگا۔

8۔نیز مسلمانوں خصوصا بیت المقدس کے اردگرد رہنے والوں کو یہ متنبہ کیا جارہا ہے کہ بیت المقدس کی حفاظت تمہاری ذمہ داری  ہے،اسکی خدمت اور اسکا دفاع تمہارے باعث شرف ہے۔

سن 1948ھ میں اسرائیلی حکومت کی بنیاد ڈالکر اور سن 1967ھ میں  قدس پر حملہ کرکے یھود نے اپنا  قبضہ  فلسطین اور خاصکر  قدس پر محکم  کرلیا،

تو بیت المقدس  کو مکمل اپنی تحویل  میں لینے کے ئے  درج ذیل  چالیں چلیں اور چل رہے ہیں

1۔مسجد اقصی کے ارد گرد چاروں طرف سے نئی یہود آبادیاں بنا رہے ہیں جس میں وہ کافی  حد تک کامیاب ہیں  ،اگر چہ ساری دنیا کی حکومتیں اسکی مخالفت کررہی ہیں۔

2۔قدس کا وہ  علاقہ  جہاں مسلمان آبادی  ہے وہاں  کی زمینون کی قیمت  غیر معمولی  طور پر بڑھا  رہے ہیں ،تاکہ  کوئی  مسلمان وہاں  زمین یا گھر نہ خرید سکے اور خریدے تو کوئی اسرائیلی ہی خریدے جسکو دنیا کی  دیگر  یہودی  تنظیمیں مدد دے رہی ہیں۔

اور اگر  کوئی مسلمان  اس زمین کا مالک اور وہ کسی یھودی کے ہاتھ نہیں بیچنا چاہتا تو فلسطین کے اندر یا باہر کے کسی مسلمان کو تیار کرتے ہیں ،چنانچہ  وہ مسلمان سے اس زمین کو خرید کر پھر کسی یہودی کے ہاتھ بیچ دیتا ہے۔

3۔قدس کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کی کوشش تاکہ مسلمان اسے چھوڑ کر نکل جائیں ،اسکی صورت یہ ہے کہ قدس میں داخل ہونے کے لئے ہر طرف سے چیک پوسٹ بنا رکھا ہے اور کسی بھی ایسے شخص کو باہر سے نہیں آنے دیتے جو قدس کا رہنے والا نہیں ہے حتی کہ پاس پڑوس کے شہروں سے اگر کوئی اپنے رشتے داروں سے ملنے آنا چاہتا ہے  تو اسے اجازت نہیں ملتی اور ملتی بھی ہے تو مشکل سے اور محدود وقت کے لئے۔

4۔اسی طرح قدس کے اردگرد امن کے قیام کے نام پر پولیسوں اورف وجوں کو متعین کررکھا ہے جسکی وجہ سے مسلمانوں کی نقل وحرکت کم ہے جبکہ یہود کو مکمل آزادی حاصل ہے وہ جسطرح چاہیں آئیں اور جائیں یہی وجہ ہے کہ اب قدس پر یہود کی آبادی بڑھ گئی ہے اور مسلمانوں کی آبادی انکے مقابل میں کم ہوگئی ہے اور وہ بھی صرف بیت المقدس کے مشرقی جانب۔

قدس کے جو اصلی باشندے ہیں یعنی مسلمان یہود نے انکے مستقل وجد کو تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ یہ واضح کردیا ہے  کہ تم لوگ یہاں کے اصل باشندے نہیں ہو لہذا تمہاری حیثیت یہاں پر وقتی طور پر اقامت پذیر لوگوں کی ہے ،اسی لئے اگر کوئی شخص قدس سے باہر  ساتھ سال رہ جائے تو اسکا حق چھین لیا جاتا ہے اور اسکی املاک پر قبضہ کرلیا جاتا ہے۔

6۔ایک مسلمان کے لئے اب مسجد اقصی کے قریب رہائش بڑی خطرناک صورت اختیار کرگئی ہے ،عموما ایسا ہوتا ہے کہ رات کی تاریکی میں جب وہ نماز کے لئے یا کسی اور مقصد کے ئے نکلتے ہیں تو ان کا کوئی چھپا ہوا شخص ان پر کسی دھار دار چیز سے حملہ کردیتا ہے۔

اسطرح یہود کی یہ پلاننگ ہے کہ مستقبل قریب میں قدس اور مسجد اقصی کے قریب کوئی مسلمان نہ رہ جائے تاکہ بیت المقدس  سے متعلق  انہیں اپنی من مانی کرنے اور اسے ڈھاکر وہاں پر ہیکل سلیمانی تیار کرنے کا موقع ہاتھ آجائے۔

زر الذهاب إلى الأعلى